ہمارے معاشرے میں بعض رجحانات رفتہ رفتہ مٹتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ نئے پیدا ہورہے ہیں خاندان کا پرانا تصور جو پہلے شہروں سے قریب قریب ختم ہوچکا تھا اب دیہاتوں میں بھی اپنی پرانی اورپہلی شکل میں نہیں رہا۔
قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے آبادی کے دباؤ سے زمین اور جائیداد کی تقسیم کا عمل تیز ہوچکا ہے اور زمین ٹکڑیوں میں بٹ گئی ہے اب ایک بڑے یا ایک سے زیادہ خاندانوں کا پیٹ پالنے سے قاصر ہے ایسی صورت میں جس خاندان میں بچے پیدا کرنے کے رجحانات زیادہ ہوتے ہیں وہاں شکست وریخت کا عمل بھی جلد ہی شروع ہوجاتا ہے خواہ اس کے پاس اچھی خاصی زمین وجائیداد ہی کیوں نہ ہو تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزرنے پر اس کی زرخیزی اور آمدنی میں کمی آجاتی ہے۔
ایسے کنبے جن میں آبادی کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوچکا ہے ان میں تضادات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور ان کے جوان اپنی ضروریات زندگی اور معیار کو برقرار رکھنے کے لئے شہروں کا رخ کررہے ہیں یا پھر وہ اس صورت حال سے بچنے کی خاطربوریا بستر باندھ رہے ہیں شہروں میں وہ مختلف پیشوں اور کاروبار سے وابستہ ہوکر معیار زندگی کو قائم رکھنے کے لئے کوشاں ہیں یا پھر جیسا تیسا وقت کاٹ رہے ہیں ۔
شہروں میں صنعت کاری اور بڑے کاروبار کی وجہ سے اور کچھ مختلف قوموں، زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کے حامل افراد کے میل ملاپ ، کاروباری اور طبقاتی تقاضوں کے باعث روایات اور رسومات مختلف ہوتی ہیں اور اگر کچھ ہیں تو وہ دم توڑ رہی ہیں۔ لہٰذا جس طرح دیہات میں روایات اور رواجوں پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور ان کو پورا کرنے کے لئے قرضے بھی لئے جاتے ہیں شہروں میں یہ حالات نہیں ہوتے حتیٰ کہ مردے کو جنت بھیجنے کے لئے دیگ پکانے کی رسم بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔
جو لوگ دیہات سے بستر اٹھا کر شہروں میں آکر آباد ہورہے ہیں وہ اپنے ساتھ اپنی دیہاتی روایات، ثقافت اور ذہنیت بھی لاتے ہیں شہروں میں ان دنوں جو انتہا پسندی دیکھنے میں آرہی ہے اور لوگوں میں صبر وتحمل اور برداشت کا مادہ تمام ہوتا جارہا ہے اس کے پس پردہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دیہاتوں سے آبادی کا رخ شہروں کی جانب بڑھ چکا ہے اور یہ لوگ شہر کے اطراف اپنی آبادیاں بنا رہے ہیں اور ان میں اپنی دیہاتی ذہنیت کو قائم ودائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کو معاشرے پر حاوی کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ پشاور کے پشتخرہ ، رامداس یا نوتھیہ میں جاکر یہی احساس ہوتا ہے کہ کسی دیہات میں پھر رہے ہیں جب لوگوں کو وہی ماحول مل جاتا ہے جو دیہاتوں کا ہوتا ہے تو شہروں میں رہتے ہوئے بھی یہ لوگ حقیقتاً ذہنی طور پر دیہاتی ہوتے ہیں اور اس کا اظہار معمولی معمولی باتوں پر جھگڑے ، دنگا فساد اور برداشت وتحمل کی کمی اور دلائل کی بجائے جذباتیت کی شکل میں کرتے رہتے ہیں ۔
البتہ جو لوگ شہروں میں ایسی جگہوں اور مقامات پر ملازمت کرتے ہیں اور رہائش رکھتے ہیں جہاں لوگ تعلیم یافتہ اور مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے بستے ہوں تو وہ متذکرہ بالا لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں شہروں میں پیشے اور آمدن کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں بعض لوگ جلد ہی شہر کے ماحول میں رنگ جاتے ہیں لیکن یہ زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو دیہات میں مختلف کسب کرتے رہے ہوں اگر وہ کھیت مزدور تھے تو عرصہ دراز تک دیہاتی رسومات سے بندھے رہتے ہیں اور ان کے ذہنوں اور عادات میں تبدیلی اسی وقت آتی ہے جب ان کے آس پاس کا پورا ماحول مختلف زبانوں، قوموں اور علاقوں کے لوگوں سے بھرا ہوا ہو اور ان کا تعلق بھی مختلف پیشوں سے ہو ایسی صورت میں ان کے دلوں اور ذہنوں میں اپنی معاشی حالت بدلنے کے خیالات جنم لیتے ہیں اور رسومات اور اچھائی یا برائی کا دیہاتی تصور پس منظر میں چلا جاتا ہے ۔
جس وقت اخبارات کی تعداد بڑھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نجی چینل وجود میں آئے تو ان سے یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب شہری اقدار، ثقافت، تہذیب، معیشت اور دیگر حالات دیہاتوں کے ماحول کو متاثر کرنے لگیں گے اور ان میں بھی تبدیلی کا عمل شروع ہوجائیگا دیہات اور شہر کے درمیان ذہنی فاصلے بھی گھٹ جائیں گے مگر ان توقعات پر اس وقت اوس پڑھنے لگی جب حکمران طبقات نے انہیں اپنے کنٹرول میں کر کے ان کے ذریعے دیہاتی، قبائلی اور جاگیردارانہ روایات ،اقداراور خاندان کے پرانے تصور کو تقویت پہنچانا شروع کردیاجس سے دیہاتوں میں تبدیلی کا عمل سست پڑ گیابلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور نے تو پورے ملک کو دیہات بنا دیا تھا اور اب ہم اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
بہرحال‘دیہاتوں میں کچھ تبدیلیاں بھی آئی ہیں لیکن چونکہ وہاں ابھی نجی چینلوں کی رسائی نہیں ہے تو سرکاری چینل کے ذریعے ان کی دیہاتی ذہنیت کو تقویت پہنچائی جارہی ہے البتہ اخبارات میں بعض کالم نویس اپنے ملک اور اس کے ماحول، معاش اور دیگر شعبہ جات کا ترقی یافتہ ہمسایہ ممالک سے موازنہ کر کے اپنے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم ترقی کی دوڑ میں کہاں کھڑے ہیں کتنے پیچھے ہیں اور پسماندہ ہیں اور ہمارے حکمران جو کل تھے آج بھی وہی ہیں جن کا تمام کام منافقت اور ریاکاری پر چل رہا ہے اگر دیہاتوں میں بھی یہی چینل ہوتے تو شاید حالات مختلف ہوتے چونکہ اس وقت دیہاتوں میں لوگوں کی رسائی ان وسائل تک نہیں ہے لہٰذا ان میں تبدیلی کا عمل بھی نہایت سست رفتار ہے اس کے علاوہ ہمارے ملک کے کلیدی عہدوں پر فائز افراد کا تعلق دیہات کے جاگیردار طبقات سے ہے ان کے ہاتھوں میں تعلیم کا شعبہ بھی ہے اور وہ کسی تبدیلی کے قائل نہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا میں انقلابات اور تبدیلیاں آتی رہیں لیکن ہمارا درسی نصاب اول سے ایم اے تک قریب قریب وہی دیہاتی اور قبائلی ذہنیت کی عکاسی کررہا ہے۔
درسی کتب پر سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ارباب اختیار کی نگاہوں سے بعض پہلو اوجھل رہے یا وہ اپنی مصلحتوں کے پیش نظر اور اپنے طبقاتی مفادات کو سامنے رکھ کر اسے ترتیب دیتے آرہے ہیں جیسا کہ ہمارے دیہاتوں میں عورت اور مرد کے لئے الگ الگ کام ہے مردوں کے کام عورت اور عورتوں کے مرد نہیں کرتے یہ ترتیب اور انتظام جاگیردارانہ ضرورت اور مردوں کی برتری اور بالا دستی کو قائم رکھنے کے لئے بنایا گیا ہے دیہاتوں میں مرد اور عورت کے کام نہ صرف یہ کہ مختلف ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر میدان میں ان کے درمیان ایک واضح تفاوت پایا جاتا ہے تاکہ عورت کی حیثیت ہمیشہ ایک دست نگر اور کمتر ہی رہے۔
ہمارے دیہات میں قبائلی نظام کو قائم ودائم رکھنے کے لئے عورت کے ساتھ ظلم وستم کو جائز سمجھا جاتا ہے چونکہ اس نظام کی بنیادیں ہی خوف اور دہشت پر استوارہیں اور عورت پر مظالم یا اس کے حقوق دبانے کے لئے جہاں مذہب سے مدد مل سکتی ہے تو اس سے مدد لی جاتی ہے اور جہاں روایات سے کام لیا جاسکتا ہے وہاں اس کا سہارا لیا جاتا ہے یہی وجہ ہے اگرچہ مذہب مرد اور عورت دونوں پر تعلیم کے حصول کو لازمی قرار دیتا ہے لیکن ہمارا پسماندہ معاشرہ یہاں غیرت کا مسئلہ کھڑا کر کے اپنا مقصد پورا کرنا چاہتا ہے یعنی عورت کے تعلیم حاصل کرنے کو بے غیرتی تصور کیا جاتا ہے ۔
دیہات میں عورت لمبے لمبے بال رکھتی ہے زیور پہنتی ہے اگر بیوی ہے تو اس کا کام گھر کے برتن دھونا اسے صاف ستھرے رکھنے کے علاوہ کھانا پکانا اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا چھوٹے بڑے بھائیوں کی ناز برداریاں اٹھانا خدمت کرناجائز وناجائز بات سہنا اور خاموشی سے ہر ظلم برداشت کرنے کو اس کے اخلاق کا حصہ بنا دیا گیا ہے جبکہ حقوق کو پس پشت ڈالا گیا ہے یہی پرچار ہماری درسی کتب میں موجود ہے حتیٰ کہ ان کتب میں موجودہ حقیقتوں سے بھی چشم پوشی کی جاتی ہے تاکہ پرانے تصورات کو تقویت ملتی رہے ان میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ عورت نہ صرف یہ کہ مرد سے کم تر اور صنف نازک ہے بلکہ اس کا اپنا حق مانگنا بھی خلاف مذہب و تہذیب ہے ۔
جبکہ حالات کچھ اور ہی تصویر دکھاتے ہیں یہ کہ عورت تعلیم کے میدان میں مردوں کے قریب آچکی ہے اور اگر ان کو مزید مواقع فراہم کئے جائیں تو معاشرے کی ترقی کا عمل مزید تیز ہوسکتا ہے اور ایک صحت مند معاشرے کا قیام ممکن ہوسکتا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی پالیسی بنانے والے لوگوں کا تعلق ان طبقات سے ہے جو معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی کے خواہاں نہیںیہی وجہ ہے کہ وہ ان ہی دلائل اور حوالوں کا سہارا لے رہے ہیں جو آج تک استعمال کئے جارہے ہیں جیساکہ درسی کتب میں بھی یہ چیز موجود ہے کہ مرد جسمانی طور پر عورت سے طاقتور ہے چنانچہ عورتوں کے کام کاج میں ایسے کاموں کو شامل کیا گیا ہے جن سے ثابت ہو کہ وہ صنف نازک ہے مثلاً کھانا پکانا، گھر کی صفائی،سلائی کڑھائی، کپڑے دھونا، ریسپشن کی ڈیوٹی اور گھر اور بچوں کی دیکھ بھال حالانکہ معاشرے سے یہ تقسیم ختم ہوتی جارہی ہے۔
عورت زندگی کے ہر شعبہ میں دکھائی دیتی ہے کیونکہ موجودہ معاشرہ اس کی ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر ہے یہی وجہ ہے کہ اگر امیر خاندانوں میں بیویاں، بیٹیاں بینکوں اور دیگر محکموں میں کام کررہی ہیں تو محنت کش اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی عورتیں کسی کارخانے، کھیت یا اسی قسم کے دیگر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
درسی کتب میں مرد اور عورت کی جو تفریق دکھائی جاتی ہے وہ ہمارے قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرے سے یادگار ہے جس میں عورت کے لئے صرف دو ہی کام تھے یا یہ کہ وہ ان دو کاموں میں سے اپنے لئے ایک کا انتخاب کرے یہ کہ وہ کسی مرد کی دست نگر رہے اس کی ہر جائز وناجائز برداشت کر کے خاموش رہے اپنے حقوق کی بات نہ کرے اور یا پھر بازار میں بیٹھ جائے کیونکہ ایسے معاشرے میں ایک بے سہارا اور ان پڑھ عورت کے لئے یہی دو راستے ہیں جبکہ جدید معاشرے نے اس کو نہ صرف تعلیم کا حق دیا ہے بلکہ اسے ان مجبوریوں اور جبر سے نکلنے کی راہ بھی دکھا رہا ہے جو اس پر روا رکھا جاتا تھا۔
تعلیم کا مقصد معاشرے کی ناہمواریوں، امتیازات اور حقوق کی پامالی کے خلاف جدوجہد، ملک اور معاشرے کی اصلاح ہونا چاہئے مگر درسی کتب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے نفرت اور نابرابری کو تقویت پہنچائی جارہی ہے ایسی صورت میں اگر ہماری تعلیمی درسگاہوں سے تنگ نظر اور عقل دشمن نوجوان نکل رہے ہیں تو تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔
♠