چند ہفتے پہلے بنگلہ دیش میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے بارے میں پہلےرسالہ ‘روپ بان‘نامی جریدے کے ایڈیٹر ذولحاج منان کو چھرے مار کر بے دردی سے قتل کر دیا ۔یہ بتاتےہوئے ، ذولحاج منان کے بڑے بھائی منہاج منان ایمن کی آواز لڑکھڑا رہی تھی ۔
’پانچ لوگ گھر میں داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں ایک پارسل تھا۔ یہ قاتلانہ منصوبہ بہت سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا تھا۔ذولحاج منان ’روپ بان‘ نامي جريدے کے ادارتی بورڈ ميں شامل تھے جو بنگلہ ديش ميں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے بارے ميں پہلا رسالہ ہے۔
وہ کھلے عام ہم جنس پرست تھے لیکن ان کے خاندان والے ان کے جنسی رجحان کے متعلق بات کرنے سے ہچکچاتے تھے۔منہاج منان کا کہنا تھا کہ ’اس کے مرتے دم تک ہم نے اسے صحیح طرح نہیں جانا۔ ہم نے اسے غلط سمجھا۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’ہم نے اس کے نقطۂ نظر کی قدر نہیں کی‘۔
ہم جنس پرستوں کے میگزین’ روپ بان‘ سے منسلک افراد اپنی شناخت کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن انھیں نہیں لگتا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔اب بنگلہ دیش میں روز بروز انتہاپسندوں کا حوصلہ بڑھ رہا ہے کہ وہ کسی کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ ملک میں آزاد خیال بلاگروں، پروفیسروں، غیر ملکیوں اور مذہبی اقلیتوں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔
میں نے ملک کے سب سے مشہور بلاگر عمران سرکار کا پتہ لگایا جنھوں نے اپنی رہائش کو خفیہ رکھا ہے۔ میری شناخت کو کئی بار جانچنے کے بعد کہیں جا کر مجھے فلیٹ میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔
سرکار نے مسکراتے ہوئے میرا استقبال کیا اور کہا: ’میں یہاں صرف چند دنوں کے لیے ہوں۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’میں اپنی رہائش گاہ اکثر بدلتا رہتا ہوں۔‘انھیں تقریباً ہر روز فیس بک پیج، ٹوئٹر اکاؤنٹ، موبائل ٹیکسٹ پیغامات کے ذریعے یا پھر فون پر موت کی دھمکیوں کے پیغامات موصول ہوتے ہیں۔
انھوں نے مجھے اپنے فون پر وصول کیے گئے ٹیکسٹ میسج دکھائے: ’چند دن پہلے مجھے ایک برطانوی نمبر سے کال آئی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ ’موت کی تیاری کر لو۔ ہم تمھیں ذبح کریں گے۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تم مجھ سے اختلاف کرو گے تو میں تمھیں مار ڈالوں گا۔
میں نے سرکار سے پوچھا کہ کیا انھیں ڈر لگ رہا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ نہیں ہے۔ ’مجھے اپنے ملک کے لیے ڈر لگتا ہے۔ ذاتی سلامتی کا ڈر نہیں، ملک کی سلامتی کے لیے ڈرتا ہوں۔ ‘
بنگلہ دیش میں حالیہ ہلاکتوں کی ذمہ داری مقامی عسکریت پسند گروہوں نے قبول کی ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ القاعدہ اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے منسلک ہیں۔لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقامی سخت گیر اسلام پسند تنظیموں کی کارروائی ہے اور ان کے مقاصد سیاسی ہیں۔
بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن حق انو کا کہنا تھا: ’ہمارے علم میں بنگلہ دیش کی حدود کے اندر دولت اسلامیہ نے عسکریت پسندوں کی بھرتی نہیں کی اور نہ ہی وہ یہاں سرگرم ہیں۔‘جبکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت حقیقت سے آنکھیں چرا رہی ہے۔
ریٹائر فوجی افسر اور سکیورٹی تجزیہ کار بریگیڈیئر سخاوت حسین کا کہنا ہے: ’یہاں القاعدہ اور دولت اسلامیہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’چھوٹی سی جگہ میں 90 فیصد مسلمان مرکوز ہیں۔ ان میں سے بہت تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ تو یہ نظریات انھیں
اپنی طرف کھینچتے ہیں۔انھوں نے کہا: ’اگر ایسی تنظیموں نے یہاں اپنے پاؤں جما لیے تو یہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں‘۔
اسی ہفتے سنگاپور نے آٹھ بنگلہ دیشیوں کو دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں ملک بدر کیا ہے۔ سنگاپور کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ اپریل میں گرفتار کیے جانے والے یہ آٹھ افراد خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے تھے۔
بنگلہ دیش میں اسلامی عسکریت پسندوں کے حملوں کا شکار ہو نے والوں کی فہرست بڑھتی جا رہی ہے۔ملک میں شیعہ، صوفی، احمدی اور مسیحی اور ہندو اقلیتوں پر بھی حملے ہوئے ہیں جن میں سے بہت کو خنجروں سے ہلاک کیا گیا ہے۔یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ ان ہلاکتوں کے ذمہ دار کون ہیں کیونکہ بنگلہ دیش میں لا تعداد انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں جن میں سے بہت ہی کم ملزموں کو سزا ملی ہے۔
بنگلہ دیش میں ان ہلاکتوں کے حوالے سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور القاعدہ کے دعووں کو متنازع سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس حکومت حزب اختلاف یا پھر مقامی اسلام پسند تنظیموں کو ہی ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔لیکن جب تک ہلاکتیں ختم نہیں ہوتی اس وقت تک اس سنی اکثریتی ملک کی حکومت پر اقلیتوں کو تحفظ نہ دینے کاالزام لگتا رہے گا۔
BBC