امبیڈکر کے نام پر سیاست

ظفر آغا

1448610691-8997


پچھلے چند دنوں اور بالخصوص 14 اپریل کو سارے ہندوستان میں صرف ایک نام گونج رہاتھا وہ ٹی وی ہو، اخبار ہو یا ملک کی سیاسی پارٹیاں ہر جگہ اور ہر کوئی اسی نام کا رٹ لگا رہا تھا اور اسی کے مجسمہ کے آگے سر جھکائے ہوئے تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے لیکر اُتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی تک سب اپنی مصروفیات کو ترک کرتے ہوئے اسی ہستی کے قصیدے پڑھ رہے تھے، کون ہے وہ ہستی کہ جس کو یہ سب لوگ اپنا  مسیحا کہہ رہے تھے ۔

ظاہر ہے کہ 14اپریل کی مناسبت سے آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں کس شخصیت کا ذکر کررہا ہوں اور آپ صحیح سمجھے کہ راقم الحروف اس کالم میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر پر روشنی ڈالنے کی جرأت کررہا ہے۔ جی ہاں ! وہی بابا صاحب جو بابا ئے آئین ہند کہلاتے۔ لیکن بابا صاحب محض ہندوستانی آئین کی ڈرافٹ کمیٹی کے صدر ہی نہیں تھے بلکہ وہ تو مسیحائے دلت یعنی ہندوستانی سماج کے اچھوتوں کے مسیحا بھی تھے۔

بس یہی سبب ہے کہ ہر سیاستداں 14 اپریل کو بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسمہ کو ان کی 125ویں سالگرہ پر ہار پہنا کر اس کے آگے سر جھکارہا تھا، گویا بابا صاحب کوئی بھگوان ہوں۔ سچ یہی ہے کہ سیاستدانوں کے لئے بابا صاحب کسی بھگوان سے کم نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں دلت آبادی کوئی 25فیصد سے کم نہیں ہے۔ یعنی جمہوری نظام میں دلت ایک انتہائی اہم ووٹ بینک ہیں۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ کیا کوئی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر بغیر دلت ووٹ بینک کی حمایت کے اس ملک پر حکومت کرسکتا ہے۔؟  تو بس آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ بابا صاحب کی 14 اپریل کو کیوں پوجا ہورہی تھی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہر سیاسی جماعت دل سے امبیڈکر کی پوجا کرتی ہے؟ یا پھر 14اپریل کا امبیڈکر پریم محض دلت ووٹ بینک پریم تھا؟ تو آیئے ذرا بابا صاحب کے خیالات پر روشنی ڈالیں، تو سمجھ میں آجائے گا کہ ان کے خیالات اور نظریات اس ملک کے بارے میں کیا تھے۔

بابا صاحب نے 13اکتوبر 1935 کو ممبئی کے ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’’ یہ میری بد قسمتی ہے کہ میں ایک اچھوت گھرانہ میں پیدا ہوا، لیکن اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ آپ کو میں یہ بتادوں کہ میری موت بحیثیت ہندو نہیں ہوگی کیونکہ یہ میرے اختیار میں ہے۔‘‘ اور آخر کار 14اکتوبر 1956 میں ناگپور میں اپنے ہزاروں ماننے والوں کے ساتھ انہوں نے ہندو مذہب ترک کردیا اور وہ اس دن سے بودھ ہوگئے۔

لیکن بابا صاحب کو آخر ہندو مذہب سے کیا پرخاش تھی؟ کسی کو کسی بھی مذہب سے کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن بابا صاحب کو تھا، اور وہ اس لئے کہ ان کا خیال تھا کہ ہندو مذہب میں انصاف، بالخصوص سماجی انصاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے وہ جانتے تھے کہ ہندو مذہب ’ ورن نظام ‘ یعنی ذات پات پر مبنی ہے، اس سلسلہ میں انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا عنوان تھا

Annihilation of Caste

اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ ہندو سماج سے آپ انسانی اونچ۔ نیچ کا تصور ختم ہی نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے بقول ’’ یہ مت بھولیے کہ ( ہندو ) نظام میں تبدیلی کیلئے آپ کو ویدوں اور شاستروں میں تبدیلی کرنی ہوگی کیونکہ ان میں کسی قسم کا لاجک نہیں پایا جاتا ہے، ان میں کسی قسم کی اخلاقیات کا گزر نہیں ہے۔ اس لئے ویدوں اور شاستروں کو ہی مٹانا ہوگا، پھر بچے گا ہی کیا ۔‘‘ یعنی امبیڈکر کے بقول کسی مذہب کی بنیادی کتابوں کو مٹانے سے پھر وہ مذہب بچے گا ہی نہیں، اس لئے ان کے خیال میں ہندو نظام میں کسی بنیادی ریفارم کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے اگر کسی کو اچھوت کا درجہ ترک کرنا ہے تو اس کو ہندو مذہب کو بھی ترک کرنا ہوگا، اور اسی خیال کے تحت انہوں نے 1956 ء میں بودھ مذہب اختیار کرلیا۔

یہ تھا بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا بنیادی نظریہ، جس کے تحت ہندوستانی سماج اور آئین میں سماجی انصاف کو اہم مقام حاصل ہوا۔ لیکن اس سے بھی اہم ایک اور بحث ہے جو اس ملک کی سیاست میں ڈاکٹر امبیڈکر کے وقت سے اور پھر منڈل انقلاب کے ساتھ بالخصوص چھڑ گئی ہے۔ وہ بحث ہے کہ آیا اچھوت اور پسماندہ ذاتوں کو اعلیٰ ذات ہندو خود ہندو سماج کا حصہ پہلے سے  مانتے بھی تھے کہ یہ بھی ایک سیاسی چال تھی۔ امبیڈکر کا کہنا تھا کہ اچھوتوں کو ہندو کہہ کر گاندھی جی اچھوتوں کے ساتھ دھوکہ کررہے ہیں، اور اس سلسلہ میں امبیڈکر نے بہت پہلے یعنی ماقبل آزادی ایک کتابچہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’ کانگریس اور گاندھی نے اچھوتوں کے ساتھ کیا کیا ! ‘‘ اس کتابچہ اور پھر بہت سے دیگر ہندو اور غیر ہندو عالموں کے خیال میں جنگ آزادی سے قبل اچھوت اور دیگر پسماندہ ذاتیں ہندو مذہب کا حصہ تھے ہی نہیں۔

اس سلسلہ میں ابھی ایک حالیہ مضمون مشہور اسکالر جناب کانچہ ایلیا جو حیدرآباد میں مقیم ہیں،  نے لکھا کہ امبیڈکر نے 1919ء میں انگریزوں کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی جو 1909 کی آغا خان کمیٹی رپورٹ پر مبنی تھی۔ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اچھوت ہندو نہیں ہیں۔ بقول کانچہ ایلیا اس رپورٹ کی بنیاد پر 1911ء میں جو مردم شمار ہوئی تھی اس کی بناء پر اچھوتوں کو ہندوؤں سے الگ کردیا گیا۔ اور 1916ء میں انگریزوں نے محروم طبقوںکی جو ایک فہرست بنائی تھی اچھوت اس فہرست کا حصہ ہوگئے‘‘۔

یعنی1910-20 کی دہائی میں اچھوتوں کو سرکاری طور پر بھی غیر ہندو تسلیم کرلیا گیا تھا۔ اب ایک اور مسئلہ تھا جو اسی کے ساتھ کھڑا ہورہا تھا وہ مسئلہ یہ تھا کہ آزاد ہندوستان کی بنیاد کیا ہوگی اور اس میں ہندوستان کے مختلف سماجی اور مذہبی گروہوں کا کیا مقام ہوگا ؟اس وقت جبکہ کانگریس ملک کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم تھی جو گاندھی جی کی قیادت میں یہ تسلیم کرچکی تھی کہ ملک کا اگلا نظام نہ صرف جمہوری ہوگا بلکہ سیکولر بھی ہوگا۔

یعنی ایک جدید یوروپی معاشرہ کی طرح آزاد جمہوری سیاسی نظام میں کسی بھی باشندے کے ساتھ مذہب  یا ذات پات کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ لیکن کانگریس کی اس پوزیشن سے امبیڈکر اور مسلم لیگ مطمئن نہیں تھے، ان دونوں کا یہ کہنا تھا کہ محض آئین میں سیکولر لکھنے اور برابری کا حق دینے سے ہندو سماج میں ذات پات کا امتیاز اور بقول مسلم لیگ مسلمانوں کو انصاف اور ہندو اکثریت میں برابری کا حق نہیں ملے گا۔

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اگر اچھوتوں کو ہندوؤں سے الگ تسلیم کرلیا گیا تو پھر آزاد ہندوستان میں ہندو اقلیت ہوجائیں گے۔ اس لئے گاندھی جی نے اچھوتوں کو انگریزوں نے جداگانہ انتخاب  دیا تھا اس کے خلاف آمرن انشن شروع کردیا اور آخر امبیڈکر کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اچھوتوں یعنی دلتوں کے جداگانہ انتخاب کے بجائے ملک کی تمام اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ریزرویشن تسلیم کرلیں۔ اس طرح دلتوں کا ریزرویشن بھی شروع ہوا اور دلت ہندو سماج کا حصہ بھی بن گئے، جس سے مسلمانوں کو جنگ آزادی میں بڑا نقصان ہوا۔

بقول مسلم لیگ اور جناح دلتوں کو خصوصی ریزرویشن دے کر گاندھی جی نے ملک میں ہندو اکثریت بنالی اور سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کو آزاد ہندوستان میں کسی قسم کے خصوصی اختیار دینے سے انکار کردیا۔ اس لئے جناح نے پاکستان کی مانگ کھڑی کردی جو تاریخی اعتبار سے غلط ثابت ہوئی اور آزاد ہندوستان مسلمان کے لئے تو جہنم ثابت ہوا۔
الغرض ! 1947 میں جب آزادی آئی تو گاندھی جی فاتح رہے اور امبیڈکر اور جناح دونوں اپنے ماننے والوں کو ملک میں سماجی برابری دلانے میں ناکام رہے۔ گاندھی جی نے ایک ایسا متحدہ ہندو سماج بنادیا جس کی نظیر آزادی سے قبل بقول جدید تاریخ دانوں کے نہیں ملتی۔ آزادی سے قبل کا ہندو سماج متحدہ ہندو سماج نہیں تھا۔ لیکن دوران جنگ آزادی مسلم اختیارات کی مانگ نے غیر مسلم سماج کو ایک متحدہ ہندو سماج کی شکل دے دی۔ اس طرح گاندھی کامیاب رہے۔

لیکن منڈل انقلاب کے بعد سے پاکستان بھر سے سماجی انصاف کا نعرہ اُٹھ کھڑا ہوا جو اَب جواہر لال نہرویونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی جیسے نوجوانوں کے بیچ ’’ منو واد سے آزادی ‘‘ کی شکل اختیار کررہا ہے۔ بقول امبیڈکر ’’ منو واد سے آزادی تب ہی ممکن ہے جبکہ اچھوت جیسے ہندوؤں ویدوں اور دوسرے ہندو شاستروں سے آزادی ملے۔‘‘ اور یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہی مقدس کتابیں ہندو عقیدہ کی بنیاد ہیں۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انسانی برابری اور سماجی انصاف کی لڑائی ہمیشہ کے لئے نہیں ٹالی جاسکتی خواہ وہ ذات پات کی آڑ میں ہی چھپی کیوں نہ ہو۔ کیا ہندوستان میں سماجی انصاف کا مسئلہ خود ہندو سماج کے لئے ایک خطرہ بن جائے گا؟ اس سوال کا جواب تو تاریخ دے گی۔ لیکن امبیڈکر کا خواب یہی تھا کہ ذات پات پر مبنی ہندو سماج کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے جو خواب آج جے این یو صدر کنہیا کمارکا خواب ہے اور حیدرآباد یونیورسٹی کے نوجوان لیڈر روہت ویمولا کا بھی سپنا تھا۔

سماجی ناانصافی کی یہ جنگ اب سڑکوں تک آچکی ہے۔ اس لئے کہیں یہ جنگ کسی دوسرے امبیڈکر کو جنم نہ دے جو گاندھی کے بنائے سماج کے لئے مستقبل میں ایک خطرہ بن جائے۔

Daily Siasat, India

Comments are closed.