انگریز سرکارکی ان پالیسیوں کے اس تسلسل کا سب سے زیادہ نقصان پختون کو پہنچا قبائلی علاقہ جات میں زراعت اور صنعت میں کسی ایک شعبہ کو بھی ترقی نہیں دی گئی البتہ اسلحہ،منشیات اوربیرون ممالک کے مال کی خرید و فروخت اور سمگلنگ کو فروغ ملا اسلحہ وہتھیار کی فراوانی کے باعث ہر قبائلی نوجوان کے کندھے پر بندوق نظر آنے لگی چرس اور دیگر منشیات کا استعمال بھی عام رہا جبکہ سمگلنگ ان کے معاش کا بڑا ذریعہ بنتا چلا گیاجو کہ ایک رسکی روزگار ہے خطرہ مول لینے کے احساسات انسان میں مہم جوئی کے جذبات پیدا کرتے ہیں اور جنگ میں یہی جذبہ بروئے کارآتا ہے.
چنانچہ ایک علاقہ میں ذرائع معاش محدود ہوں اور وہ بھی غیر قانونی ہوں غربت بھی ہو تو ایسے علاقہ کے باسیوں کا رحجان عسکری ملازمت کی طرف ہوجاتا ہے جبکہ حکومت اور ادارے کو ایسے شخص کو تربیت دینے کی زیادہ ضرورت بھی نہیں رہتی ہے قبائلی علاقہ جات اس حوالے سے اتنا زیادہ بدنام ہوچکا ہے کہ سال 2014ء میں جب سعودی حکومت کو شام میں باغیوں سے نمٹنے کے لئے کرائے کے فوج کی خدمات درکار تھیں تو ریٹائر فوجیوں سمیت سینکڑوں قبائلیوں کو شامی فوج میں بھرتی کرکے شام بھیجا گیا۔
قبائل کو کوئی بازوئے شمشیر زن تو کوئی بلامعاوضہ سپاہی کہہ کر تھپکی ضروردیتا ہے مگر اسے یہ احساس ہونے نہیں دیا جاتا ہے کہ اس کو سپاہی بنانے کے لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کی قبائلی حیثیت اور ثقافت کو تاحال برقرار رکھا گیا ہے پاکستان میں رائج جمہوریت اور جمہوری نظام میں عددی قوت فیصلہ کن کردار ادا کررہی ہے تقسیم نے پختون کو اس حوالے سے بھی کمزور کردیا جبکہ قبائلی علاقہ جات کو براہ راست اسلام آباد کے ماتحت رکھا گیا اور قبائلی مشران کے مفادات اس سے باندھ اور وابستہ کرکے انہیں تابع فرماں بنانے پر مجبور کردیا گیا۔
معاشی نظام اورپیشے کا نہ صرف انسا ن کی معاشی،سیاسی اورسماجی ترقی سے تعلق ہوتا ہے بلکہ اس کی ذہنی ارتقاء سے بھی گہرا رشتہ ہوتا ہے.
شکار کا دور انسان کا پہلا زمانہ اور نظام مانا جاتا ہے اس وقت اس کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ پیٹ بھرنا تھا البتہ قبائلی نظام کے ساتھ اس نے وہ کچھ سیکھا جو یہ پہلے نہیں جانتا تھا اسی طرح جاگیردارانہ نظام ان سب کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تھا اور اب انسان سرمایہ دارانہ نظام میں رہ رہا ہے۔
قبائلی علاقہ جات اور قبائلی ایجنسیوں کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے باسی تاحال انسانی ارتقاء کے دوسرے زینے پر کھڑے ہیں البتہ اس قبائلیت اور قدیم قبائلی نظام میں یہ تفاوت پایا جاتا ہے کہ یہ قبائل خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر نہیں کررہے ہیں اسی طرح قبائلی سرداروں کا روپ پولیٹیکل ایجنٹ،ملکان اور عمائدین نے اختیار کیا ہوا ہے ان علاقہ جات میں انگریز نے صنعت و کارخانہ نہیں لگایا تو پاکستان کی تخلیق سے بھی فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ اس کو جدید سرمایہ دارانہ نظام سے دور دور ہی رکھا گیا جس سے یہ امریکہ کا ٹیکساس بنا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ پختونخوا میں پرانے اور نئے انگریز کی ایک اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے ان دونوں کی پالیسیوں نے قبائل کو معاش کے جدید ذرائع کی ہوا بھی لگنے نہیں دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں سمگلنگ نے پھلنا پھولنا شروع کردیا منشیات کی خرید و فروخت کا بھی یہی حال ہوگیا اور بندوبستی علاقوں کے جرائم پیشہ عناصر کے لئے یہ علاقے محفوظ پناہ گاہیں بن گئے۔
چونکہ قبائلی علاقہ جات کو جدید نظام سے دور رکھا گیا اس لئے یہاں پر نئے تصورات اور نظریات کو بھی پنپنے کا موقع نہ مل سکا ان کے ذرائع معاش زیادہ تر سمگلنگ،منشیات،ٹرانسپورٹ،ہوٹلنگ ،پولیس، ایف سی اور فوج میں سپاہی ہی رہے اور یہ معیشت کے وہ ذریعے ہیں جن میں انسان خطرات سے تو کھیلتا ہے مگر ذہن اور کھوپڑی استعمال کرنے کی کم ہی ضرورت محسوس کرتا ہے چنانچہ ایسے علاقوں کے باسیوں میں سپاہی بننے کا رحجان زیادہ ہوتا ہے یوں بھی سپاہی کے لئے جسمانی طور پر تکڑنا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔
یہ صورت حال صرف قبائلی علاقہ جات میں ہی نہیں ہے بلکہ پختونخوا اور بلوچستان کو بھی ترقی کے جدید دھارے سے الگ رکھا گیا جس سے اس کے باشندے زندگی کے ہر شعبہ میں پیچھے رہ گئے ان صوبوں کے باسیوں کے ذرائع معاش بھی قریب قریب یہی ہیں کوئی ریڑھے میں آلو رکھ کربیچ رہا ہے تو کوئی صبح گدھا گاڑی میں بیٹھ کر کباڑی کہتا ہوا کباڑ کی خرید میں مصروف ہے پختون وحدت کی تقسیم اوراس کے علاقوں کو پس ماندہ رکھنے کے نقصانات ہمارے سامنے ہیں چنانچہ یہ سرکاری ملازمت میں بھی چوکیدار، نائب قاصد،سپاہی، ڈرائیور اور مالی کے ادنیٰ عہدوں پر ہی نظر آتا ہے اور یہ وہ عہدے ،پیشے اور روزگار ہیں جو ذہنی بلوغت اور بالیدگی پیدا نہیں کرتے ہیں ان معاشروں میں اسی لئے قدیم اور فرسودہ خیالات آج بھی حاوی ہیں اگر سندھ کے کراچی اور حیدرآباد اور پنجاب کی طرح یہاں بھی صنعتی زونز اور اسٹیٹس قائم کئے جاتے تو یقیناً صورت حال آج کچھ اور ہی تصویر پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی۔
وسائل سے مالا مال علاقے کے باسی پاکستان کے صنعتی شہروں میں روزگار کی خاطر جاتے ہیں تو وہاں ایک کے بعدا دوسری نسل جوان ہوجاتی ہے اس کے باوجود یہ منیجمنٹ میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں اور وہی چوکیدار، نائب قاصد، سپاہی،ڈرائیور،ریڑھی بان اور مالی کے ادنیٰ عہدوں پر دیکھے جاتے ہیں جہاں اس کے اسباب میں ایک یہ ہے کہ پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں زراعت بھی پس ماندہ اور صنعت و کارخانہ بھی نہیں ہے علاوہ ازیں یہ ان شہروں میں جاتے ہیں تو وہاں اپنے چھوٹے چھوٹے پختونخوااور قبائلی علاقے اور اپنی الگ الگ اکائی بنالیتے ہیں حتیٰ کہ کراچی میں ہزارہ،چترال،سرائیکی اور پشتو بولنے والوں نے اپنی اپنی بستیاں بنائی ہوئی ہیں اور ان کا آپس میں بھی کم ہی میل ملاپ رہتا ہے اور جو باپ کا روزگار اور پیشہ ہوتا ہے وہی بیٹااور نواسہ بھی اپنالیتا ہے ۔
جہاں پرانے اور نئے حکمرانوں نے پختون کو زندگی کے ہر شعبہ میں پیچھے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو وہاں خوانین اور مذہبی پیشواؤں کا کردار بھی اس حوالے سے منفی اور حوصلہ شکن رہا ہے جدید تعلیم کی مخالفت میں یہ طبقے اور مکتبہ فکر پیش پیش رہے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں خواتین کو ہر لحاظ اور حوالے سے مساوی اور یکساں حقوق حاصل ہیں تو کراچی اور پنجاب میں بھی عورتوں کو کئی آزادیاں اور اختیارات ملے ہوئے ہیں مگر یہاں بھی پختون نے عورتوں پر مشتمل اپنی نصف آبادی کو جدید تعلیم سے دور اورغیر متحرک رکھا ہوا ہے جبکہ آج کے دور میں عورتوں کو نظر انداز کرکے کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے۔
فرسودہ اور قدیم روایات، رسومات،رواجات اور عقیدے بھی اس کی ترقی میں سنگ گراں بنے ہوئے ہیں پختون نے غیرت اور عقیدے کے نام پر بھی اپنے پر ترقی کے دروازے بند کئے ہوئے ہیں ایک بچے کی تعلیم وتربیت میں ماں کا بنیادی کردار ہوتا ہے کیونکہ اس کا پہلا استاد یہی ماں ہوتی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ابھی شکم مادر میں ہوتا ہے کہ ماں کی آواز،اس کی بات چیت اور موضوعات، احساسات ،زبان اورخوراک اس کے جسم اور ذہن کا حصہ بننے لگتے ہیں اور وہ جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے تواس عمل اور ذخیرہ میں رفتہ رفتہ اضافہ ہونے لگتا ہے وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ماں باپ سے مدعا بیان کرنے لگتا ہے چنانچہ یہ اس کا پہلا سکول ہوتا ہے جبکہ پختونوں میں ایسے مردوں کی اب بھی کمی نہیں ہے جو بچے کے اس استاد کو سماجی اور معاشی سرگرمیوں سے ہی دور نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کو تعلیم اور سکول کی ہوا بھی لگنے نہیں دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ غیرت کے منافی ہے لہٰذا سوچنے کا مقام ہے کہ اگر لخت جگر کی والدہ ہی ناخواندہ ہو تو اس کے بچے کی تربیت کا کیا حال ہوگا۔
ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ زور بچے کی ابتدائی تعلیم اور تربیت پر دی جاتی ہے پرائمری سکولوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو تعینات کیا جاتا ہے یہاں صورت حال قطعی طور پرمختلف ہے یہاں تو پہلااستاد ہی سرے سے نرا جاہل اور ان پڑھ ہے اگر اس کے استاد کی دنیا چار دیواروں ،کھڑکیوں، دروازوں، درجن بھر پیالیوں ،پتیلوں، کرسیوں اور میزوں تک محدود ہو تو اس کے شاگر د اس سے کیا سیکھنے کی توقع رکھ سکتے ہیں اسی طرح اس کا باپ کاشتکار،کباڑی،ریڑھی بان، مزدور، چوکیدار، مالی،نائب قاصد،سپاہی،ٹرانسپورٹر اور سمگلر ہو اور وہ فنو ن لطیفہ اور علم و معلومات میں اضافہ کرنے والے ذرائع کی مخالفت پر کمربستہ رہتا ہو تو پھر اس کی تعلیم وتربیت کا کینوس بھی تنگ ہوگا۔
پختون بچے کا دوسرا سکول اس کا محلہ اور اس کے باسی ہوتے ہیں اور یہ حجرے میں بیٹھتے ہیں تو سادگی پر زور دیتے ہیں حادثہ کی صورت میں ہلاکتوں اور زخمیوں کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے اسے قسمت سے جوڑ دیتے ہیں ملازمت ہاتھ نہیں آتی ہے تو زیارتوں پر جاتے ہیں اولاد یا نارینہ اولاد نہیں ہے تو پیر سے تعویز بنواتے ہیں تو ایسے انسانوں کا بھی ذہنی ارتقاء رکا رہتا ہے کیونکہ نصیب کا تصور انسان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدانہیں ہونے دیتا ہے اس سچائی کے لئے یہ ایک ادنیٰ مثال پیش خدمت ہے۔
سڑک پر حادثہ ہوگیا۔
ایک گروہ کہتا ہے زخمیوں کی یہ تکلیف پہلے سے ان کے نصیب میں لکھی گئی تھی تو بات یہیں تمام ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ذہن بھی ادھر ہی رک جاتا ہے۔
البتہ دوسرے گروہ میں ایک کہتا ہے:’’ حادثے کا سبب ڈرائیور کی تیز رفتاری ہے،،
دوسرا کہتا ہے:’’ڈرائیور نشے میں تھا،،
تیسرا اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے:’’سڑک تنگ ہے،،
چوتھا کہتا ہے:’’سڑک میں میٹریل ناقص استعمال کیا گیا ہے،،
یہ بات چیت جتنی زیادہ آگے اور آگے بڑھتی ہے تو متعلقہ اداروں کے ارباب اختیار کی اپنے فرائض میں کوتاہی اور ٹھیکہ داروں سے ملی بھگت سامنے آجاتی ہے اس بحث مباحثہ سے عوام کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے تو ان کو احساس ہوتا ہے کہ اصلاح احوال کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
انگریزوں نے پختون میں شمشیر زن اور نڈر سپاہی کی قدیم خصوصیات برقرار رکھنے کے لئے قبائلی علاقہ جات اور بندوبستی علاقوں میں زراعت اور صنعت کو پسماندہ رکھا اور نوآبادیاتی جابرانہ قوانین کے ذریعے اختیارات،حقوق اور آزادیوں کی ہوا نہیں لگنے دی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس نے روزگار حیات کے لئے ان پیشوں اور کاروبار کو اپنا یا جن سے اس کے سیکھنے اور سمجھنے کا عمل بڑھنے نہیں پایا زراعت،سمگلنگ،ٹرانسپورٹ،ہوٹلنگ،ریڑھی بان، چھابڑی فروش،کباڑیا ایسے ہی پیشے ہیں جبکہ ناخواندگی کے باعث سرکاری اور نجی محکموں میں بھی مالی،چوکیدار اور مزدور کے ادنیٰ عہدوں پر خدمات سر انجام دیتا رہا جس سے اس کی مہم جویانہ فطرت برقرار رہی اور اس کو تقویت بھی ملتی رہی تو ساتھ اس کی سوجھ بوجھ بھی اسی سطح پر ہی رہی چونکہ اس کو انتظامی معاملات نمٹانے کے مواقع نہیں ملتے رہے اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ فوج میں بھی سپاہی یا اس سے ملتے جلتے چوکیدار، باڈی گارڈ اور جسمانی مشقت کے کاموں ، خدمات اور عہدوں پر ہی فائز رہا۔
جس قوم کے افرادایسے پیشوں اورنوکریوں سے وابستہ ہوں جن میں سوچنے اور سر کھپانے کی ضرورت نہ پڑتی ہو جن کو انتظامی امور سے دور دور رکھا جاتا ہو تو ان کی فہم و فراست بھی محدود رہتی ہے اور ان کے قریب عقل بھی نہیں آتی ہے اس قوم کے افراد اپنی جغرافیائی اہمیت اور اپنی زمین میں چھپے خزانوں اور اپنی خفتہ صلاحیتوں سے بھی بے خبر اور بے بہرہ رہتے ہیں اور مٹھی بھر معاوضہ کی خاطر پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں اور اب تو ان کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،زکواۃ اور متاثرین بناکراسے اس سطح پر لایا جارہا ہے جس کے حوالے سے انگریزی میں کہا گیا ہے
beggers are not the chosers
انگریزوں نے نوآبادیاتی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعہ پختون اور خصوصاً قبائلی پختون کو دنیا اور جدید علوم سے بے خبر اور بے وقوف رکھا تو نئے حکمرانوں نے بھی اس تسلسل کو برقرار رکھا آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے پاکستان کے بااختیار طبقے اور مکتبہ فکر نے قوموں کو عقل مند اور بے وقوف میں تقسیم کیا ہوا ہے پختونوں کی سیاسی، معاشی، سماجی،اخلاقی اور ثقافتی تاریخ ہزار ہا سالوں پر محیط ہے اس خطے میں آرین، دراوڑ، بدھ مت، ہندو مت،اسلام اورگندھارا تہذیب کے آثار اپنی زبان سے اس کی تابناک اور شاندار تاریخ بیان کرتے ہیں اسی طرح سولہ جلدوں پر مشتمل پشتو لغت، محاورات، ضرب الامثال،لوک کہانیاں،داستانیں،شاعری اور طرز حکمرانی ان کی اعلیٰ ذہانت کی شاہد ہیں۔
علاوہ ازیں اس کو آج بھی جب اور جہاں بھی اپنی اہلیتوں اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملا اس نے اپنا لوہا منوایا پختون کوانگریز راج سے لاعلم اور بے وقوف بنانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا گو کہ وہ آج بھی جاری و ساری ہے اور یہ گوناگوں مسائل سے دوچار ہے تو ساتھ ہی ان نامساعد حالات سے سیکھ بھی رہا ہے اس کی نوجوان نسل اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر نہیں ہے۔
اس کے تعلیم یافتہ اورباشعور نوجوان اپنی معاشی،سیاسی اورسماجی ترقی کے لئے تگ و دو کررہے ہیں ان کے قبائلی علاقہ جات میں انتخابات کے مطالبات اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی صفوں میں جتنا زیادہ اتحاد و اتفاق ہوگا اور وہ پختون وحدت کے لئے جدوجہد کریں گے پارلیمنٹ میں ان کی ایک آواز ہوگی تو ان کی منزل اتنی ہی قریب ہوگی۔
پہلہ حصہ پڑھیں