دوستین بلوچ
قومی طاقت کئی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں اندرونی اتحادویک جہتی ایک بنیادی و کلیدی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں، جو قوم اس کلیدی عنصر سے محروم ہوتی ہے، اس کا انتشار ،پسماندگی ،محکومی اور ناکامی مقدر بن جاتی ہے ، اور ایسی اقوام و معاشروں کا شیرازہ بکھرنا لازمی ہے، خاص طور پر وہ قومیں اور معاشرے جو نو آبادیاتی تسلط اور محکومی کا شکار ہوں انہیں سب سے زیادہ باہمی یک جہتی و اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ جبرو استحصال اور محکومی سے نجات کا عمل ایک طویل اور صبر آزما کٹھن سیاسی جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے ۔
اور کوئی بھی جدو جہد یا تحریک ایک انقلابی نظریے و پروگرام کے علاوہ داخلی گہرے اتحاد کے بغیر کامیابی کی منازل طے نہیں کر سکتی ،اتحاد ویک جہتی کے قیام یا انتشار میں سیاسی قیادت کا کلیدی کردار ہوتا ہے، کیونکہ قومی و عوامی اتحاد کے مراکز سیاسی پلیٹ فارم تصور کئے جاتے ہیں ،نو آبادیاتی و پسماندہ معاشروں میں عوام کی سیاسی وابستگی محض نظریے و پروگرام کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ قیادتی افراد وشخصیات کو بھی اپنی نجات کا مرکز خیال کرتے ہوئے ان کی تقلید وپیروی کی جاتی ہے ، بعض مقامات پر شخصیات ہی عوامی نگاہ اور عقیدت کا مرکز ہوتی ہیں، ایسے معاشروں میں تاریخ میں فرد کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اگرچہ تنظیم یا تنظیمی ڈھانچے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں مگر ان پر شخصی اثرات غالب ہوتے ہیں ، بلوچ سماج کو بھی ایسے نو آبادیاتی تسلط کے شکار معاشروں میں شامل کیا جاتا ہے، جہاں انقلابی سائنسی نظریاتی رحجانات کے حامل تحریک کے تنظیمی ڈھانچوں کی موجودگی کے باوجود قیادتوں کے شخصی اثرات بھی پائے جاتے ہیں ، جس کا سبب ان قیادتی شخصیات کا حقوق کے حصول کی جدوجہد میں نمایاں کردار کا ہونا ہے ،اسی لئے جب بھی بلوچ قومی حقوق کی جدوجہد میں نظریے یا فکروعمل سے لے کر طریقہء کار تک کوئی سیاسی و تنظیمی اختلاف و تضاد پیدا ہوا تو تنظیمی تقسیم کے علاوہ سماج میں بھی داخلی اتحاد انتشار وسیاسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچ قومی جہد کی منزل تک رسائی میں طوالت اور بعض ناکامیوں میں داخلی سیاسی یک جہتی کے فقدان اور قیادت کے مابین اختلافات کا اہم کردار ہے، موجودہ صورتحال کو بھی کچھ ایسے ہی چیلنجز سے دو چار قرار دیا جا رہا ہے ، یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ اگر بلوچ جہد آجوئی کی متحرک قوتوں یا قیادت میں اختلافات کا عنصر پیدا نہ ہوتا تو مقتدرہ قوتوں کو اپنی پُر تشدد کارروائیوں کی کھلی چھوٹ نہ ملتی اور نہ ہی سماج میں بے یقینی اور اضطراب کے سائے ابھرتے ہوئے نظر آتے ۔
اس ضمن میں یہ امر بھی زیر بحث ہے کہ داخلی سیاسی اختلافات کو موقع غنیمت جان کر بالادست قوتیں بلوچ جہد کو سبو تاژ کرنے کیلئے ایسی محلاتی سازشوں کو بروئے کار لا رہی ہیں جن سے ایک طرف تحریک کو بیرونی مداخلت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اسے بین الاقوامی و داخلی سطح پر بد نام کرنا مقصود ہے تو دوسری طرف طاقت کے انتہائی بے رحمانہ اور وسیع پیمانے پر استعمال کیلئے فضا ساز گار بنانا ہے، بلوچ سیاسی وعوامی حلقے بلوچستان سے گذشتہ ماہ ایک بھارتی باشندے کی گرفتاری اور اُسے بلوچ تحریک سے جوڑنے کے پروپیگنڈے کو ایسی ہی متذکرہ بالا سازش یا منصوبہ بندی کا مظہر تصور کر رہے ہیں۔
ان حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہ 1970ء کی دہائی میں سامنے آنے والی سازشوں کی تاریخ کو دہرانے والی کاوش تو نہیں ہے؟جب عراقی اسلحے کی بلوچستان کیلئے فراہمی کا بھر پور پروپیگنڈہ کرتے ہوئے بلوچ مزاحمت کو بیرونی اور پاکستان دشمنوں کی کارستانی قرار دیا گیا تھا، اور اسے جواز بنا کر بلوچستان میں وسیع پیمانے پر شدت آمیز کارروائی عمل میں لائی گئی، بلوچ سیاسی حلقوں کے نزدیک بھارتی باشندے جسے را کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے کی گرفتاری کو بھی بلوچستان میں ریاستی طاقت کے وسیع تر استعمال کیلئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
ان حلقوں کے مطابق بلوچ قوم کو بھارتی سمیت کسی غیر ملکی کی گرفتاری و مبینہ سرگرمیوں سے کوئی غرض یا دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ان کا کوئی تعلق ہے ، بلکہ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس کی آڑ میں مقتدرہ قوتیں بلوچ جدوجہد کو بد نام اور دنیا کی توجہ بلوچ قومی سوال کے اصل ایشو سے ہٹانا چاہتی ہیں ،ایسی صورت میں یہ واضح نظر آرہا ہے کہ آنے والے دن بلوچ قوم اور تحریک کے مستقبل کیلئے انتہائی اہم اور دور رس اثرات کے حامل ہوں گے ، جن کا مقابلہ بلوچ سیاسی قیادت اور عوام میں گہرے سیاسی و تنظیمی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
خاص طور پر وہ سیاسی قیادتی مراکز جن کے سیاسی اہداف یکساں وہم آہنگ ہیں کے درمیان ثانوی تنظیمی و شخصی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد ویک جہتی کا قیام انتہائی ضروری ہے ، جس کیلئے کسی ثالث کو تلاش کرنے کی بجائے براہ راست رابطوں کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر اختلافات کی فضا سے نہ صرف بلوچ سماج میں بے قراری و مایوسی بڑھے گی بلکہ بالادست قوتوں کو بھی تحریک کو سبوتارژ کرنے اور دبانے میں آسانی ہو گی۔
لکھاری سنگر میگزین کا چیف ایڈیٹر ہے۔