احمد بشیر
یوم مئی ہم ہر سال مناتے ہیں اور نہیں بھی مناتے ہیں کیونکہ حکومت پاکستان اس سے چڑجاتی ہے اور دینی حلقے غضب میں آجاتے ہیں۔ یوم مئی کا مطلب ہے عالمی مزدوروں کی وحدت جس سے دنیا بھر کے سرمایہ داروں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے کوئی انقلابی تنظیم بنائی تو ہماری لوٹ مار ختم۔
حکومت کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ عالمی سرمایہ داری کی گماشتہ ہے۔ مگر دینی حلقے کیوں بدحواس ہوتے ہیں وہ تو خود منگتے ہیں۔ کوئی تخلیقی محنت نہیں کرتے مرغیاں بھی نہیں پالتے مگر مرغے کھاتے ہیں اور ریاستی اقتدار میں حصہّ مانگتے ہیں۔ مزدور تحریک ان کو بھی مزدور ہی سمجھتی ہے اور اگر کبھی ان کا اختیار ہوا تو وہ ان کے روٹی و روزگار کا بندوبست بھی کریگی۔ مگر ان کو غصہ اس بات کا ہے کہ مزدور وسائل پیداوار کی اجتماعی ملکیت کے علمبردار ہیں اور چاہتے ہیں کہ جاگیریں کارخانے، کانیں ، دریا، جنگل اور اسی قسم کے قومی وسائل نجی ملکیت میں نہ ہوں۔
ملوانے(مولوی) دراصل نجی ملکیت کے زبردست حامی ہیں کیونکہ ان کو کھابا یہیں سے ملتا ہے اور وہ اس کی مخالفت کو رضائے الہیٰ میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ وہ کبھی تو یوم مئی کی کسی دلیل کے بغیر ہی مخالفت کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ اسلامی ملک ہے اس میں کافرانہ رسوم کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کبھی کہتے ہیں یہ روسی اشتراکی سازش ہے کبھی کچھ، کبھی کچھ۔ انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ شکاگو جہاں سے یہ سلسلہ منسوب ہے امریکہ ہی میں واقع ہے۔ اور اس کو عالمی سطح پر منانے کا فیصلہ پیرس میں ہواتھا اور یہ دونوں ممالک سرمایہ داری کے گڑھ ہیں۔ ان کا اشتراکیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
مگر مولوی کو تو ڈنڈا چلانا آتاہے۔ عقل کی اسے ضرورت کب ہوئی۔ ضیاالحق کے زمانے میں انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یوم مئی تو ایک کافرانہ روایت ہے ہم مسلمانوں کو محنت کی عظمت کااقرار کرنے کے لئے یوم خندق منانا چاہیے کیونکہ اس روز حضور نے جنگ کے لئے جو خندق کھدوائی تھی اس میں خود بھی کدال چلائی تھی۔ بے شک یہ روایت ہمارے لئے سعادت کی بات ہے مگر یوم مئی صرف محنت کی عظمت کی توثیق کے لئے مشہور نہیں۔ اس کے اسباب کچھ اور ہیں۔ اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بعض مزدور راہنماؤں کو بھی پورے حالات معلوم نہیں ہیں۔وہ روتے ہیں کہ دیکھو جی آج سے سو سال پہلے شکاگو کے مزدوروں کو مار ڈالا گیا حالانکہ وہ ہنستے تھے اور آٹھ گھنٹے مزدوری کے نعرے لگاتے تھے یا شرائط ملازمت میں کچھ انصاف کے طلب گار تھے۔
یہ بات صحیح ہے مگر مکمل نہیں ۔ پھر جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ شکاگو تو بہت دور کی بات ہے ۔ خود ہمارے ملک میں کیا نہیں ہوا۔ ابھی کل ہی ملتان کی کالونی ٹیکسٹائل میں ہی مزدوروں کو دھوکے سے ایک چاردیواری میں جمع کرکے ان پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ اور چالیس سے اوپر وہیں ڈھیر ہوئے۔جنہوں نے بھاگنے کی کوشش کی انھیں بھاگنے نہ دیا گیا اور ان کی پٹھوں پر بھی گولیاں ماری گئیں۔ یہ ضیاالحق کا زمانہ تھا انکوائری ہوئی مگر ایک تھانیدار کو کچھ عرصے کے لیے معطل کیا گیا۔ پھر اس کی تبدیلی کر کے اسے بحال کر دیاگیا۔(ملوں میں جو اکا دکا واقعات ہوتے ہیں ان کا ذکر کرنا فضول ہے)۔
سب جانتے ہیں کہ مل والوں نے اپنے غنڈے رکھے ہوئے ہیں۔ جو ان مزدورں کو قتل کر دیتے ہیں جو ٹریڈ یونین میں سرگرمی دکھائیں۔ مگر حکومت مل مالکوں کے ان ہتھکنڈوں کو جانتی ہے مگر کیا کبھی کسی نے ان پر ہاتھ ڈالا ۔ جب اپنے ملک میں حالات یہ ہوں بلکہ اس سے بھی بدتر ہوں تو سوسال پہلے شکاگو میں مرے ہوئے چند مزدوروں کوکیوں روئیے۔بات دل کو لگتی نہیں۔ مزدوروں کا براحال ہے تو کسانوں کا کون سا اچھا حال ہے۔ پڑھے لکھے بیروز گار کیوں خودکشیاں کر رہے ہیں۔ عورتوں کے سینے چھلنی ہیں جو بچوں کو دو وقت روٹی نہیں دے سکتیں۔ نوجوان در بدر ہیں ان کا مستقبل کیا ہے۔ان سب کو کیوں روئیے۔ مزدوروں کی خاص بات کون سی ہے۔ یہ سوال جواب طلب ہے۔
پاکستان میں بھوکے ننگوں کی فوج میں کردار کے حساب سے سب انقلابی نہیں ہیں۔ اکثر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہمارا مسئلہ حل ہو جائے باغی کو چاہے کہ بھڑئیے کھاجائیں۔ صرف مزدور طبقہ ایسا ہے جو اپنی فطرت میں انقلابی ہے۔ اور ان میں بھی وہ مزدور شامل نہیں ہیں جو دہاڑی دار ہیں یا ریڑھی ، پھیری والے ہیں یا گھروں میں کام کرتے ہیں۔ یا سڑکوں پر نان کباب بیچتے ہیں کیونکہ ان میں اجتماعی تنظیم اور اجتماعی ڈسپلن کی نفسیات پیدا نہیں ہوتی۔
وہ مزدور جو مل کر ایک جیسا کام کرتے ہیں مثلاً ملوں میں کپڑا بنتے ہیں۔ بھٹیوں میں لوہا کوٹتے ہیں اور کارخانوں میں مشینوں پر ڈسپلن اور وقت کی پابندی کے ساتھ کام کرتے ہیں ان میں ذات گم ہو جاتی ہے اور وہ اجتماعیت یا اشتراکیت کا جذبہ پیدا کر لیتے ہیں۔ اپنے حالات کا ر سے تنگ ہوتے ہیں۔ ان کی اجرتیں کم ہوتی ہیں۔ ان کی اجتماعی محنت کا پھل منافع کی شکل میں مل مالک یا کارخانہ دار جو سال کی پیداوار میں کوئی تخلیقی کام نہیں کرتا صرف بینکوں سے قرضے لیتاہے، حساب کتاب میں گڑبڑ کرتاہے، ٹیکس چوری کرتاہے اور چیک لکھتا ہے گھر لے جاتاہے اور عیش و عشرت کی زندگی گذارتا ہے۔ یہ بات صرف وہ مزدور ہی سمجھ سکتاہے جو اجتماعی محنت کرتا ہے اور مشینوں کے ساتھ کام کرتاہے۔ وہ فطرتاً انقلابی ہوتاہے اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لئے وہ ہرقربانی پر تیار ہوتاہے۔ اور جماعتی ڈسپلن کا فطری طور پر پابند کرتی ہے اس لئے دنیا بھر کی انقلابی تحریکیں اسی کے دم سے چلتی ہیں۔
اب یہ دنیا یک محوری ہوگئی ہے۔ امریکی امپیریلزم دنیا پر چھاگیا ہے۔ ریاستی ڈھانچے مضبوط ہوگئے ہیں۔ اور عراق اور کویت کی جنگ نے ثابت کیا کہ جہاں بھی امریکی مفاد ات خطرے میں ہونگے امریکی فوجیں اس میں کود پڑیں گی۔ اس لئے جس طرح کے انقلاب روس ، چین کوریا، ویت نام اور کیوبا میں آئے۔ اب ان کا آنا مشکل ہے ۔ دنیا میں اگر کسی جگہ مسلح جدوجہد جاری ہے تو وہ پھیلنے نہیں دی جائے گی۔
بہار کے ماؤسٹ گوریلیمقامی جاگیرداروں سے انتقام لے رہے ہیں۔ مگر وہ انقلاب نہیں لا سکیں گے۔ اس کے لئے انقلابیوں کو اپنا طریق کار بدلنے اور حالات کے مطابق بدلنا پڑیگا اور اس میں دیر لگے گی۔ کیونکہ ابھی تو دنیا بھر کے انقلابی روسی اور چینی کمیونسٹ پارٹیوں کی ناکامی کی وجہ سے بوکھلائے ہوئے ہیں۔ کچھ بھی ہو انقلابیوں کو اپنا شعور بہتر کرنا پڑیگا۔ تاکہ جب موقع آئے تو وہ سوتے ہوئے نہ پائے جائیں۔ یوم مئی ایک روایت ہے جو ہمیں یاد دلاتی رہے گی کہ دنیا بھر کے مزدور ایک ہیں۔ اور ریاست کے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے اس کے بغیر عدل اجتماعی کی کوئی صورت نہیں۔
مگر پھر یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مزدور ایک نہیں رہے۔ یورپ اور امریکہ نے اپنے مزدوروں کی اجرتیں بڑھا دی ہیں اور بے کاروں کے وظائف شروع کر دئیے ہیں۔پچاس سال پہلے انگلینڈ کے کوئلے کے کان کنوں کی ہڑتالوں کا بڑا شور سنتے تھے۔ اب وہ خاموش ہیں۔ جرمنی سے بھی کوئی آواز نہیں آتی۔ اب حالات میں ہمیں بہتری کے لیے دنیا کے مزدوروں کو آپس میں اتحاد کرنا پڑے گا۔ مگر وہاں معیشت فی الحال نہیں ہے۔ یاپس ماندہ ہے ۔ اس لئے یہ صدی شاید انتظار میں ہی نکل جائے۔ مگر ہو سکتاہے کہ سرمایہ دارکے اپنے ہی داخلی تضادات ابھر آئیں اور امریکہ یورپ جاپان اپنے اپنے گھوڑے دوڑانے لگیں۔
میں عربوں کو انقلابی نہیں کہتا کیونکہ انہیں تیل کی وجہ سے حرام کا مال کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔ مگر عربوں میں بھی بھوک کے جزیرے ہیں۔ اگر اسرائیلی انہیں موقع دیں تو شاید حالات کو تبدیل کرنے کی سوچیں۔ اس صورت میں ان کو مغربی طاقتوں کو اپنے داخلی تضادات حل کرنے کے لئے تیسر ی دنیا کی ضروری پڑسکتی ہے۔ مگر ہندوستان اور امریکہ کا اشتراک عالمی انقلاب کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتاہے۔
مگر یوم مئی کی بات تو بیچ میں رہ جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہوا اور آپ سب کو معلوم ہوگا کہ شکاگو کے مزدوروں نے شکاگو کے سکوئر میں جلوس نکالا اور آٹھ گھنٹے کی دہاڑی اور بہتر شرائط ملازمت کے مطالبے پیش کئے۔ اسی اثنا میں کسی مزدور نے بم چلا دیا جس پر چار مزدور پکڑے گئے۔ اور مقدمہ چلنے کے بعد انہیں موت کی سزا دی گئی۔
یہ تو سرکاری پریس نوٹ ہے۔ اصل بات اور ہے۔ اور اس کا پتہ یوں چلا کہ ایک جج نے جس کانام میں بھول گیا ہوں، موت سے پہلے اپنی یادداشتیں لکھیں جن میں اس نے بتایاکہ شکاگو کے مزدوروں کے خلاف مقدمہ جھوٹا تھا۔ کسی نے بم نہیں چلایاتھا۔ گواہ سب جھوٹے تھے۔ اصل میں مزدور شکاگو کے کارخانے داروں کو بہت تنگ کرنے لگے تھے۔ اسی لئے کارخانہ داروں ججوں اور پولیس والوں نے سوچاکہ ان کوسبق سکھایاجائے۔چنانچہ جلسے کے دن ایک سرکاری آدمی نے بم چلایا۔ اور ہم نے مزدوروں کے چار سرکردہ راہنما اس الزام میں پکڑ لئے۔ جج پہلے ہی ہمارے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ پولیس نے جھوٹے گواہ پیش کئے تو ہم نے فیصلے کے مطابق چاروں کو موت کی سزا دے دی تاکہ ان کی تحریک ختم ہوجائے۔
تو یوم مئی کا اصل حاصل یہ ہے کہ مزدوروں کے خلاف حکومت کے تمام ادارے، عدلیہ ، پولیس، اور کارخانہ دار متحد ہو کر قتل و خون پر آمادہ رہے ہیں۔ ہمارے مزدور راہنماؤں کو محض آنسو بہانے کی بجائے اصل بات بتانی چاہیے۔ ورنہ یوم مئی کاکوئی فائدہ نہیں اور اس کا ثبوت ہماری اپنی تاریخ میں بھی بارہا مل چکا ہے کہ حکومت کارخانہ دار عدلیہ اور پولیس ایک طرف اور خالی ہاتھ لگی ملکی دولت پیداکرنے والے بھوکے ننگے مزدور دوسری طرف۔ یوم مئی ہمیں یہی سکھاتاہے۔
پہلی دفعہ ماہنامہ ،نیا زمانہ ، مئی 2000 (پرنٹ ایڈیشن) میں شائع ہوا۔