قصہ آرمی کے افسروں کی برطرفی کا۔۔۔

777444-genraheelsharifonline-1413613315


آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے ہی ادارے کے 11 اعلیٰ افسران کو بدعنوانی کے الزام میں نوکریوں سے برطرف کر دیا ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق جن چھ افسران کو بدعنوانی کے الزام میں نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے اْن میں لیفٹینٹ جنرل عبیداللہ خٹک، میجر جنرل اعجاز شاہد، بریگیڈیر اسد شہزادہ، برگیڈئیر عامر، بریگیڈئیر سیف اور کرنل حیدر شامل ہیں ۔باقی پانچ افسران کے بدعنوانی میں ملوث ہونے پر ان کی ملازمت سے برطرفی کے بارے میں عسکری ذرائع نے نہ تو تردید کی اور نہ ہی تصدیق۔

پاکستانی میڈیا میں ا س بیان کو بے حد سراہایا جارہا ہے ، سیاسی جماعتوں نے بھی اس اقدام کو سراہا ہے۔ ملک کے طاقتور ترین ادارے فوج کے سربراہ نے اپنے ہی ادارے کے 12 افسران کو برطرف کر کے ان کو تمام مراعات سے محروم کر دیا ہے۔ آرمی چیف کے اس اقدام کو ملک میں جاری سیاسی ہلچل کے لیے ایک اور جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ نے ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور بلا امتیاز سب کا احتساب کرنے کا کہا ہے۔ یہ خبر ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب ملک کے وزیرِاعظم کا خاندان منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور نا جائز ذرائع سے دولت کمانے کے الزامات کی زد میں ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں پہلے ہی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اان الزامات کی تفتیش کرنے کے لیے ایک آزاد و خود مختار عدالتی کمیشن تشکیل دے۔

اسی دوران سپریم کورٹ بار نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک تین رکنی ٹاسک فورس قائم کی جائے، جو دو ریٹائرڈ ججوں اور ایک قانونی ماہر پر مشتمل ہو اور اسے ملک کے اندر اور باہر دونوں جگہ تفتیش کرنے کا اختیار ہو۔
اْدھر وزیرِاعظم نواز شریف نے آج اپنے قریبی ساتھیوں اور وفاقی وزراء کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی، جس کا ایجنڈا پانامہ لیکس سے پید ا ہونے والی صورتِ حال کا جائزہ لینا تھا۔

ابھی وہ اس مسئلے کا کوئی حتمی حل تلاش کر ہی رہے تھے کہ ایک درجن اعلیٰ فوجی افسران کی برطرفی کی خبر نے ان کے لیے ایک اور مشکل کھڑی کر دی ہے۔

اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فوج کے سابق لیفٹینیٹ جنرل طلعت مسعود نے جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کو بتایا، 

’’یہ ایک انتہائی غیر معمولی اقدام ہے اور ملک میں تمام قوتوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اب کرپشن کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنر ل مشرف سمیت تمام فوجی سربراہان نے کرپشن کے معاملے کو نظر انداز کیا لیکن جنرل راحیل شریف نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف زبانی جمع خرچ اور لفاظی پر ہی یقین نہیں رکھتے بلکہ کرپشن کے خلاف عملی اقدامات بھی اٹھاتے ہیں۔ اس بر وقت اقدام سے یہ پیغام جائے گا کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اب موجودہ حکومت پر بھی اخلاقی دباؤ بڑھے گا کہ وہ اپنے طر ز حکومت کو مزید شفاف بنائے اور بد عنوانی میں ملوث سیاست دانوں کے خلاف بھر پور اقدام کرے۔‘‘

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور معر وف قانون دان عابد حسن منٹو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ایک دو فوجی افسران کے خلاف تو اس سے پہلے کارروائی کی گئی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر فوجی افسران کو برطرف کیا گیا ہے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن اس کی ابھی تفصیلات آنا باقی ہیں۔ اس اقدام کا پانامہ لیکس سے تعلق جوڑنا مناسب نہیں کیوں کہ پانامہ لیکس میں کئی لوگوں کے نام آئے ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس میں ابھی بہت سی قانونی پیچدگیاں بھی ہیں۔‘‘

ذرائع ابلاغ میں فارغ ہونے والے فوجی افسروں کی تعداد میں ابہام پایا جاتا ہے۔ بی بی سی نے اس کی تعداد گیارہ جبکہ ڈوئچے ویلے نے بارہ بتائی ہے ۔ ڈیلی ڈان کے مطابق برطرف ہونے والوں کی تعداد چھ ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے جبری ریٹائر کیا گیا ہے کوئی کہتا ہے نوکری سے نکالا گیا ہے کسی کے مطابق برخاست کیا گیا ہے ۔ لیکن کسی کی جرأت نہیں ہے کہ فوج کے ترجمان سے نہ صرف درست تعداد پوچھے بلکہ ان کے جرائم کی نوعیت اور تفصیل پوچھے۔برطرف یاسبکدوش ہونے والے افسروں کا جرم کیا تھا؟ انہوں نے کتنی لوٹ مار کی؟ کیا ان سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کی گئی یا نہیں؟ ان کے خلاف کس عدالت میں مقدمہ چلا؟

اور کچھ ہو نہ ہو آرمی نے یہ بیان دے کر نواز شریف حکومت کے لیے مزید مشکلات ضرور کھڑی کر دی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس اقدام سے آرمی پر کرپشن کا الزام ختم ہو گیا ہے؟اگر راحیل شریف واقعی کرپشن کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کریں؟ آرمی کی طرف سے شروع کی گئی مہم جوئیوں اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب دیں۔

پاکستان کرپشن کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت سے بھی دوچار ہے جس کا ذمہ دار پاک فوج کی پالیسیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ کیا پاک فوج کا ادارہ اپنے آپ کوپارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہے؟

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں کرپشن کی بنیادی وجہ جرنیلوں کا سیاست میں حصہ لینا ہے۔ جب پاک فوج کے سربراہ آئین کو روندتے ہوئے اقتدا رپر قبضہ کر لیتے ہیں اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیےاپنی مرضی کے حکومت بنانے کے لیےنہ صرف  سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں بلکہ قومی خزانے سے کروڑوں روپیہ بھی تقسیم کرتےہیں جس سے سماج میں کرپشن کا کلچر فروغ پاتا ہے۔

News Desk

One Comment