تاریخ میں بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ہزاروں سالوں تک آنے والی نسلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔انسان ماضی میں جا کر اپنی تاریخ بدل نہیں سکتا۔مگر وہ اپنی تاریخ سے سبق ضرور سیکھ سکتا ہے۔تاریخی تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے درست راستوں کا انتخاب کر سکتا ہے۔اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کا مقدر سنوار سکتا ہے۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ کو اپنی خواہشات کے بجائے حقائق اور غیر جانبداری سے دیکھے۔
دنیا کا کوئی مذہب، کوئی قوم یا کسی علاقے کے عوام اپنی تاریخ کی ہر بات پر فخر نہیں کر سکتے۔تاریخ کے بہت سارے واقعات و کردار قابل شرمندگی بھی ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں تاریخ کو توڑ موڑ کر اپنی خواہشات کے مطابق پیش کرنے کی روایت بہت مضبوط ہے۔اردو زبان میں لکھی گئی تاریخ کی بیشتر کتب اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ نصاب میں شامل تاریخی کتب پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔
پاکستان میں آزادی کے بعد تاریخ کے حوالے سے جو سوال پیدا ہوئے وہ یہ تھے کہ ہماری تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے ؟ ہماری تاریخ کتنی پرانی ہے ؟ ہماری جڑیں کس علاقے اور خطے میں ہیں ؟ ان سوالوں کا جواب دیانت دارانہ تحقیق کے بجائے سرکاری نظریات اور سیاسی ضروریات کے مطابق دیا گیا۔ چنانچہ یہاں تاریخ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے بجائے سات سو بارہ سے شروع ہوتی ہے اور اس کے تمام بڑے واقعات و کردار ہمارے سیاسی نظریات اور مذہبی عقائد کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔
چنانچہ جو جارح ہے وہ ہمارا ہیرو ہے، اور جو ہیرو ہے وہ ولن۔محمد بن قاسم ایک عرب جرنیل تھا۔انہیں خلیفہ ولید بن عبدلمالک اور حجاج بن یوسف نے فوجی کمانڈر نامزد کیا اور سندھ پر فوج کشی کے لیے بھیجا۔انہوں نے اپنے آقاوں کے حکم کی کامیاب تعمیل کی۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس وقت کے عرب خلیفہ اسے ایک ہیرو یا فاتح کا درجہ دیتے۔لیکن خلیفہ نے ان کے لیے عبرت ناک اور ذلت آمیز موت کا حکم دیا۔اس کے بر عکس انہوں نے جن لوگوں پر فوج کشی کی ان لوگوں نے انہیں اپنا ہیرو قرار دیا۔اور ظاہر ہے ایسا کرنے کے لیے تاریخی واقعات کو اپنی خواہشات اور ضروریات کے مطابق بیان کیا گیا۔
واقعات میں جذباتی شدت اور تقدس پیدا کرنے کے لیے اس پوری فوجی مہم کو سندھ کی ایک مظلوم بیٹی کی پکار پر لبیک کا نام دے دیا گیا۔اس طرح تاریخ پڑھنے والوں کو ان تمام واقعات سے دور رکھا گیا جن کا اسی فوجی مہم سے گہرا تعلق تھا۔
مثال کے طور پر اس مہم کی تاریخ بتاتے وقت یہ بتانا ضروری تھا کہ اس فوج کشی کے وقت عرب باقاعدہ ایمپائر کی شکل اختیار کر چکے تھے۔اور دوسرے ملکوں پر فوج کشی اس ایمپائر کاایک بڑا ذریعہ آمدن اور اہم پالیسی تھی۔خلیج فارس سے لے کر یورپ تک برپا ہونے والی فوجی مہمات اسی پالیسی کا تسلسل تھیں۔اس مہم کی تاریخ بتاتے وقت یہ بتانا بھی ضروری تھا کہ یہ عربوں کی طرف سے سندھ پر کوئی پہلی فوج کشی نہیں تھی۔اس سے پہلے سندھ پر دو دفعہ قبضے کے لیے فوج کشی کی جا چکی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بتانا بھی ضروری تھا کہ اس فوج کشی کی ایک وجہ ایک کشتی تھی۔ اس کشتی پرکچھ عرب تاجرسوار تھے جس کو سندھ کے بحری قزاقوں نے لوٹ لیا۔
اس کشتی سے وہ قیمتی تحفے طائف بھی لوٹ لیے گئے جو سیلون کے بادشاہ نے عرب خلیفہ اور گورنر کے لیے ارسال کیے تھے۔چنانچہ خلیفہ نے راجہ داہر کو حکم دیا کہ وہ قزاقوں سے مال مسروقہ یعنی بادشاہ کا قیمتی سامان برآمد کروائیں۔اور ظاہر ہے بحری قزاق راجہ داہر کے حکم کے پابند نہیں تھے اور یہ تنازعہ فوج کشی پر منتج ہوا۔اور اگر کسی مورخ نے یہ واقعہ بتانے کی زحمت بھی کی تو وہ اس طرح کے اس کشتی میں عرب عورتیں اور بچے تھے جن کو یر غمال بنا لیا گیا تھا اور ان کی رہائی کے لیے یہ ساری فوجی مہم تیار ہوئی تاکہ اس میں انسانی ہمدردی کا رنگ نمایاں ہو۔اور خلیفہ کے قیمتی طائف کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ اس سے بات خلیفہ کے ذاتی اور معاشی مفادات کی طرف نہ مڑ جائے جس سے عظیم روحانی اور مقدس مہم پر حرف آئے۔
یہ تاریخ نویس بچوں کو یہ بھی نہیں بتاتے کہ خلیفہ سلیمان نے محمد بن قاسم کو چمڑے کی کھال میں سی کر دمشق لانے کا حکم دیا تھا۔راستے میں گھٹن اور گرمی سے ان کی موت واقعہ ہوئی۔نہ ہی وہ یہ متبادل کہانی بتاتے ہیں کہ انہیں دمشق میں قید کے دوران تشدد سے ہلاک کر دیا گیا۔محمد بن قاسم کے اس درد ناک انجام کی ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی لڑکی کو بطور تحفہ خلیفہ کے لیے بھیجاتھا۔خلیفہ کو جب پتہ چلا کہ لڑکی محمد بن قاسم کی وجہ سے کنواری نہیں رہی تو اس نے امانت میں خیانت کی یہ بھیانک سزا تجویز کی۔
دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ خلیفہ سلیمان اور محمد بن قاسم کے چچا حجاج بن یوسف کے درمیان اختلافات کی وجہ سے خلیفہ نے محمد بن قاسم کو سندھ سے واپس بلا کر اسے درناک موت سے دوچار کیا۔سندھ میں جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا باب اسلام سمیت اس کی کئی یاد گاریں اور کئی عقیدت مندہیں مگر عرب دنیا میں ان کا کوئی نام، کوئی نشان نہیں۔
اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ عربوں کو اپنی تاریخ کے بڑے جرنیلوں سے کوئی دلچسبی نہیں۔ان کی تاریخ کے ایک اور بڑے جنرل طارق بن زیاد کا انجام محمد بن قاسم سے بھی زیادہ افسوسناک تھا۔وہ آخری عمر میں بغداد کی گلیوں میں بھیک مانگتے ہوئے مرا۔اس کے بجائے ہمیں ان کی تاریخ سے اتنی دلچسبی ہے کہ ہم اسے اپنی تاریخ بنا کر پیش کرتے ہیں۔اور اپنی تاریخ کو اپنے بچوں سے چھپاتے ہیں۔
♠
One Comment