نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی ، نہ کسی کوفکررفوکی ہے

گردوپیش : آصف جیلانی

0,uit
یہ بات کوئی چاہے کتنی ہی چھپانے کی کوشش کرے ، لیکن کسی سے نہیں چھپ سکتی کہ اس وقت پاکستان کے عوام اپنی زندگی کے نہایت سنگین بحران سے دوچار ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی ،غربت، صحت، تعلیم ،جرائم اور قانون کی عمل داری کے مسائل تک بے شمار مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ عالمی بنک کے مطابق اس وقت پاکستان میں بے روزگاری کی شرح ساڑھے نو فی صد ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ جو لوگ بر سر روزگار ہیں ان میں دس میں سے چھ افراد کو ہر لمحہ بے روزگار ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔17 فیصد عوام ،غربت کے خط کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، 60فی صد عوام کی آمدنی ایک ڈالر فی کس یومیہ سے بھی کم ہے ۔

غربت کا مسئلہ اس بناء پر اور زیادہ سنگین ہے کہ ملک میں جو زمینداری نظام میں جکڑا ہوا ہے 51فی صد کسان زمینداروں کے مقروض ہیں اور زمینداروں کے استحصال کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔

پھر انرجی کا بحران کچھ کم سنگین نہیں جس کی وجہ سے عوام گھروں میں بجلی اور گیس سے محروم ہیں اور صنعتیں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک کی بجلی کی کل ضروریات 20,000 میگاواٹ یومیہ سے زیادہ ہے جب کہ ملک میں صرف 1150 میگا واٹ یومیہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔

عوام کی بقا اور زندگی کے لئے یہ سنگین مسائل ہیں جن کا حل اشد ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے اس وقت ملک کے سیاسی رہنماؤں نے ان مسائل کی طرف سے آنکھیں بند کر کے پوری قوم کو پاناما لیکس کے بحران میں الجھا دیا ہے۔ بلا شبہ ملک کی معیشت اور معاشرہ کے لئے کرپشن کا خاتمہ لازمی ہے اور کوئی اس کی اہمیت کو در گذر نہیں کر سکتا لیکن اس وقت تمام نتائج اور مضمرات سے آنکھیں بند کر کے محض ایک بڑے پیمانہ پر سیاسی ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے ۔آج جو لوگ کرپشن اور احتساب کا شور مچا رہے ہیں وہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست اور تاریخ سے یکسر نابلد ہیں۔ 

آج سے 26 سال قبل اگست 1990میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف کرپشن کا زبردست ہنگامہ اٹھا تھا اور صدر غلام اسحاق نے کھڑے کھڑے وزیر اعظم بے نظیر کوبرطرف کردیا تھا جسے بے نظیر کو اور نہ ان کی پارٹی کو للکارنے کے ہمت ہوئی۔ پھر اس کے تین سال بعد دوبارہ بر سرا قتدار آنے کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف کرپشن کا غلغلہ اٹھا تھا ۔

جس کے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو کو وزارت اعظمی سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے شوہر آصف علی زرداری ، فرانسیسی آگوستا آب دوزوں کی خریداری کے اسکنڈل کے الزام میں گرفتا ر کر لئے گئے تھے۔ کیا نتیجہ نکلا اس کرپشن پر ہنگامہ کا؟ کیا ملک میں کرپشن کے خاتمہ کی کوئی راہ نکلی ۔ کیا ملک میں احتساب کا کوئی موثر نظام قایم ہو سکا۔ ؟جواب نہیں میں ہے۔

اس سے ایک سال قبل 1992میں پنجاب میں کواپریٹوز سوسایئٹیوں کا اسکنڈل سامنے آیا جس میں میاں نواز شریف کی اتفاق فاونڈری ملوث تھی۔ کیا کسی کو اس سیکنڈل کے ذمہ داروں کو سزا ملی۔ اس کے بجائے نواز شریف کی تقدیر میں وزارت اعظمی کے ادوار لکھ دیئے گئے۔

سنہ1999فوجی طالع آزما پرویز مشرف نے مغرب کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ملک سے کرپشن کے خاتمہ کا بیڑہ اٹھایا تھا اور نیب یعنی قومی احتساب بیورو کے نام سے ادارہ قائم کر کے بغلیں بجائیں تھیں۔ پوری قوم نے دیکھ لیا کہ یہ ادارہ محض اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے اور فوجی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ۔بعد میں یہ ادارہ صرف مجرموں کو اپنے جرم کا اعتراف کرنے کی سہولت دینے اور لوٹی ہوئی رقم میں سے اونے پونے کچھ رقم ادا کرکے پاکبازوں میں اپنا نام شامل کرنے کے عمل تک محدود رہ گیا۔ اب نیب محض ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں کرپشن پر کڑی نگاہ رکھنے اور کرپشن کے مجرموں کو سزا دینے کے لئے مضبوط اور موثر ادارے قائم ہیں۔ دو رکیوں جائیں ۔ سرحد پار ہندوستان میں سی بی آئی کے نام سے تفتیشی ادارہ ہے ۔ یہ ادارہ انگریزوں کے دور میں 1941میں اسپیشل پولیس اسٹبلشمنٹ کے نام سے قائم ہوا تھا۔ 1963میں اسے سی بی آئی کا نام دیا گیا۔ 1987میں اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک انٹی کرپشن ڈویژن اور دوسرا اسپیشل کرائم ڈویژن۔ یہ ادارہ حکومت کے تحت ہے اور اس کو سیاسی اثرات سے بالا تر رکھنے کے لئے اس کے سربراہ کا تقرر، وزیر اعظم ، حزب مخالف کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مل کر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو اختیار ہے کہ وہ اہم مقدمات کی تفتیش کے لئے معاملات سی بی آئی کے سپرد کردیں۔ 

پاکستان میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی آتش بازیاں چھوڑنے کے بجائے ضروری ہے کہ کرپشن پر کڑی نگاہ رکھنے اور غیر جانبدار تفتیش کے راستہ مجرموں کو عبرت ناک سزا دینے کے لئے سیاست سے بالا تر ہو کر ایک مضبوط اور موثر احتسابی ادارہ قائم کیا جائے جو کسی استثنیٰ کے بغیر سیاست دانوں، تاجروں، صنعت کاروں، صحافیوں او ر میڈیا اداروں ، سرکاری افسروں ، فوج کے جرنیلوں غرض جس کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات لگائے جائیں ان کی بھرپور تفتیش کر سکے۔ اسی میں ملک اور عوام کا بھلا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور کرپشن کے موجودہ سیاسی ڈرامہ کے بعد معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہوگا۔ 

Comments are closed.