پانامہ لیکس کی دوسری قسط، ڈھائی سو پاکستانیوں کے نام شامل

image3375
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس کی جانب سے پاناما پیپرز کی دوسری قسط جاری کر دی ہے جس میں مزید دو لاکھ آف شور کمپنیوں میں امرا کی دولت کی تفصیلات موجود ہیں۔ ان دستاویزات میں تقریباً ڈھائی سو سے پاکستانی سیاستدانوں، تاجروں اور دیگر افراد کے نام بھی شامل ہیں۔ 

آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر شائع کیے جانے والے ڈیٹا میں پاکستانی آف شور کمپنیوں اور ان کے مالکان کے نام دیئے گئے ہیں۔تازہ فہرست میں جن افراد کے نام شامل ہیں ان میں ، میر شکیل الرحمن، چئیرمین جنگ اینڈ جیو گروپ، عبدالستار ڈیرو، پورٹ قاسم اتھارٹی کے سابقہ جنرل منیجر، شوکت احمد، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر، صبا عبید، ممتاز فلم میکر شرمین عبید چنائے کی والدہ،عرفان پوری، سلمان احمد، حسین داؤد اور ان کے بیٹے عبدالصمد داؤد اور شہزادہ داؤد، گل محمد طبا ،مایا اسماعیل ولد عنایت اسماعیل مرحوم اور سٹاک بروکر جہانگیر صدیقی کے بیٹے کے نام شامل ہیں۔

آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات وکی لیکس کی طرح ایک جگہ نہیں ڈالی گئیں بلکہ اس میں دو لاکھ آف شور کمپنیوں میں ان امرا کے نام شامل ہیں جنھوں نے اپنی دولت ان کمپنیوں میں رکھی ہوئی ہے۔

پاناما لیکس کے پیچھے شخص نے حال ہی میں اپنی شناخت ’جان ڈو‘ کے نام سے کرائی ہے۔ انھوں نے ایک سال قبل جرمنی کے ایک اخبار کو 2.6 ٹیرا بائٹس کا ڈیٹا فراہم کیا تھا۔یہ ڈیٹا موساک فونسیکا لا فرم کا ہے جو آف شور کمپنیاں تخلیق کرنے اور چلانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس ڈیٹا میں چار دہائیوں کی معلومات موجود ہیں۔

پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد سے اب تک جن بڑی بڑی شخصیات کے مالی معاملات پر لے دے ہو رہی ہے ان میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن، روس کے صدر ولادیمر پوتن، یوکرین کے پیٹرو پورشنکو اور فٹبال کے مشہور کھلاڑیوں کے علاوہ فلم کی دنیا کی کچھ مشہور شخصیات کے نام شامل ہیں۔

آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتیں لیکن ان کا مقصد اکثر سرمایہ کے حصول کے ذرائع اور اس کے مالکان کو خفیہ رکھنا اور ٹیکسوں سے بچنا ہوتا ہے۔جان ڈو نامی شخص کی طرف سے ایک جرمن اخبار کو ایک سال قبل ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات یا 2.6 ٹیرابائٹس پر مشتمل معلومات کا ذخیرہ فراہم کیا گیا تھا۔اس اخبار نے آئی سی آئی جے کو معلومات کے اس ذخیرے تک رسائی دی۔ آئی سی آئی جے میں شامل دنیا بھر کے اخبار نویسوں نے معلومات کے اس ذخیرے کا مطالعہ کر کے اس میں عوامی اہمیت کی معلومات نکالیں اور پھر گذشتہ ماہ ان کو اشاعت کے لیے جاری کیا گیا۔

آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ ’ اس ڈیٹا یا معلومات میں بینک کے کھاتوں، مالی لین دین، ای میلز اور دیگر خط و کتابت، پاسپورٹ اور ٹیلی فون نمبروں کی تفصیلات شامل نہیں ہوں گی۔ منتخب شدہ اور محدود معلومات، جو مفادِ عامہ میں ہیں، صرف وہ ہی جاری کی جا ر ہی ہیں‘۔

یاد رہے کہ دنیا کے تین سو ماہرین معاشیات نے پیر کو دنیا بھر کے سیاسی قائدین کو لکھے گئے ایک مکتوب پر دستخط کیے ہیں جن میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹیکس چوروں کی جنت کو ختم کیا جائے۔ انھوں نے کہا ہے اس سے صرف انتہائی امیر افراد اور کثیر الملکی کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے اور ان سے معاشی ناہمواری میں اضافہ ہوا ہے۔اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ چوری کی سرمایہ کاری سے دنیا کی مجموعی دولت اور خوشحالی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور ان سے کوئی معاشی مقصد حاصل نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا تھا کہ بینک اور مالیاتی نگراں ادارے اور ٹیکس حکام اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا اس طرح کے فیصلے کیے جاتے رہے ہیں جس میں امیر تو صاف بچ جاتے ہیں لیکن متوسط اور کم آمدن کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Comments are closed.