افغان ثور انقلاب اور پاکستان کے رجعت پسند 

عبد الحئی ارین

06 May 1978, Kabul, Afghanistan --- Noor Mohammad Taraki, head of the Afghan Revolutionary Council, delivers a speech at a press conference. --- Image by © Kapoor Baldev/Sygma/Corbis


افغانستان میں جب 27اپریل 1978کو عظیم عوامی ثور انقلاب استاد نور محمد ترکئی کی سربراہی میں خلق پارٹی کے عظیم سپوتوں نے برپا کیا تو اس کے خلاف ملک کے اندر چھوٹے پیمانے پر جبکہ ہمسایہ ممالک کی جانب سے فریب ناتمام کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ بی بی سی سمیت پاکستانی اخبارات نے اس عوامی وسماجی انقلاب کو غیر شرعی اور غیر اسلامی کے القابات سے نوازنا شروع کیا تھا۔ (اور یہی وہ دور تھا جہاں سے پاکستانی میڈیا نے فکری اور نظریاتی تخریب کاری کا آغاز کیا تھا) ۔

صدر داؤد کی حکومت سے فرار ہونے والے خوانین و دیگر عناصر جو 1974میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلے سے ہی پاکستان میں پناہ حاصل کر چکے تھے۔ انھوں نے جماعت اسلامی پاکستان اور مفتی محمود صاحب کی جے یو آئی کے تعاون سے اس خلقی انقلاب کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے عمل کو مزید تیز کردیا تھا۔ یعنی یہ لوگ خود کابل یونیورسٹی کے باتھ روم میں قران شریف کو پھاڑ کر الزام انقلابیوں پر لگاتے تھے۔

قرآن کو آگ لگا کر عوام کو انقلابی حکومت کے خلاف بھڑکاتے تھے۔ پروپیگنڈہ کرنے کا یہ سلسلہ ان عناصر نے نہ صرف افغانستان میں شروع کر رکھا تھا بلکہ پاکستان کے پشتون علاقوں پشاور سے لیکر کوئٹہ تک اس بیلٹ میں ان مذہبی اداکاروں نے اس انقلاب کو اسلام دشمن قرار دینے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور ساتھ ہی اسے کمیونسٹ روس کے ساتھ نتھی کرنے کی سازشیں شروع کی ہوئی تھیں۔

ہر مسجد میں اور ہر مذہبی اجتماع میں رجعت پسند مُلاوں نے افغانستان میں رونما ہونے والے اس سماجی تبدیلی کے خلاف زہر اگلنا شروع کر رکھا تھا۔ اور یہاں کے سادہ پشتونوں کو انقلاب کے بارے میں بدظن کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔ژوب کے جامعہ مسجد کے خطیب تو ہر جمعہ کی تقریر میں روس اور افغانستان کے انقلابوں کے خلاف ایسی من گھڑت کہانیاں لوگوں کو سناتے تھے کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔

مثلاً وہ جمعہ کے خطبے سے پہلے والی تقریر میں فرماتے تھے کہ یہ انقلابات اسلام کے خلاف آئے ہوئے ہیں۔ ماسکو مین نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھلے عام سڑکوں پر گھومتے ہیں اور ان میں کوئی سماجی رشتہ نہیں دیکھا جاتا ہے۔حتی کہ لوگ اپنی بہنوں یا ماؤں سے بھی شادیاں کرتے ہیں۔ اسلئے اب ہمارے علاقے کے جو نوجوان روس میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے، اب ان میں سے کسی ایک نے اپنے گھر کو فون کر کے کہا ہے کہ میں واپس آکر اپنی ہی بہن کیساتھ شادی رچانا چاہتا ہوں۔

ایک اور مولوی صاحب نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا کہ کمیونسٹ بننے کیلئے جو فارمولہ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریفوں کو قطار میں رکھ کر اس پر سے کسی مسلمان نوجوان کو گزارا جاتا ہے اور جب وہ قطار کے آخر میں پہنچتا ہے تو لینن کی تصویر کو سجدہ کرتا ہے تب جا کر اُسے کمیونسٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے نہ صرف لوگ ثور انقلاب کے خلاف ہوجاتے بلکہ بلواسطہ طور پر وہ افغان عوامی انقلاب کے خلاف بھی ہوجاتے تھے۔ 

اسی طرح جو لوگ یہاں پرافغان انقلاب کے حامی تھے، ان کے خلاف باقاعدہ طور پر کافر اور مرتدکے فتوے جاری کئے جاتے تھے۔ ان مذہبی پارٹیوں کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ جیسی انقلاب پسند اور لیبرل جماعتوں کے کارکنوں کو سرعام کافر اور مرتد کہا جاتا تھا۔ اور کئی واقعات ایسے بھی ہوئے کہ کچھ مُلاؤں نے ان کارکنوں کے سادہ لوح والدین کو باقاعدہ طور پر برادری کے سامنے بیٹھا کر اُن سے کہا کہ آپ کا بیٹا فلاں پارٹی کا کارکن ہے اور یہ پارٹی چونکہ افغان ثور انقلاب کو سپورٹ کرتی ہے۔ لہذا اس کا ایمان کیساتھ ساتھ اپنی بیوی کیساتھ نکاح بھی ختم ہوچکا ہے۔ لہذا اس کا دوبارہ اپنی ہی بیوی کیساتھ نکاح تازہ کروایا جاتا تھا۔ 

کہیں پر تو ان سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے سر منڈوا کر، انھیں دوبارہ اسلامی طریقے سے غسل دے کر اُن سے کلمہ شہادت کا ورد کروایا جاتا اور دوبارہ مسلمان ہونے کی بشارت اس شرط پر سنائی جاتی تھی کہ آئندہ وہ ان سیاسی جماعتوں سے تعلق نہیں رکھیں گے اور نا ہی افغان ثور انقلاب کی حمایت کریں گے۔

جماعت اسلامی و دیگر مذہبی جماعتوں کے اس پشتون دشمن پروپیگنڈے کے نتیجے میں کئی والدین نے اپنے بچوں کو گھروں سے نکال کر جائیداد سے عاق کردیا تھا۔ سسرال والوں نے بیٹیاں گھروں میں بیٹھا کر ان کارکنوں سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سینکڑوں گھر اجڑ گئے تھے، کئی سینکڑوں خاندان تباہ وہ برباد ہوئے تھے۔ 

حالانکہ اگر دیکھا جائے تو افغانستان میں وقوع پذیر ہونے والایہ انقلاب دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایک سماجی انقلاب تھا۔ اور اس میں افغان صدر سرداؤ داوود اور اُس کے خاندان کے علاوہ ملکی سطح پر کوئی بڑی خونریزی نہیں ہوئی تھی بلکہ اٹھارہ گھنٹوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد پُرامن طریقے سے خلق پارٹی اور افغان فوج نے صورتحال کنٹرول کردیا تھا۔ افغان ثور انقلاب جاگیرداری یا فیوڈلزم کے خلاف ایک عوامی آواز تھی ۔

یہ انقلاب بنیادی طور پر کسی مذہب یا عقیدے کے خلاف نہیں تھا بلکہ افغانستان کے جید علما تو اس انقلاب کے حق میں تھے اور وہ خوش تھے کہ افغانستان میں پہلی مرتبہ اسلامی احکامات پرعمل درآمد ہورہا ہے۔ مثلا انقلاب نے آٹھ (۸) انقلابی فرمان جاری کئے تھے جن میں سود کو حرام قرار دے کر ملک سے سودی نظام ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ جاگیرداروں سے زمینیں لیکر غریب عوام مین تقسیم کی گئیں تھی۔ ولور یا (جہیز )کی شکل میں جاری عورتوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی گئی تھی اور اس کی جگہ شرعی مہر نافذ کردی گئی تھی۔اسی طرح استحصال و دیگر سماجی نابرابریوں کا خاتمہ بھی اسلامی عمل تھا۔ لیکن پاکستان میں موجود ان انقلاب دشمن قوتوں نے آخر کار دھمکیاں دینی شروع کر دی تھی کہ برف پگھلنے کے ساتھ ہی کاروایاں تیز ہوجائیں گی اور خلقی حکومت کے خلاف عام جنگ چھیڑ جائے گی۔

اگرچہ اس انقلاب کو افغانستان کے اندر کسی قسم کے بڑے مزاحمت کا سامان نہیں رہا تھا۔ لیکن پاکستان میں موجود افغان خوانین بشمول گل بدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور ربانی کو بھٹو حکومت اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل تھی اور اس بیرونی مداخلت کی وجہ سے سامراجی امریکہ بہادر اور مغرب نواز حلقوں نے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی خلق حکومت کو ناکام بنانے کیلئے سازشیں کرنا تیزکردیں تھیں۔

افغانستان کے خلاف مذہب کے نام پر سازشوں کا یہ سلسلہ غازی امان اللہ خان کے دور میں انگریز نےُ شروع کیا تھا۔صدر سردار داؤود اور ثور انقلاب کے ادوار میں اُس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اس میں نئی روح پھونکی تھی۔ اور بعد میں جب روسی فوجی ایک معاہدے کے تحت افغانستان میں آئے تو اسلامی دنیا اور ان کے ازلی دشمن یہود و نصارا نے بھی پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں صف آرا ہوئے۔ اور یہاں پر مجاہدین کے ٹریننگ سینٹرز لوگوں کو جنگ کی تربیت دے کے اُنھیں افغانستان بھجواتے تھے۔ 

ساتھ ہی ساتھ یہاں پر طورخم سے لیکر چمن تک مساجد و مدارس کھڑے کردئے گئے جن سے ہنوز ہماری اسٹیبلشمنٹ فیض یاب ہو رہی ہے۔اس فریب جہانی میں جماعت اسلامی، مولانا سمیع الحق، جمعیت علما اسلام سمیت پاکستان کی دیگر مذہبی پارٹیوں نے اپنے مسلکی تضادات کو پسِ پُشت ڈال کر روس یا باالفاظ دیگر افغانستان کے خلاف جہاد اعلان کردیا تھا۔تاہم روس کو شکست دینے کے بعد امریکہ اور باقی جہانی طاقتیں تو یہاں سے نکل گئی لیکن اُن کے بنائی گئے جہادی کیمپ، مہاجرین کیمپس اور مسجد و مدارس ہنوز طالبان کی شکل میں استعمال ہورہے ہیں۔

لیکن ان سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ حال ہی میں ہمارے ایک اور کمیونسٹ ملک چین کے صدر نے اپنا ریاستی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی خدا سے بڑی ہے۔ یہ لادینیت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اور تو اور چین میں ابھی تک لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔ سینکیانگ صوبہ میں مسلمانوں کو مسجدیں تعمیر کرنے سے روکا گیا ہے، اُنھیں داڑھیاں نہ رکھنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اور وہاں کے مسلمانوں پر روزے رکھنے پر بھی پابندی ہے۔ چین میں اتنا سب کچھ غیر اسلامی ہونے کے باوجود اس پر نا تو طالبان کی طرف سے کوئی ردعمل یا بیان سامنا آیا اور نا ہی جماعت اسلامی، جے یو ائی و دیگر مسلکی گروپوں کے جذبہ اسلامی نے جوش مارا ہے۔ 

5 Comments