پاکستان جس کی چالیس فیصد سے زائد آبادی غربت کی سطح یا اس سے نیچے زندگی گذار رہی ہے کے تمام وسائل دفاعی اخراجات کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ پاکستان کی اپنے قیام سے ہی ترجیحات عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ہر قیمت پر ہتھیاروں کی خریداری میں ہے۔
حکومت پاکستان نے ایک بار پھر غریب عوام کے وسائل آتشیں ہتھیاروں پر ضائع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نئے ماڈل کے ایف سولہ طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا جس کی امریکہ نے منظوری تو دے دی مگرامریکا نے پاکستان سے کہا ہے کہ اگر وہ ایف سولہ طیارے لینا چاہتا ہے تو اسے خود ہی پورے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔
امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی کے مطابق کانگریس میں حزب اختلاف کا مؤقف ہے کہ امریکی حکومت کے غیر ملکی افواج کو مالی تعاون فراہم کرنے کے مقصد کے لیے مختص کی جانے والی رقم ایف سولہ طیاروں کی خریداری میں استعمال نہیں کی جا سکتی، ’’ کانگریس کی جانب سے اس اعتراض کے بعد ہم نے پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے کو اس مقصد کے لیے انہیں اپنی قومی فنڈ استعمال کرنا ہو گا ‘‘۔
کربی کے بقول دفتر خارجہ امریکی حکومتی فنڈز کے مشروط استعمال کی مخالفت کرتا ہے اور واشنگٹن کو یقین ہے کہ پاکستان کے ساتھ مؤثر روابط اور خاص طور پر انسداد دہشت گردی کی جنگ میں تعاون انتہائی اہم ہے۔ کربی کے مطابق یہ تعاون اس ملک میں جمہوریت کے فروغ اور معاشی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔
امریکی حکومت نے فروری میں پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیاروں کے ساتھ ساتھ ریڈار اور دیگر عسکری سامان کی فراہمی کی منظوری دی تھی، جس کی مالیت 699 ملین ڈالر بنتی ہے۔ تاہم ریپبلکن سینیٹر باب کورکر نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ سینیٹ میں بین الاقوامی تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس معاہدے پر عمل درآمد کو رکوانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پاکستان کو عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنا ہو گا۔
ڈیموکریٹ اور ریپبلکن پارٹی کے متعدد ارکان کا خیال ہے کہ اسلام آباد حکومت کو ان عسکریت پسندوں کی حمایت ترک کرنی چاہیے، جو افغان اور امریکی دستوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان، افغانستان میں کابل حکومت اور طالبان کے مابین تصفیہ کرانے میں بھی ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے خارجہ امور کے خصوصی مشیر طارق فاطمی نے شکایت کی تھی کہ واشنگٹن کی جانب سےان پاکستان کی کوششوں کی بہت کم ہی سراہا گیا ہے، جو اس نے امریکا کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی ہیں۔ تاہم فاطمی نے اپنے اس بیان میں ایف سولہ طیاروں کا ذکر نہیں کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کا مسئلہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں زیر بحث آناچاہیےکیونکہ معاملہ پاکستان کے وسائل کا ہے اور اس کے وسائل پر اس ملک کے عوام کا حق ہے نہ کہ ایک گروہ کا جو مسلسل دفاع کے نام پر عوام کے وسائل پر ہاتھ صاف کررہاہے۔
پاکستان کی فوج پچھلے پندرہ سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے مگر غیر ملکی امداد اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجودوہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکی ۔ اس صورتحال میں عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کے وسائل کہاں خرچ ہو رہے ہیں۔دوسری طرف بلوچستان کے عوام کا کہنا ہے کہ پاک فوج جدید ترین ہتھیار دہشت گردوںکی بجائے بلوچستان کے عوام کے خلاف استعمال ہورہے ہیں اور امریکی سینٹ اور اقوام متحدہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
DW/News Desk
One Comment