دوستین بلوچ، ایڈیٹر ماہنامہ سنگر
بلو چستان آگ و خون کا ایک ہو لناک منظر پیش کر رہا ہے ، پاکستانی سیکورٹی اداروں کی کارروائیوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی اور وسعت آ رہی ہے ،جس کے دائرے سے بلوچ سماج کا کو ئی بھی حصہ با ہر نہیں ہے ، ما سوا ئے ان کے جو بلو چستان میں حکمرا نوں کے فکرو عمل کی پیر وی کر رہے ہیں ،اس ضمن میں بلوچ سیاسی و عوا می حلقوں کا کہنا ہے کہ جمہو ریت کے دعویدار نواز حکو مت ہاتھی کے دانت کھا نے کے اور دکھا نے کے اور کے مصداق اپنے ان وعدوں اور اعلا نات پر عمل پیرا ہوتے ہو ئے کہیں دکھا ئی نہیں دیتے جن میں بلو چستان کے مسئلے کو طا قت کی بجا ئے پر امن سیاسی ذرائع سے حل کر نے کا عزم ظا ہر کیا گیا تھا۔
اور بنیا دی مسئلہ تو اپنی جگہ نواز حکو مت ان وعدوں کی تکمیل سے بھی دور بھا گتی ہو ئی نظر آ تی ہے جن میں تمام لا پتہ بلو چوں کی بحفا ظت باز یا بی اور ان کی مسخ شدہ لا شوں کو پھینکنے کا سلسلہ بند کر تے ہو ئے ان کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کے نکات بھی شا مل تھے ،لیکن اقتدار کے حصول کے بعد مسلم لیگ ن کی حکمران قیادت بلوچ قوم کے سیاسی و اقتصادی اور جمہو ری حقوق کو تسلیم اور بحال کر نے کی بجا ئے انہیں مزید محدود اور سلب کر نے وا لے کے طور پر سا منے آ ئی ہے ۔
مبصرین کے مطا بق جنرل مشرف کے آمرا نہ دور سے لے کر پیپلز پارٹی کے سابقہ اور مسلم لیگ ن کے مو جو دہ ’’جمہو ری ‘‘دور تک جاری ریاستی طا قت کے استعمال کے گراف کا اگر جا ئزہ لیا جا ئے تو یہ وا ضح نظر آ تا ہے کہ آ مرا نہ دور میں شروع ہو نے وا لے بلو چستان آپریشن کی شدت پی پی اور مسلم لیگ ن کی ’’جمہو ری ‘‘حکو متوں کے دوران زیا دہ بڑ ھی ہے، اور مو جو دہ ’’جمہو ری ‘‘دور حکو مت تو سب سے بد ترین قرار دیا جا رہا ہے ، اس حوالے سے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کی آمریت نے تو محض ابتداء کی تھی جبکہ ن لیگ کی جمہوری حکومت اسے جلد از جلد تباہ کن انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، جس کی عکاسی بلوچستان کے طول وعرض میں جاری فورسز کی پے در پے کارروائیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ان کارروائیوں کے جواز ،طریقہ کار اور دعوؤں کی شفافیت پر کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں ، جن میں قلات اور مستونگ کے مضافاتی علاقوں جوہان اور اسپلنجی سمیت مختلف مقامات پر گذشتہ ماہ کئے جانے والے آپریشنز قابل ذکر ہیں ،کئی روز مسلسل جاری رہنے والی ان کارروائیوں میں فورسز کے ہاتھوں درجنوں افراد کے شہید وزخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں ، اور تاحال قلات گرد ونواح میں فوجی آپریشن جاری ہے،اسی طرح آواران،مشکے ،جھاؤ بھی مسلسل محاصرے میں ہیں اس حوالے سے سیکورٹی اداروں نے 34،افراد کے مارے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دیا ہے،
مگر مقامی ذرائع و سیاسی وسماجی حلقے اور بلوچ میڈیا میں آنے والے نام اعداد و شماران حکومتی دعوؤں کو مسترد کر رہے ہیں ،اس سلسلے میں انسانی حقوق کی تنظیم نے بھی ریاستی طاقت کے وسیع تر استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ انسانی حقوق کی رپورٹ میں مقامی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ مارے جانے والوں کی اکثریت کا تعلق عام مقامی آبادی سے ہے ،جبکہ ان میں بعض ایسے افراد کی لاشیں بھی ہیں، جو کئی روز پرانی اور مسخ شدہ بیان کی جاتی ہیں ، ان لاشوں کے بارے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ناقابل شناخت یہ پرانی مسخ شدہ لاشیں لا پتہ بلوچوں کی ہو سکتی ہیں، جنہیں یہاں لا کر پھینک دیا گیا ہے،اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد کو حراست میں لے کر لاپتہ کرنے کے بھی اطلاعات ہیں۔
بعض لوگوں کے مطابق آپریشن کے دوران عام بلوچ آبادیوں کو بھاری نقصان بھی پہنچایا گیا، جس کے نتیجے میں شدید عوامی غم وغصہ اور اشتعال بھی دیکھنے میں آیا ، لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کے دوران فورسز بلوچ مزاحمت کاروں کو نمایاں یا کوئی قابل ذکر نقصان پہنچانے میں ناکام رہی ہیں اور نشانہ عام آبادی بنی ہے، اسی نوعیت کی اطلاعات مشکے ،آواران سمیت مکران ،جھالاوان ،چاغی، کوئٹہ ،بولان ،کوہستان مری،ڈیرہ بگٹی ،نصیر آباد ،لسبیلہ اور دیگر علاقوں میں کئے جانے والے سرچ آپریشنز کے بارے میں بھی سامنے آئی ہیں،جہاں کہا جاتا ہے کہ متعددبلوچ سیاسی کارکنوں وعام لوگوں کو شہید وزخمی اور لاپتہ کیا گیا ہے۔
لیکن کنٹرولڈ میڈیا نے زمینی حقائق ومتاثرہ لوگوں کی آواز کو سامنے لانے کی بجائے یک طرفہ حکومتی موقف کو پیش کیا، اور اسے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا گیا،پنجگور سے منسلک پروم میں ایک ہی خاندان کے سات افراد جس میں خواتین شامل ہیں،فورسز نے اپنی ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے سب کو پھندا ڈال کر شہید کیا،مگرافسوس کہ ریاستی جمہوری آزاد میڈیا میں اک خبر کی تکلف بھی نہیں کی گئی۔ریاستی جارحیت کا اندازہ ادارہ سنگر کے پاس موجود دستیاب اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپریل کے مہینے میں 67 آپریشن کیے گئے اور72 افراد کو شہید کرنے کے ساتھ 101 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ قلات آپریشن جاری ہونے کی وجہ سے وہاں سے لاپتہ کیے جانے والے افراد کی تعداد و تفصیلات آنا با قی ہیں۔مبصرین کے خیال میں خاص قوتوں کو گمان ہے کہ ریاستی طاقت کے لا محدود استعمال کے ذریعے وہ بلوچ تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچلنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جو ماضی کے تجربات اور تاریخ کے اسباق کی روشنی میں ممکن نظر نہیں آتا، خاص طور پر موجودہ علاقائی وعالمی سیاست و معیشت میں بڑھتے ہوئے تضادات اور بحرانوں کا منظر نامہ اس کی نفی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، انکے مطابق پاکستانی حکمران جس قدر بلوچ مسئلے کو داخلی کی بجائے اُسے اپنی حریف علاقائی و عالمی طاقتوں کی خارجی مداخلت قرار دینے کا شور مچا رہے ہیں ۔اتنی ہی تیزی سے بلوچستان کا مسئلہ خطے کے تغیروتبدل میں فیصلہ کن اہمیت اختیار کرتے ہوئے ،متعلقہ ومتاثرہ حریفوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے ،
جبکہ دوسری طرف بے رحمانہ ریاستی طاقت کے استعمال کے نتیجے میں بلوچستان میں جو نئے قبرستان آباد ہو رہے ہیں ،بقول آزادی پسند بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کے آج بلوچستان کو قصاب خانہ بنایا گیا ہے۔ اور بلوچوں کی جبری گمشدگیوں سے لے کر ان کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی اور انسانی حقوق کی مختلف بد ترین پامالیوں تک جو انسانی المیے جنم لے رہے ہیں ان کی تپش اور اثرات بلوچ قوم کی کئی نسلوں تک موجود رہیں گے ،جو یادوں کی صورت میں ہر آنے والی نسل میں زخموں کو تازہ کریں گے اور یہ زخم تحریک کی نت نئی اشکال کو جنم دینے کا موجب بنیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوگا بلکہ بلوچ قوم کی سیاسی تاریخ اسے بار بار درست ثابت کر چکی ہے، ان حلقوں کا کہنا ہے کہ چار بار پہلے بھی پاکستانی حکمران بلوچ قومی جدوجہد پر فتح حاصل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور یہی دعوے آج بھی سامنے آرہے ہیں ،لیکن ہر بار انہیں نئے اعلان کی تیاری کرنی پڑی۔
لہٰذا موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ محض طاقت کے زور پر حکمرانوں کو عارضی اور سطحی کامیابی تو مل سکتی ہے، مگر دیر پا امن واستحکام اور تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچل دینے کے مقاصد پورے ہونا ممکن نہیں ہے اسی لئے ضروری ہے کہ بلوچ مسئلے کو سیاسی طور پر اس کی تاریخی حقائق اور بلوچ عوام کی امنگوں وخواہشات کے مطابق حل کیا جائے ،بصورت دیگر بلوچستان میں حکمران فوجی و عسکری فتح تو ممکن ہے کہ حاصل کر لیں لیکن بلوچ قوم کے دل ودماغ کو فتح نہیں کیا جا سکے گا۔
♠