صنف کا مسئلہ

ارشد نذیر
Bgz4cI-CAAEyhMM

بہت حد تک یہ بات درست ہے کہ ہمارا مذہب ، ہماری روایات اور سماجیات بہت زیادہ صنف اور جنس کے گرد گھومتی ہیں یا پھر گھمائی جاتی ہیں ۔مذہبی اور سماجی روایات کے جنس کے گرد گھومنے یا گردش کرنے کی جو طبعی عمر ہے اُس کی تو سائنس اور سائنسی ترقی نے ہیت ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ اس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں۔ پہلے ذرا ’’گھماوٹ‘‘ یا ’’گردش‘‘ ہی پر بات کر لیتے ہیں۔

ہمارے مذہبی اور سماجی روایات کے پاسدار حقوقِ نسواں کی آڑ میں ’’ صنف ‘‘اور ’’جنس‘‘جیسی اصطلاحات کا ’’دھندا‘‘ کر رہے ہیں۔ روایات کا جنس یا صنف کے گرد گھومنا یا گردش کرنا کتنا فطری ہے اور کس حد تک غیر فطری، اس کا حتمی فیصلہ تو اب سائنس ہی نے کرنا شروع کردیا ہے ۔ البتہ ہمارے ہاں سماجی رسومات اور روایات اور مذہبی توضیحات کی گھماوٹ یا گردش بہت حد تک ’’غیر فطری‘‘ ہے اور ’’جنس‘‘ اور ’’صنف‘‘ کی کمرشلائزیشن کرکے ان دونوں کو کسی نہ کسی طرح زندہ رکھتی ہے ۔

لفظ’’صنف‘‘ دراصل ’’جنس‘‘ ہی کے اصطلاحی معنی میں استعمال کیا جاتاہے لیکن ہمارے کمرشلائزڈ سماجیات دانوں نے ’’نرم لہجے ‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے ’’جنس‘‘ کو ’’صنف ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ ملا ’’جنس‘‘ ’’مرد و عورت کی جنسی نابرابری‘‘ ، ’’جنت میں حور و غلمان سے بے پناہ جنسی تلذذ کے انعام ‘‘ پر اپنی مذہبی روایات کو گھماتا ہے اور ہمارا کمرشلائزڈ سماجیا ت دان ’’حقوقِ نسواں‘‘ ، ’’صنفی نابرابری‘‘ ، ’’صنفی عدم مساوات‘‘ یا ’’صنفِ امتیاز ‘‘ ’’نرم لہجے ‘‘ کے ملفوف الفاظ کو جنس ہی کے گرد گھماتا ہے ۔ دونوں کا عمل برابر سیاسی ہے ۔

یہاں لفظ ’’سیاسی ‘‘ کو بالکل اُسی اصطلاح میں استعمال کیا جا رہا ہے جس طرح ہمارے ہاں کے عوام آج کل لفظ ’’سیاست‘‘ کو استعمال کرتے ہیں۔ دونوں خواتین کے حقیقی مسائل کے حل کے خواں ہیں اور نہ ہی ان کا حل چاہتے ہیں۔ دونوں ’’خواتین ‘‘ کے اس سماجی سٹیٹس کو اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ’’حقوقِ نسواں ‘‘ کی اصطلاح ہی غلط ہے کیونکہ اگر حقوق جیسی کسی چیز کا اس دنیا میں کوئی وجود ہے تو وہ صرف اور صرف ’’انسانی حقوق‘‘ ہیں ۔ اس کے لئے دیگر تمام اصطلاحات کو غلط نہیں تو کم ازکم غیر ضروری کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ انسانی حقوق میں انسان کا بچپن، اس کی جنس اور اس کی ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اور روحانی پرورش سب شامل ہوتے ہیں۔ ان میں اس کو فراہم کی جانے والی فضا اور ماحول بھی شامل ہوتا ہے ۔ان حقوق کی موجودگی میں آخر علیحدہ سے ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی کیا ضرورت ہے اور کہیں زیادہ لطف کی بات تو یہ ہے کہ جہاں سے انسانی حقوق کا چارٹر آرہا ہے ، وہاں سے ہی حقوقِ نسواں کا چارٹر بھی آرہا ہے۔

اب یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ جناب کیونکہ تمام سماجوں میں عورت کے ساتھ ’’غیر انسانی ‘‘ سلوک ، ’’تشدد‘‘ ، ’’عدم رواداری‘‘ اور ’’صنفی امتیاز‘‘ موجود ہے ۔ ہر سماج میں عورت کا سماجی اور مذہبی رتبہ بھی مختلف ہے ۔ اس لئے ہر سماج کے اپنے سماجی ، سیاسی اور مذہبی حالات ہوتے ہیں جن میں عورت کی آزادی کے مختلف مراحل اور درجے ہیں۔ اس لئے ’’حقوقِ نسواں ‘‘ جیسی اصطلاح کوئی زیادہ غیر منطقی نہیں ہے۔

ایسی دلیل دینے والوں کے لئے دو استدلال ہیں کہ کیا مردوں ، بچوں ، معذوروں، محتاجوں اور کسانوں، محنت کشوں، پیشہ ور ملازمین کے حقوق کو حاصل کئے بغیر حقوقِ نسواں کوئی معنی رکھتے ہیں۔ اگر واقعی ان حقوق کے حصول کے بغیر حقوقِ نسواں کوئی علیحدہ معنی رکھتے ہیں تو ان کے حصول میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اگر حقیقتاً حقوق ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ امتیاز ہوتے ہیں ۔ تو پھر ہماری ان کمرشلائزڈ سماجیات دانوں (ٹرینڈ مونکیز)سے گزارش ہے کہ وہ حقوق کی جنگ بطور ’’انسانی حقوق‘‘ ہی لڑے نہ کہ صرف ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی آڑ میں۔

اس کے بارے میں دوسری دلیل سائنس ہی سے دی جا سکتی ہے۔ سائنس نے جنس اور صنف جیسی اصطلاحات کے بخیے ادھیڑکے رکھ دیئے ہیں۔ آج ہمارے مذہبی سیاسی ملاں اور یہ کمرشلائزڈ سماجیات دان جس طرح سے ’’جنس‘‘ کو ابنارمل بنا کر بیچ رہے ہیں ۔ جدید سائنسی ترقی کو بہت ہی کم عرصہ درکار ہوگا کہ وہ ہمارے ہاں جنس کی بنیاد پر کھڑی کئی گئی روایات یا مذہبی قصے یا داستانوں یا پھر ہمارے کمرشل سماجیات دانوں کے ’’جنس‘‘ اور ’’صنف‘‘ کے ایشوکو اٹھا کر کوڑا دان میں پھینک دے گی۔

جو لوگ جدید سائنسی ترقی کے رحجانات پر نظر رکھے ہوئے ہیں وہ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ سائنس کے لئے ایسا کرنا اب ناممکن نہیں ہے۔ چلیں ہم کچھ دیر کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ سائنسی ترقی عورت اور مرد کے ’’جنسی اختلاط‘‘ کی ضرورت کو بالکل ختم کرکے رکھ دیتی ہے ۔ یہ یقین رکھیئے کہ میں نے کوئی ناممکن اور بعید از قیاس بات فرض نہیں کی ۔ یقین جانئے مستقبل قریب میں یہ ممکن ہونے جا رہا ہے ۔

فرض کریں ان کی بنائی ہوئی صنفی تقسیم بالکل ختم ہو کے رہ جاتی ہے ۔ یا سائنس مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر سیاسی مذہبیوں اور سماجی مسائل کو بیچنے والے ان سماجیات دانوں جو آج کل دانشور بنے کا پھر رہے ہیں کیا بنے گا؟ دونوں کی روٹی روزی پر شدید لات لگے گی۔ تو پھر ہم ان حقوق کو کس طرح بیچیں گے۔ ہم تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں وہ ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ ہم اس سوچ کا مرکز و محور ان غور طلب مسائل کو بنائیں ناکہ ’’حقوق‘‘ کو بیچنے کا فن سیکھ کر نام وری کمانے اور خود کو دانشور ثابت کرنے کی ڈور میں لگے رہیں۔

اس سلسلے میں برسبیلِ تذکرہ یہ مثال دیتا جاؤں کہ کل انسان کی فطرت کے بارے میں جن بہت سی چیزوں کو پراسرار سمجھا جاتا تھا آج وہ ڈی این اے کی ڈی کوڈنگ کے علم کی بدولت قابلِ فہم بھی ہیں اور تخلیقِ انسان کے اس عمل میں بہت سی تبدیلیوں کا باعث بھی۔ آج پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں آپ کو ڈاکٹروں کے یہ اشتہار کہ’’ اب مردانہ یا زنانہ بانجھ پن کوئی مسئلہ نہیں رہا‘‘ ، ’’اولادِ نرینہ کی خواہش ‘‘ بھی اب یقینی طور پر پوری کی جا سکتی ہے۔ میاں اور بیوی کے علاوہ تیسری خاتون سے بھی وہ اپنا بچہ حاصل کر سکتے ہیں۔ تو کیا ایسے میں یہ سوچناکہ آنے والے وقت میں مرد اور عورت کی تقسیم اور درجے بدل رہے ہیں۔ 

عورت کو بطور انسان دیکھنے اور دیکھنا سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے اُسے مرد کی مرتب کردہ تراکیب کی ضرورت نہیں ہے ۔ اُسے معاشی اور سیاسی آزادی کی ضرورت ہے ۔ معاشی اور سیاسی آزادیاں ایسی آزادیاں ہوتی ہیں جو مرد اور عورت کی تقیسم کے بغیر آپ کے انسانی حقوق کی طرف جاتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے سماج میں عورت پر ظلم و زیادتی روا رکھی جاتی ہے ۔ لیکن ہم اپنے ایسی سماج میں معاشی طور پر مضبوط بیسیوں خواتین کی مثال دے سکتے ہیں جنہوں نے اپنے معاشی رتبے کی وجہ سے مردوں کا استحصال کیا ہے ۔

میرے خیال میں ہمیں ’’سماجی اور معاشی حقوق‘‘ کی لڑئی سیاسی طور پر لڑنی چاہئے ۔ ہر سیاسی لڑائی سیاسی طور پر لڑی جاتی ہے نہ کہ غیر سیاسی ہو کر۔ یہاں لفظ ’’سیاسی ‘‘ سے میری مراد عوام کے حقیقی حقوق کی لڑائی ہے جو عوام خود لڑتے ہیں۔ معاشی حقوق کی یہ لڑائی صرف طبقاتی بنیادوں پر لڑی جا سکتی ہے ۔ جب طبقات کی بنیاد پر یہ لڑائی شروع ہو گی توانسان عورت اور مرد کے نام نہادحقوق کی لڑائی سے بالا تر ہو کر حقیقی انسانی حقوق کی لڑائی کے میدان میں اترآئے گا۔ اس کے علاوہ دیگر کسی بھی طریقے سے حقوقِ نسواں حاصل نہیں کئے جا سکتے ۔

یہ محض ڈھکوسلہ ہیں۔ اشرافیہ کلاس کا دیا ہوا لولی پاپ ہیں۔ استحصال کی کوئی جنس یا صنف نہیں ہوتی ۔ یہ مرد اور عورت دونوں میں نام نہاد مہذب معاشروں میں سرِ عام بلاد کار کرتا ہے ۔ یہ صرف ہماری بزدلی ہے کہ ہم اس کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ یا پھر ان اشرافیہ کے اُٹھائے ہوئے نان ایشوز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ جب استحصال کی بات اُٹھے گی تو پھر نظام کی تبدیلی کی بات اُٹھے گی۔

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسان کبھی بھی ایک ہی سماج اور سیاسی نظام کا جانور نہیں رہا ہے ۔ وہ ظلم کے آگے جھکا نہیں ۔ ظلم کی رات طویل تو ہو سکتی ہے لیکن آخر ہوتی رات ہی ہے۔ یہ اندھیرا بھی چھٹ ہی جائے گا۔ ہماری خواتین بھی حقیقی انسانی حقوق سے جلد آشنا ہوں گی۔

Comments are closed.