سید نصیر شاہ
مسلمان جب بیسویں صدی میں آنکھیں مل کر جاگے تو دنیا بدل چکی تھی‘ اصحاب کہف کی طرح اُن کے پاس وہ سکے تھے جو صدیوں پہلے چلن میں رہے تھے مگر اب انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کے پاس علوم کے نام سے جو کچھ تھا وہ عہدِ ملوکیت میں تیار کردہ فقہ تھی اور صدیوں پہلے کی کڑ کھائی منطق اور دیمک خوردہ تاریخ کی کتابیں تھیں۔ ان ہی کو ’’علم‘‘ سمجھ کر ان کے علماء رٹتے رٹتاتے چلے آرہے تھے۔ اگر اس وقت بھی یہ زمانہ اور اس کے تغیر کا ادراک کرکے جدید دنیا کے علوم سیکھنے کی کوشش کرتے اور پوری بصیرت سے حالات کا فہم حاصل کرتے تو ان کا وجود کسی حدتک مسلمانوں کیلئے افادیت بخش ثابت ہوتا۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ اپنی پتھر سوچوں پر جمے رہے ہر مذہب کے پر چار ک یہی تعلیم دیتے آئے تھے کہ ان کا مذہبی حق ہے اور انجام کار اسی مذہب کے ماننے والے دنیا پر غالب آجائیں گے۔
بالکل اسی طرح مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی یہی عقیدہ راسخ کیا گیا کہ حق و صداقت کے امین تم اور صر ف تم ہو اور دنیا کی زمام قیادت آخر کار تمہارے ہاتھوں میں ہی آئے گی اور ’’لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا‘‘ دنیا کی امامت کا صرف یہ مطلب لیا جائے گا کہ ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور ان ہی کا سکہ چلے گا۔ جب یہ سوال اٹھے کہ یورپ نے حیرت انگیز سائنسی ترقی کر لی ہے وہ تلواروں اور تیر و تفنگ والی جنگیں اب نہیں رہیں مسلمانوں کے ذہن تو ابھی تک ماضی میں اٹکے ہوئے ہیں یہ کس طرح غالب آئیں گے تو ہمارے قومی شاعر نے بڑے جذباتی انداز میں ہمیں تسلی دی کہ اسلحہ اور سائنسی قوت کی کیا ضرورت ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کر تا ہے بھروسہ۔مومن ہے توبے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
علماء نے جس طرح رہنمائی کی وہ آپ دیکھ چکے جس زمانہ میں مسلمانوں کا دنیا کے بڑے حصہ پر تسلط تھا اسی دور میں مرتب ہونے والی فقہ نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا جہاں مسلمان حکمران ہیں اور قاضی بیٹھے’’ شرعی قانون‘‘ چلا رہے ہیں وہ دارالسلام یا دارالامان ہے اور جہاں ایسا نہیں ہے وہ دارالکفر یا دارالحرب ہے ۔دارالکفریا دارالحرب میں رہائش پوری طرح درست نہیں اس لیے وہاں سے ہجرت کر جانی چاہیے۔
انگریزوں کے تسلط کے بعد حقیقت سے آنکھیں بند کرلینے والے علماء نے یہی فتویٰ صادر کیا اور ہندوستان کے ہزاروں مسلمان اپنا گھر اور اپنی جائیداد یں اونے پونے بیچ کر افغانستان کی طرف چل پڑے۔ سینکڑوں راہ میں لقمہ اجل ہوئے۔ آگے افغانستان جیسا کمزور ملک انہیں کہاں سنبھال سکتا تھا۔ الٹا افغانیوں نے ان سے طرح طرح کی زیادتیاں کیں ان مہاجرین کو خاسہ و نامراد واپس آنا پڑا یہاں آئے تو وہ فقیر تھے سرچھپانے کی جگہ بھی نہ تھی ان لوگوں نے یہ مصائب محض اس لیے اٹھائے کہ علماء نے حقیقت سے آنکھیں بند کر لی تھیں اور دنیا کو اندھی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے فتویٰ صادر فرمادیا تھا۔
ہندوستان کو دارالکفر یا دارالحرب قرار دینے کا یہ فتویٰ تمام علماء کا متفقہ فتویٰ نہیں تھا کچھ ایسے علماء بھی تھے جنہوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کو ہجرت کے ابتلاء سے بچانے کی کوشش کی اور صاف کہہ دیا کہ انگریزوں کے تسلط کے بعد بھی ہندوستان دارالسلام ہے ان ہی علماء میں مولانا احمد رضا خان بریلوی تھے جنہوں نے صاف لکھا’’امام اعظم ابو حنیفہ بلکہ تینوں ائمہ کے مذہب کی رو سے ہندوستان دارالسلام ہے دارالحرب ہرگز نہیں کیونکہ جن تینوں باتوں سے کوئی ملک دارالحرب ہو جاتا ہے ان میں سے ہمارے امام کے نزدیک ایک یہ ہے کہ اس ملک میں احکام شرک مکمل طور پر جاری ہوں اور شریعت اسلامیہ کے احکام و شعائر مطلقاً جاری نہ ہونے پائیں مگر بحمد اللہ یہ بات یہاں ہندوستان میں بالکل موجود نہیں ہے۔ اہل اسلام جمعہ اور عیدین اور اقامت نماز باجماعت وغیرہ امور شریعت بلا مزاحمت علی الاعلان ادا کرتے ہیں۔ نکاح ‘ طلاق‘ مہر‘ خلع‘ وقف ‘ وصیت وغیرہ مسلمانوں کے بہت سے معاملات ہماری شریعت کے مطابق فیصل ہوتے ہیں اور ان امور کے بارے میں انگریز حکام کو بھی علماء سے فتویٰ لینااور اس پر عمل کر نا ضروری ہوتاہے بحمداللہ کہ شریعت اسلامیہ کی شوکت و جبروت ایسی قائم ہے کہ مخالفین بھی اسے تسلیم کرنے اور اس کی اتباع پر مجبو ر نہیں الحاصل ہندوستان کے دارالسلام ہونے میں کوئی شک نہیں‘‘۔(’’اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالسلام‘‘ مؤ لفہ مولانا احمد رضا خان بریلوی مطبوعہ حسنی پریس واقع آستانہ عالیہ رضویہ محلہ سوداگراں بریلی زیر اہتمام محمد حسنین رضا خان بریلوی)۔
مولانا احمد رضا خان نے یہ تحریر اس وقت لکھی جب برطانوی حکومت کا آفتاب نصف النہارپر تھا۔مسلمان پوری طرح مغلوب ہو چکے تھے اس وقت مسلمانوں کو انگریز کے خلاف مسلح مزاحمت پر اکسانا انہیں آگ میں جھونکنا تھا اس لیے مولانا احمد رضا خان نے انتہائی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ بھی لکھا:’’مفلس پراعانتِ مال نہیں‘ بے دست و پاپر اعانت اعمال نہیں لہٰذا مسلمانان ہند پر جہاد و قتال نہیں‘‘۔(’’دوام العیش فی الائمۃ من قریش‘‘ ص 46 مطبوعۃ مکتبہ رضویہ لاہور)۔
مولانا سید ابو لاعلی مودودی نے اس دور میں لکھنا شروع کیا جب ہندوستان کے باشندے آزادی تحریکوں میں منظم ہو رہے تھے انہوں نے بھی صاف لکھا
’’ہندوستان اس وقت بلاشبہ دارالحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کو کوشش کر رہی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہوجانے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن جب وہ مغلوب ہوگئے انگریزی حکومت قائم ہوچکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء پر عمل کر نے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کرلیا تو اب یہ ملک دارالحرب نہیں رہا اس لیے کہ یہاں اسلامی قوانین منسوخ نہیں کئے گئے نہ مسلمانوں کو سب احکام شریعت کی اتباع سے روکا گیا‘‘۔(حاشیہ کتاب’’سود‘‘ ص 77 مطبوعہ مکتبہ جماعت اسلامی ذیلدار پارک اچھرہ لاہور)
یہ بھی حقیقت پسندانہ بات تھی اگر آپ غور سے دیکھیں تو یہ فیصلے دوسرے لفظوں میں اسی فکر کے غماز تھے جسے ’’سیکولرزم‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی مصالحت اور رواداری سے کام لو اپنی سوچ کی تبلیغ پر امن طریقہ سے کرتے رہو ،دوسرے پر اپنی رائے لادنے کی کوشش نہ کرو، پوری دانش مندی سے حالات کا مطالعہ کرو اور عاقبت نا اندیشانہ سوچ سے خود کو اور اپنی قوم کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ حضور ؐنے تیئس(23) سالہ دور نبوت میں سے تیرہ سال مکہ مکرمہ میں گزارے۔ جاہل کفار طرح طرح کے مظالم کرتے رہے۔ مسلمانوں کو کھلم کھلا اپنے طور پر عبادت کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن حضور ؐ صبر و شکر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اسی طرح رہنے کی تلقین کرتے رہے کسی کو آپ نے کسی قسم کی مسلح مزاحمت کی تعلیم نہ دی۔ یہی تیرہ سالہ دور نبوت کا اسوۂ حسنہ تھا جو علماء کے پیش نظر تھا،جب وہ ہندوستان کو دارالسلام قرار دے رہے تھے۔ جن علماء نے ابتداء میں ہجرت کا فتویٰ دیا تھا وہ بھی شاید حالات و واقعات کا فہم پا گئے تھے اب وہ متحدہ قومیت کا پرچم بلند کئے ہوئے تھے گویا وہ سیکو لرزم میں ہی عافیت دیکھ رہے تھے مگر افسوس ہے کہ ہمارے قومی شاعر اقبال کے نزدیک اسلام کا مفہومکچھ اور تھا وہ کہہ رہے تھے:۔
مُلا کو جو ہے ہند میں سجدہ کی اجاز ت ۔نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
صاف ظاہر ہے کہ ہمارا شاعر حقیقتوں کی جدید دنیا سے دور کسی پچھلی صدی میں جی رہاہے اور سمجھ رہا ہے کہ اس کے قارئین کو اتنی قوت حاصل ہے کہ وہ ابھی اٹھ کر دنیا کو تہس نہس کردیں اور اقوام عالم کی امامت سنبھال لیں۔ اسی بہت بڑے قومی شاعر نے علماء پر طنز کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا:۔
ان غلاموں کا یہ فتویٰ ہے کہ ناقص ہے کتاب۔کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلاموں کے طریق
ہمیں افسوس ہے کہ حضرت علامہ عمر میں جتنے زیادہ ہوتے گئے اپنی سوچوں کو محدود کرتے گئے انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ بہتر رزق اور بہتر حالاتِ کار کی تلاش میں مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ نہیں کہ وہ ہر جگہ اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ وہ ان ملکوں میں اپنی اور اپنے بال بچوں کی روزی کمانے جاتے ہیں کسی سے اقتدار چھیننے نہیں جاتے ہاں سیکولرملکوں میں انہیں یہ آزادی ضرور حاصل ہے کہ اپنے بلند اخلاق اور اپنی خوبصورت انداز کی تبلیغ سے لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوں اور یہی وہ چیز ہے جو ان کی سوچ کو لوگوں کے دلوں میں اتار سکتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اقبال اور اقبال جیسی سوچ رکھنے والے دوسرے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اپنے نظریات کو غالب کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ کسی نہ کسی طریق سے اقتدار پر قبضہ کرلو اور پھر اپنی رائے کو قوت سے دوسروں پر مسلط کر دو ۔ جن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا ایک اقتباس ہم نقل کر چکے ہیں، وہی مولانا مودودی دوسری جگہ یہ کہتے سنے جاتے ہیں:۔
’’اصلاح خلق کی کوئی سکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کئے بغیر نہیں چل سکتی جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فسادکو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلق خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح ہو کر کام کرنا فضول ہے اس کے لیے اٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کرکے غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقہ کی حکومت قائم کرنی چاہیے‘‘۔( ’’خطبات‘‘ ص231)۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں’’اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانون برحق مان لیا ان کے ماننے کے ساتھ ہی یہ فریضہ تم پر عائد ہو جاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں ’’تمہاری سکونت ہو وہاں خلق خدا کی اصلاح کیلئے اٹھو حکومت کے غلط اصول کو صحیح سے بدلنے کی کوشش کرو۔ ناخداترس اور شتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو‘‘۔( ایضاً ص233)۔
آگے چل کر فرماتے ہیں’’تم روئے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو لہٰذا آگے بڑھو، لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دواورحکمرانی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو ‘‘۔(ایضاً ص235)۔
یہی وہ تعلیمات ہیں جو جدید دنیا اور اس کے معاملات سے بے خبر اپنے خوابوں اور اپنی خواہشوں کے نفرت زاروں میں رہنے والے علماء نے پھیلائے۔ کچھ بدبخت حکومتوں نے پروان چڑھایا اور اب ساری دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص زہریلی فصلیں کاٹ رہا ہے ۔ ممالک غیر میں جو مسلمان صبر و سکون سے اپنی محنت سے خوش حالی کما رہے تھے آج ہر جگہ مصائب کا شکار ہیں‘ کیونکہ ان کے علماء کی جو فقہ ہے وہ حکمرانی اور بالادستی کا انداز معاشرت سکھا رہی ہے۔ ہندوستان‘ شرق اوسط اور یورپی‘ امریکی ممالک میں جو مسلمان بستے ہیں وہاں اب ایک نئی فقہ جنم لے چکی ہے جسے ’’فقہ الاقلیات‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ کم نظر اور محدود سوچ رکھنے والے علماء تو قرون وسطیٰ کی فقہ سے چمٹے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کے متعلق یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کا قیام عارضی ہے اس لیے اسی فقہ سے ایسی عارضی صورتوں کے احکام اخذ کرکے فتوے دے رہے ہیں اور یہ رہنمائی کر رہے ہیں کہ مسلمان مقامی قانون ثقافت اور معاشرتی قدروں سے الگ اپنا تشخص قائم رکھیں ‘مقامی سیاست میں حصہ نہ لیں کہ یہ نظام کفر سے تعاون ہے۔ اس قسم کا ایک مجموعہ انگریزی میں لندن سے 1998ء میں شائع ہوا تھا یہ سعودی عرب کے شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ عثمین کے فتووں کا مجموعہ ہے ان میں وہی رجعت پرستانہ باتیں ہیں جو ہمارے علماء کا طرۂ امتیاز رہی ہیں۔ مثلاً فقیہان کرام فرماتے ہیں ’’اگر رزق کمانے کے سلسلہ میں مرد اور عورتیں جو محرمات میں سے ہیں اختلاط سے اجتناب ممکن نہ ہو تو ایسی روزی کو ترک کر دینا واجب ہے‘‘۔( ’’مسلم اقلیات‘‘ص75)۔
یہ فقیہان کرام ان ممالک پر ’’دارالحرب ‘‘ کی پرانی اصطلاح چسپاں کرتے ہیں۔ تاہم کچھ ایسے علماء بھی ہیں جن کی نگاہوں میں کچھ کشادگی اور دماغوں میں کچھ وسعت ہے۔ انہوں نے 1994ء میں شمالی امریکہ میں فقہ کونسل کے ایک منصوبہ کا اعلان کیا جس کے تحت مسلم اقلیات کے لیے فقہ ترتیب دینی ہے۔ اس کونسل کے سیکرٹری یوسف طلال اور چیئرمین طہٰ جابر العلوانی ہیں ۔ چیئرمین نے امریکہ اور دیگر سیکولر ممالک میں مسلمانوں کیلئے ملکی سیاست میں حصہ لینا جائز قرار دیا۔ جدید دنیا کی فہم رکھنے والے علماء میں ’’فقہ الاقلیات‘‘ کی اصطلاح اب خاصی چل گئی ہے۔
خالد عبدالقادر نے 1998ء میں لبنان سے ایک کتاب ’’فی فقہ الاقلیات المسلمہ‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی علامہ یوسف القضاوی 2001ء میں کتاب ’’فقہ الاقلیات المسلمین۔۔۔حیوٰۃ المسلمین وسط المجتمعات الاخریٰ‘‘ قاہرہ سے منظر عام پر لائے جس کا انگریزی ترجمہ دو جلدوں میں 2002ء اور 2003ء میں شائع ہوا۔کہا یہ جا رہا ہے کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں کے عوام مختلف ہیں۔اس پر قدامت پسند علماء جگہ جگہ شور مچا رہے ہیں مگر جو لوگ شعورو ادراک کے حامل ہیں اور آج کی دنیا پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ اس مخمصے میں مبتلا ہیں کہ آج جب دنیا ایک شہر بن گئی ہے پاکستان میں رہنے والا ایک شخص اب صرف پاکستان کا شہری نہیں ہے بلکہ عالمی نظام کا حصہ ہے ۔ پاکستان کوئی الگ تھلگ ملک نہیں اقوام عالم کا ایک جزو ہے اسے بین الاقوامی معاہدات کا احترام بھی کرنا ہے۔ ان حالات کا حل فقہ الاقلیات جیسے عارضی فتووں میں تلاش کرنا کہاں تک درست ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہماری سوچ سیکولر نہیں ہوتی اور ہم ملکی دستور میں سیکولرزم کو نہیں اپناتے دنیا میں کو ئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔ مذہب ذاتی اور انفرادی حیثیت سے تو کسی قدر قابل عمل ہو سکتا ہے۔ اجتماعی حیثیت سے اس پرعمل خود اس کے تعبیر کرنے والوں کے نزدیک تضادات اور اختلافات سے معمور ہے۔
♠
3 Comments