کیا اردو بالکل کنگال ہو گئی ہے؟

آصف جیلانی

12472726_10153808161599843_3444250666060290147_n

اٹھاون سال پہلے جب ایوب خان نے فوج کی طاقت کے بل پر اقتدار پر قبضہ کیا تھا توسیاست دانوں کومنتخب اداروں کے ایوانوں سے خارج کرنے اور ہمیشہ کے لئے انکو نا اہل قرار دے کر ان پر دروازے بند کرنے کے لئے ایک حکم 
Elected Bodies Disqualifcation Order
جاری کیا تھا اس کا مخفف ایبڈو، اردومیں ایسا درآیاکہ اس کے پیچھے انگریزی ناموں اوراصطلاحات کی ایسی لائین ڈوری لگ گئی کہ ملک کے اہم اداروں کے نام انگریزی میں رکھ کر ان کے مخفف اردو پر چھا گئے ۔ جیسے نیپرا ،پیمرا،او سی جی سی، ایی سی پی ا ور پھر این آراو، جے آئی ٹی،ٹی اوآرز، وغیرہ ۔

لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ہماری زبان اتنی کنگال اور تہی دامن ہوگئی ہے کہ ہم ان انگریزی ناموں کا ترجمہ نہیں کر سکتے یا یہ ہمیں انتخابی کمیشن پاکستان، قومی مفاہمتی آرڈیننس ، مشترکہ انٹیلی جنس ٹیم، شرائط کار یا حدود تحقیقات کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سولر کے لئے شمسی استعمال کرنا باعث ندامت ہے ۔ شمسی بچوں کی جگہ نہ جانے کیوں سولر چلڈرن کی رٹ لگائی جارہی ہے۔اسی طرح جیسے حزب مخالف کے لئے اپوزیشن اور احتجاج کی جگہ ایجی ٹیشن عام ہوگیا ہے۔ عدالتی کمیشن ایسا لگتا ہے کہ زبان پر نہیں چڑھتا البتہ جوڈیشل کمیشن ہمارے لئے بہت آسان ہے۔

اردو پر آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انگریزی کے ڈرون حملے ہورہے ہیں اور میدان ملک کے ٹیلی وژن چینلز ہیں۔ اپنی زبان کے سلسلہ میں ان کی چنگاڑتی ہوئی احساس کم تری ان کے پروگراموں کے
ناموں سے عیاں ہے۔ آف دی ریکارڈ، ایلونتھ آور،آن دی فرنٹ، رپورٹ کارڈ،اور نیوز آئی غیرہ۔اردو میں کوئی اچھا نام پروگرام کا نہیں ملتا جو ملک کے تمام عوام کے لئے قابل فہم ہو اور ہماری تہذیب اور ہماری شناخت کا اظہار ہو۔ 

اردو ادب کے فروغ کی داعی کراچی آرٹس کاونسل نے پچھلے دنوں ایک جریدہ کی اشاعت کا آغاز کیا ہے۔ نام اس کا ارژنگ رکھا گیا ہے۔ اس کے نقش اول کی تقریب بڑے دھوم دھا م سے ہوئی ۔ ہمارے ایک دوست نے جواس تقریب میں شریک تھے بتایا کہ اس تقریب میں آدھے سے زیادہ دانشور اس نام پر حیرت زدہ تھے کیونکہ وہ اس کے معنی سے نابلد تھے اور ان کو اس کا بھی علم نہیں تھا کہ آیا یہ اردو کا لفظ ہے بھی یا نہیں ہے۔

تقریب میں اعلان کیا گیا کہ یہ نام ممتاز شاعر، ادیب اور دانشور سحر انصاری نے تجویز کیا ہے ۔ ہمارے دوست نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ سب نے اسے تسلیم کر لیااور اپنی لاعلمی کو چھپانے کے لئے اس کے معنی جاننے کے لئے کوئی سوال نہیں کیا۔ اس تقریب کے اختتام پر جب ہمارے دوست نے تقریب کے چند شرکاء کو بتایا کہ ارژنگ اردو کا لفظ نہیں تو ان سب نے حیرت کا اظہارکیا۔

ہمارے دوست نے بالکل صحیح کہا کہ ارژنگ اردو کا لفظ نہیں اور نہ اردو زبان سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارژنگ کا تعلق دراصل ایک مصور مانی سے ہے جو 216-تا274عیسوی میں ساسانی دور میں گذرا تھا ۔ مانی کو اس اعتبار سے پیغمبر مانا جاتا ہے کہ اس نے زرتشت مذہب کے خلاف بغاوت کر کے اپنا نیا فرقہ قائم کیا تھا جس کا اعتقاد تھا کہ عرفان سے نجات ملتی ہے نہ کہ ایمان سے۔

زرتشت مذہب سے بغاوت کی وجہ سے اسے شاہپور بادشاہ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا اور اسے وسط ایشیا سے فرار ہوکر چین کی راہ اختیار کرنی پڑی ، جہاں اس نے بڑی تعداد میں اپنے چیلے جمع کر لئے اور اپنے فن مصوری کو جلا بخشی۔ اس دوران مانی نے ایک غار میں اپنی عبادت گاہ قایم کی۔ کچھ عرصہ بعد مانی نے اپنے چیلوں سے کہا کہ وہ جنت جا رہا ہے اور ایک سال بعد وہاں سے واپس آئے گا۔ ایک سال بعد اس کے چیلے جب غار میں آئے تو مانی نے انہیں اپنی مصوری کی ایک کتاب دکھائی جس کو اس نے ارژنگ کا نام دیااور بتایا کہ یہ وہ جنت سے اپنے ساتھ لایا ہے۔

چینی زبان میں ارژنگ کے معنی ، مانی کے نگار خانہ کے ہیں۔ حضرت عیسی کے دور کی زبان آرامی میں ارژنگ کے معنی ، قابل قدر کے ہیں اور اب یہ مانی کے عقیدہ کی الہامی کتاب مانی جاتی ہے۔یہ اہم بات ہے کہ فردوسی کے شاہنامہ میں ارژنگ ، اس شیطان کا نام ہے جو کیکاوس کو مزندران لے جاتا ہے جسے رستم زیر کرتا ہے۔

نہ جانے کراچی آرٹس کاونسل نے مانی اور ارژنگ سے کیا ربط ورشتہ دریافت کیا کہ اپنے ادبی اور ثقافتی جریدہ کا نام ارژنگ رکھا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ آج کل پاکستان میں والدین اپنے بچوں خاص کر بچیوں کے عجیب و غریب اور سب سے جدا نام رکھتے ہیں جن کے معنی وہ خود نہیں جانتے۔ انگریزی کے ڈرون حملوں کے ساتھ غیروں کی زبان کی بیساکھی کے سہارے کا یہ عجیب و غریب رجحان اس بناء پر سخت پریشان کن ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری زبان یکسرکنگال ہو گئی ہے۔

4 Comments