افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے کہا ہے کہ وه مزید اسلام آباد حکومت سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا نہیں کہیں گے بلکہ اب وه افغان عوام کے خون سے ہاتھ رنگنے والے عسکریت پسندوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے پچھلے ہفتے کابل میں ہوئے خونریز دہشت گردی کے حملے میں درجنوں شہریوں کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کے بعد سے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات ایک مرتبہ پهر بڑھ گئےہیں۔
منگل کو افغان وزارت داخلہ کے قریب ہوئے اس حملے کی ذمہ داری حقانی گروپ نے قبول کی تهی، جسے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اپنا دفاعی اثاثہ قرار دیتی ہے۔ کابل حکومت کے چیف ایگزیکٹیو عبدالله عبدالله نے حملے کے بعد اسلام آباد کا مجوزه دوره منسوخ کر ڈالا اور آج پهر صدر غنی نے بهی دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے لیے اقدامات نہ کرنے کا الزام دیا۔ انہوں نے متنبہ کیاکہ اگر پاکستان ایسے ہی دہشت گردوں کی معاونت کرتا رہا تو اقوام متحده کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا جائے گا۔
اشرف غنی نے عوامی دباؤ کے پیش نظر آج پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا تها۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے وه پاکستان سے نا امید ہو چکے ہیں۔ اس اجلاس میں ولسی اور مشرانو جرگہ کے ارکان کے بشمول، اراکین کابینہ اور علماء بهی شریک تھے۔
اشرف غنی نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو اب کیے گئے وعدوں کے مطابق ’اچھے اور برے‘ طالبان کے فرق سے بالاتر ہوکر عسکریت پسندوں کے ٹهکانوں کو ختم کرنا ہو گا۔ انہوں نے طالبان عناصر، حقانی نیٹ ورک اور داعش کو افغانستان کا دشمن قرار دیتے ہوئے ان کی سرکوبی کا اعلان کیا:’’ہم نے افغانستان میں تشدد کی اس لہر کو پر امن انداز سے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی ہے مگر ہم اپنے وطن اور عوام کے دفاع سے بهی کسی صورت غافل نہیں‘‘۔
یاد رہے که صدر غنی نے 2014ء کے اواخر میں اقتدار سنبهالنے کے بعد پاکستان کی جانب غیر متوقع طور پر دوستی کا ہاتھ بڑهایا تها اور اسلام آباد سویلین حکومت کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کی فوجی قیادت کے ساتھ بهی ان کے رابطے خاصے فعال رہے۔ ملک کے اندر بعض حلقے، بالخصوص سابق صدر حامد کرزئی اور ان کی ٹیم غنی کو اسی قربت باعث مسلسل تنقید کا نشانہ بهی بناتے رہتے ہیں۔
دفاعی اور اسٹریٹیجک امور کے ماہر جنرل غفار خان پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں افغان صدر کے حالیہ خطاب کو مثبت اور جامع قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے خان نے کہا کہ افغان سکیورٹی دستوں کی جانب عوام کی حمایت اور ہمدردی عروج پر ہے اور اب پارلیمان میں دوست اور دشمن کی اس واضح تفریق کے بعد لوگوں میں دہشت گردوں کے خلاف متحد ہونے کا جذبہ مزید مضبوط ہو گا:۔
’’کابل میں ہوئے حملے کے بعد مختلف صوبوں اور خود دارالحکومت کابل میں شہریوں نے کئی ملین سی سی خون عطیہ کیا ہے، جو بے مثال ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ اب دہشت گردی سے اکتاچکے ہیں اور کسی صورت بهی گزشتہ کئی برسوں میں ہوئی ترقی کو طالبان کے ہاتھوں تباه ہونے نہیں دیں گے‘‘۔
صدر غنی کو داخلی سطح پر دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے جو دوسری بڑی مشکل درپیش ہے، وه سکیورٹی سیکٹر میں اعلیٰ عہدوں پر افسران اور وزراء کی تعیناتی ہے۔ چیف ایگزیکیٹیو عبدالله عبدالله کے ساتھ صدر اشرف غنی کی قومی وحدت کی حکومت کو ایک برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے تاہم اب بهی یہ دونوں رہنما ایک مستقل وزیر دفاع کی تعیناتی کو ممکن نہیں بنا سکے ہیں۔ یہ اہم وزارت اور اہم انٹیلی جنس اداره نگران وزیر اور نگران سرپرست کے تحت کام کر رہے ہیں جبکہ وزارت دا خلہ کے لیے ایک سال میں دو وزراء کو آزمایا جا چکا ہے۔
DW
♣