پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کئی فیصلہ کن موڑآئے ،ان لمحات میں بطور قوم ہمارا رویہ کیا رہا اور کیا نہیں یہ الگ بحث ہے مگر پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان پھر ایک نازک موڑ پر آگیا ہے۔سنگین نوعیت کے وائٹ کا لر ز کرائمز کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف پاکستان کے اداروں ،سیاسی قوتوں بلکہ عوام پر بھی سوال اٹھے گا کہ کیا ہم ہمیشہ کی طرح ٹائی ٹینک کے سازندوں والا رول ہی ادا کریں گے یا ہم یو کرائن اور آئس لینڈ کی عوام کی طرح حکمرانوں کومجبور کریں گے کہ اب احتساب نا گزیر ہے۔
پانا مہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعدجس بھونڈے انداز میں وزیر اعظم نوازشریف سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے ،اس سے ابہام ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا ہے ،حکومت نے جوڈیشل کمیشن کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔پاکستان کی یہ بڑی بدنصیبی ہے کہ جب کسی معاملے پر مٹی پاؤ پالیسی اپنانی ہو تو یا کمیٹی بنا دی جا تی ہے اور معا ملہ ذرا سنگین ہو تو کمیشن بنا دیا جا تا ہے مگراس دفعہ اپوز یشن کی بھرپور مخالفت کی وجہ سے مٹی پاؤ اتنا آسان نظر نہیں آتا اور معاملہ جب عالمی نوعیت کا ہو تو یہ اور بھی مشکل ہے ۔
اس بار کمیشن بنا نے کی نوید سنا نے پر نواز شریف کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں اور کمیشن بنا نے کے اعلان نے ان کی پوزیشن کو مزید کمزور کر دیا ہے ،پانا مہ لیکس کا معاملہ تحقیقات کا ہے جو متعلقہ ریاستی اداروں کی آئینی وقانونی ذمہ داری بھی ہے اور قومی فریضہ بھی ہے یہ کام بنیادی طور پر نیب،ایف آئی اے،ا ور ایف بی آر کاہے اوران اداروں کو جو تحقیقات میں مزیدمدددے سکتا ہے وہ فرانزک آڈٹ ہے جو کسی اچھی شہرت رکھنے والی بین االااقومی کمپنی سے کروایا جاسکتا ہے جس میں ان تمام افراد جن کا اس لسٹ میں نام ہے ان کے اثاثہ جات اور کاروبار کاآڈٹ کیا جا ئے ۔
پانامہ لیکس میں پہلے صرف وزیراعظم کے بچوں کے نام آرہے تھے مگر حالیہ انکشاف کے مطابق وزیر اعظم کی بھی دوآف شور کمپنیز ہیں اس میں کتنی صداقت ہے یا نہیں یہ تو تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔مگر حالیہ صورت حال میں میاں نوازشریف پہ بھاری اخلا قی ذمہ داری آن پڑی ہے ۔
قوم کواچھی طرح یاد ہے کہ سرے محل پر بہت شور مچایا گیا تھا کہ آصف زرداری نے سرے محل ایک سمندر پار کمپنی کے ذریعے خریدا ہے اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں تھی اس میں کہیں منی لا نڈرنگ کا پیسہ ملوث نہیں تھا مگر اسے سیاسی طور پرہضم نہیں کیا گیا تھا۔شریف بردران نے پارک لین میں فلیٹس ایک غیر ملکی فرم کے ذریعے خریدے اور وہ فرم بھی شریف برادران کی ہی ملکیت ہے تو کیا اس بات کو سیاسی طور پر ہضم کر لیا جائے ؟
سیاسی طور پر اگر سرے محل خریدنا نا جا ئزہے تو پارک لین میں فلیٹس خریدنا کیسے جائزہے۔مگر نواز شریف کے صاحبزادے فرماتے اس میں کچھ غیر قانونی نہیں ہے۔ آف شور کمپنیاں بنا نا بھی جائز ہے اور ان میں پیسہ رکھنا بھی اور پھر اس پیسے سے جائیدادیں بنا نا بھی جا ئز ہے ۔حسین نواز سے پوچھنا چاہیے کہ جب ان کے والد کو 1981 میں پنجاب کاوزیر خزانہ بنایاگیا تھا تو ان کے خاندان کے پاس کتنی فیکٹریاں تھیں؟اور اب کتنی ہیں ؟کیا ان کے خاندان نے پارک لین کے فلیٹس اور بیرون ملک کمپنیوں کا بھی اپنے اعلان کردہ اثاثوں میں ذکر کیا ہے کبھی ؟
اگر حسین نواز ایمانداری سے ان سوالات کا جواب قوم کو دے دیں تو نہ صرف ان کی بلکہ پورے شریف خاندان کی مالی حالت کا اندازہ لگانا آسان ہو جائے گا ۔یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نواز شریف ضیاء کی سر پر ستی میں آنے سے پہلے محض ایک درمیانے درجے کے کاروباری تھے اور اتفاق فاونڈری کے ما لک تھے۔ اس کے اثاثہ جات کیا تھے مگر جیسے ہی شریف برادران پر جنرل ضیا نے اپنادست شفقت رکھا اس خاندان نے دن دوگنی اور را ت چو گنی ترقی کی۔
اور پھر یہ روایت چل نکلی اس سے قبل سیاست اور کاروبار کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ پاکستان کے 22 خاندان ایسے تھے جن کے پاس پاکستان کی دولت کا بڑا حصہ تھا مگر ان کا تعلق صنعت و تجارت سے تھا سیاست سے بالکل دور تھے مگر ضیاء کے آتے ہی پاکستان میں سیاست اور تجارت کا امتزاج دیکھنے کو ملا ۔اور شریف برادران اس کی ایک اہم مثال ہیں۔ کاروبار اور سیاست کا امتزاج کسی بھی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔
سوائے وطن عزیز کے دنیا کے بڑے رہنماوں کو دیکھ لیں کاسترو سے لے کر جناح تک کسی کا بھی تعلق کاروبار سے نہیں تھا۔ ان میں سے کوئی بھی سمندر پار کمپنیوں کے مالک نہیں تھے اور نہ ایسی کمپنیوں کے ذریعے کاروبار کرتے تھے نہ ہی ان کے بچوں کے نام پر بیرون ملک جائیدادیں تھیں ۔قیادت کادعویٰ کرنے والے نہ تو بینکوں سے اربوں کے قرض لیتے ہیں اور نہ ہی انھیں زیر التواء رکھتے ہیں ۔
باقی معاملات کی طرح پانامہ لیکس میں بھی چھوٹے بڑے میاں صاحبان کا موقف ہے کہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہیں مگر کیا غیر اخلاقی بھی نہیں ہیں ؟
کیا جس ملک کی 20کروڑ عوام میں سے زیادہ تر سسک رہی ہو جس ملک کی معیشت کی حا لت بدتر ہوتی جا رہی ہو جس ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہو جس ملک میں اپوزیشن کے لوگوں کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں اٹھا کر 90 دن حراست میں رکھا جاتا ہو وہاں شریف برادران کی آف شور کمپنیوں سے لے کر ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے کارکنوں کو مارنا سب سب قانونی ہے تو قوم کو جان لینا چاہیے کہ شریف برادران سیاستدان نہیں کاروباری ہیں اور کاروبارکی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں، اس لیے میاں صاحب ہر طرح کی اخلاقی ذمہ داری سے بری الذمہ ہیں ۔
♠
7 Comments