ظفر آغا
ہم مسلمان اور ہمارے ادارے ! ایک تو مدرسوں کے علاوہ ہمارے پاس ہیں کتنے سے ادارے اور جو ہیں بھی ان کا حال بس اﷲ ہی جانے ۔
سرسید احمد خان کا احسان ہے کہ وہ جدید تعلیم کے لئے ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا گئے ۔ سچ پوچھئے تو سہی معنوں میں مسلم ملت کا ایک وہی واحد جدید ادارہ ہے جس کو آج کی اصطلاح میں ادارہ کہا جاسکتا ہے اور اس پر بھی ہروقت سیاہ بادل منڈلاتے رہتے ہیں ۔ کبھی اس کا اقلیتی کردار خطرے میں تو کبھی خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی خطرے میں ۔
لب لباب یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کوئی اچھی خبر تو سنائی نہیں پڑتی ہے اور اگر کوئی خبر آتی ہے تو بری ہی ہوتی ہے۔ ابھی چند دن قبل جو خبر سرسید کی یونیورسٹی کے تناظر میں اخباروں میں چھائی رہی وہ بھی بری ہی خبر تھی ۔ آپ تو واقف ہی ہوں گے کہ پچھلے ہفتے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلباء کے دو گروہوں میں زبردست تصادم ہوا ، گولیاں چلیں اور نوبت یہاں تک پہونچی کہ یونیورسٹی کے دو طلبہ گولی لگنے سے جان گنوا بیٹھے ۔
بس کیا تھا سارے میڈیا میں شور مچ گیا اور پوری اُمت مسلمہ کے ماتھے پر کلنک لگ گیا ۔ وہ اس لئے کہ آپ کے پاس ہے ہی کیا اور لے دے کر جو ایک یونیورسٹی ہے اس میں بھی کلاس کے بجائے گولی بارود ہورہا ہے ۔ظاہر ہے کہ سب تھو تھو کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ان مسلمانوں کو گولی اور بم کے سوا ہے کیا ! دہشت گردی کا الزام پہلے ہی تھا اب یونیورسٹی میں گولیاں چل رہی ہیں تو بس ہر کسی کو انگلی اُٹھانے کا موقع مل گیا ۔
بھائی بات کیا ہے! آخر ہم سے ایک یونیورسٹی بھی نہیں سنبھل سکتی ہے ! سچ تو یہ ہے کہ ہم سے سنبھلتا کیا ہے ؟ ہمارے وقف بورڈوں پر نگاہ ڈالیں تو بس اﷲ کی پناہ ۔ درگاہوں کے جو حال ہیں ان میں وقف ملت کے چندے سے جو اسکول کالج کھلے تھے وہ سب کے سب ڈوب چکے ہیں۔ کوئی ذی حیثیت مسلمان ان اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ کروانا پسند نہیں کرتا ہے ۔کہیں کہیں کسی مسلمان گروہ نے بینک کھولے تو وہ بھی بدعنوانی میں ڈوبے پڑے ہیں۔
ہمارے قائدین ملت ، ایک سے بڑھ کر ایک ، الغرض ہم مسلمانوں کے پاس ہیں کتنے سے ادارے اور جو ہیں بھی وہ بس اﷲ بھروسے ہیں۔ آخر یہ کیا بات ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی قوم بھی ترقی کررہی ہے اور اپنے اداروں کو بہتر سے بہتر کررہی ہے ۔ ہمارے یہاں ہر ادارے میں لڑائی جھگڑا حد یہ ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گولیاں چل رہی ہیں۔ یہ کیوں ، کیا وجہ ہے اس کی ؟
بات یہ ہے کہ آج کہ دور میں کامیاب ادارے چلانے کیلئے جدید زندگی سے ہم آہنگی لازمی ہے ۔ کیونکہ وہ یونیورسٹی ہو یا بینک یا اسپتال ، یہ سب ادارے جدید طرز کے ادارے ہیں اور جدید طرز کے ادارے چلانے کیلئے ایک خاص مزاج اور ایک خاص تربیت کی ضرورت ہے ۔ مثلاً آج کسی ادارے کو چلانے کیلئے ایک مخصوص ڈسپلن کی ضرورت ہے ۔ ہماری قوم کے چند افراد منظم تو ہوسکتے ہیں ، لیکن مجموعی طورپر ملت مسلمہ میں آج کے زمانے میں تنظیم کا فقدان ہے ۔
ستم تو یہ ہے کہ آپ کے رسولؐ نے پابندی وقت سے جو نماز کا تصور رکھا تھا وہ سماجی سطح پر ڈسپلن پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن ہم اکثر نماز تو پڑھ لیں گیں لیکن اپنی مجموعی زندگی میں ڈسپلن نہیں پیدا کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے جو ادارے ہیں ان کو چلانے والے ہم مسلمان ہی تو ہیں ۔ جب ہمارے اندر مجموعی طورپر ڈسپلن ہی نہیں ہوگی تو پھر ہمارے اداروں کا کیا حال ہوگا ۔ اس کا تصور آپ خود کرسکتے ہیں۔
میری ملاقات چند سال قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ہوئی ۔ وہ اس وقت کچھ عرصہ قبل ہی علی گڑھ گئے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا ، جناب یونیورسٹی کیسی چل رہی ہے ؟ وہ چھوٹتے ہی بولے اساتذہ کام ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے دریافت کیا ، کیا مطلب ؟ انھوں نے بتایا کہ دس بجے دن تک یونیورسٹی آتے ہیں اور لنچ ٹائم پر سب واپس گھر چلے جاتے ہیں ۔ پھر کوئی کلاس نہ کوئی پڑھائی ! اب بتائیے ، ایسے اساتذہ کیسے طالب علم پیدا کریں گے ۔ وہاں سے نکلنے والے بچوں میں کہاں سے ڈسپلن آئےگا؟ کون نوکری دے گا؟ ہم اقلیتی کردار کا رونا تو روتے ہیں اور سہی روتے ہیں ! لیکن یہ ہمت نہیں کرتے ہیں کہ اقلیتی کردار کے معنی یہ نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لنچ کے بعد کوئی پڑھائی ہی نہیں ہو ۔
ہم مسلمانوں کو دوپہر کے بعد آرام کی عادت کیوں ہے ۔ بات یہ ہے کہ یہ سب زمیندرانہ نظام کی عادتیں ہیں ۔ دن میں آرام کیجئے اور دیر رات تک گپیں لڑائے ۔ یہ رسم ہے جو زمیندارانہ نظام کی میراث ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ ہم مسلمانوں میں یہی عادات و اطوار آج تک ہمارے معاشرے میں قائم ہیں۔
دہلی کی زندگی انتہائی تیز رفتار شہر کے تگ ودو کی زندگی ہے ۔ یہاں کیا امیر اور کیا غریب دس گیارہ بجے رات تک سب سوجاتے ہیں کیونکہ ان کو دوسرے روز کام کرنا ہوتا ہے لیکن اسی دہلی شہر میں آپ ذرا مسلم بستی یعنی جامع مسجد کے علاقے میں رات بارہ بجے چلے جائیے ۔ ارے صاحب ! میلے کا سماع ہوتا ہے ۔ قورمے اور بریانی کی خوشبو سے فضا معطر ، چائے خانوں میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ، فٹ پاتھ پر رات بارہ بجے بھی بازار گرم ، لگتا ہے گویا دن کے بارہ بجے ہیں۔ اب رات دو بجے سونے والا دوسرے روز دن میں کتنی اچھی طرح کام کرے گا ، آپ خود سوچ سکتے ہیں۔
کوئی تعجب نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دن میں لنچ کے بعد استاد کلاس لینے کو تیار نہیں ۔ ارے وہ کلاس لے تو لے کیسے ۔ جب استاد پڑھائیں گے نہیں تو لڑکے پڑھیں لکھیں گے کیا ؟ اور جب پڑھے لکھیں گے نہیں تو پھر کچھ اور کریں گے اور اس کچھ اور کریں گے میں کبھی علی گڑھ کے شمشاد مارکیٹ کے چائے خانے کی رات گئے تک بیٹھک بازی ہوسکتی ہے اور کبھی وہی بیٹھک بازی آپسی لڑائی اور پھر وہ لڑائی گولی بارود میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔
اس لئے پچھلے ہفتے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو ہوا وہ کوئی بڑی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ پوری مسلم قوم جدید زندگی کے تقاضوں سے بے بہرہ زمیندارانہ طرز زندگی آج بھی بسر کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو دور گزشتہ سے دور حاضر میں کون لائے اور کیسے لائے یہ سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل ہے ۔
ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک مسلمان مجموعی طورپر زمیندارانہ قدروں کو ترک کر جدید طرز اور قدروں ( مثلاً ڈسپلن) کو تسلیم نہیں کرتا ہے تب تک نہ تو مسلم ادارے ہی چلیں گے اور نہ ہی مسلم قوم چلے گی ۔ ہم کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردا رکا رونا روئیں گے اور کبھی کسی اور کاگلہ شکوہ کریں گے ، پھر کہیں گولی چلے گی اور پھر قوم کے ماتھے پر کلنک لگے گا ۔ لیکن قوم آرام کرنے میں کھوئی رہے گی ۔
اﷲ رے ہم مسلمان اور ہمارے ادارے !۔
Daily Siasat, Hyderabad, India