مشتاق احمد
مشرق میں پیدا ہونے والے عظیم مفکروں اور دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ ہم ان کی زندگی میں ان کی عظمت کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی بڑائی کا اعتراف کرتے ہیں لیکن جب وہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ہم ان کو عظیم مان لیتے ہیں۔ لیکن عظیم بھی تب مانتے ہیں جب ہم ان کی شخصیت کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور ایسا بت بنا لیتے ہیں جو عین بہ عین ہماری مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ اقبالؒ جب تک زندہ رہے ہم نے ہر موقع پر اس کی تنقیص کی، عیب نکالے کفر کے فتوے بھی لگائے ،اس کی بات نہیں مانی اس کے اشعار پڑھ کر واہ واہ ضرور کی لیکن جو کچھ کہا ، اس پر عمل کرنایا اپنی سوچ کا حصہ بنانا تو بہت دور کی بات ہے ہم نے اسے ٹھیک طور پر سمجھا بھی نہیں ۔
اقبالؒ نے 1930ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ آلہ آباد میں جو صدارتی خطبہ پڑھا تھا اور جس میں انہوں نے ہندوستان کے اس وقت کے سب سے اہم اور الجھے ہوئے مسئلے کا حل پیش کیا تھا ٹھیک دس 10سال بعد ہم نے اُسے اپنا نصب العین بنایا جب اقبال اس دنیا میں نہیں تھے۔ الہٖ آباد میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس قائداعظم کی مسلم لیگ کانہیں تھا بلکہ یہ شفیع مسلم لیگ تھی کیونکہ تھوڑا عرصہ پہلے محمد علی جناح ہندوستان کی سیاست اور مسلمان زعماء کی عقلی وفکری کوتاہیوں سے بدظن ہو کر ہندوستان چھوڑ کر انگلستان چلے گئے تھے اور اپنی باقی زندگی وہیں گزارنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
علامہ اقبال 21اپریل1938کو اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے اگرچہ قائداعظم تین چار سال بعد انگلستان سے واپس آگئے تھے اور مسلم لیگ پھر جناح لیگ بن گئی تھی اور محمد علی جناح مسلم لیگ کے واحد اور متفقہ قائد بن گئے لیکن علامہ اقبالؒ کو مسلم لیگ میں کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں تھی۔ وہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر ضرور تھے لیکن1936ء میں مسلم لیگ میں ہندوستان کے تمام بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر دار بلکہ نواب بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب ان کا سرپرست اعلیٰ انگریز سامراج ہندوستان کو چھوڑ کر جانے ہی والا ہے اور متحدہ ہندوستان میں انگریز کے چلے جانے کے بعد ان کے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے۔ مسلم لیگ چونکہ تقسیم ملک کی بات کرتی تھی۔ اس لیے ان کو مسلم لیگ کا یہ موقف بہت ہی مفید نظر آیا۔ اور وہ سب مسلم لیگ میں شامل ہو کر حصول پاکستان کی جدوجہد میں لگ گئے۔
لطف تو یہ ہے کہ وہ جاگیردار اور نواب جن کو پتہ تھا کہ ان کے اپنے علاقے مجوزہ پاکستان میں نہیں ہیں وہ بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے نہ صرف شامل ہوئے بلکہ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کا حصہ بن گئے۔ اس طرح ہندوستان کے تمام صوبوں کے نواب جاگیر دار وڈیرے خان اور سردار مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور ان طاقتورحریفوں کے مقابلے میں اقبالؒ بے حیثیت ہو کر رہ گئے۔ اس وقت کے مسلم لیگی لیڈروں نے اقبال کے ساتھ جو سلوک کیا وہ عاشق حسین بٹالوی کی کتاب’’ اقبال کے آخری دوسال میں‘‘ درج ہے۔
اقبال کو پڑھنے والا ہر شخص اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ اقبالؒ مسلمانوں کو ایک بار پھر دُنیا میں سر بلند دیکھنا چاہتے تھے وہ انہیں ترقی کرتے ہوئے اور دُنیا کی دوسری قوموں سے بازی لے جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے کہ مسلمان ایک بار پھر دنیا میں معزز اور محترم بنیں اور دُنیا کی قیادت کریں انھیں شاید یقین سا تھا کہ مستقبل قریب میں اقوام عالم کی امامت مسلم قوم کرے گی۔ اسی لیے کہا تھا
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
لیکن اُن کا خیال یہ بھی تھا کہ
ہو چکا ہے قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
لیکن اُن کے یہ خیالات ان کی خوش فہمیاں تھیں ۔ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جو تو قعات وابستہ کی تھیں ان کے غلط ہونے کا اور پوری نہ ہونے کا احساس اُنہیں اپنی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔انہوں نے اپنی قوم کے مختلف طبقوں کو جانچا، پرکھا اور ان میں زندگی کی رمق تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہیں کچھ بھی نہ ملا۔ اور انہوں نے کہا
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
دیکھ چکا میں موج موج ڈھونڈھ چکا صدف صدف
لیکن یہ تو ان کا مجموعی تاثر تھاآئے ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف طبقات سے اُنہیں کیا ملا؟
اُنہیں سب سے پہلا علماء دین کا خیال آیا کہ یہ لوگ اس قوم کی بہتری کیلئے کام کریں گے اور اس امت کو ایک بہترین قوم بنائیں گے لیکن انہیں دیکھ کر وہ سخت مایوس ہوئے اور انہوں نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا
ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں عظمت کردار نہ افکار عمیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ یہ پیرانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ تقویٰ ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
علماء دین سے مایوس ہونے کے بعد اُن کی نظر صوفیاء پر پڑی۔ ان کا خیال تھا کہ صوفیاء قوم کی اچھی تربیت کر سکتے ہیں اور انہیں بہترین اور مفید انسان بناسکتے ہیں لیکن صوفیاء کامشاہدہ کرنے کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچا وہ یہ تھا
صوفی ،پشمینہ پوش وحال مست
ازصدائے نغمہ قوال مست
آتش ازشعر عراقی در دلش
درغی ساذدبقراں محفلش
اور
رمزوایماء اس زمانے کیلئے موزوں نہیں
اور آتا بھی نہیں مجھ کو سخن سازی کافن
قم باذن اللہ کہنے والے رخصت ہو گئے
حانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن
اور غریب مریدوں سے جس طرح نذرانے وصول کیا کرتے تھے ان کے بارے میں اقبال نے لکھا
نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا
ہر فرقہ سالوس کے اندر ہے محاجن
مزید یہ کہ
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
علماء کرام اور صوفیاء عظام سے مایوس ہونے کے بعد اقبال کی نگاہ امید نوجوانوں پر پڑی اور انہوں نے سوچا کہ شاید نوجوان اس قوم کی کشتی کو بھنور سے نکال لیں گے۔ لیکن وہ یہاں بھی مایوس ہوئے ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ پکار اٹھے کہ
ترے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
اور اس نے جوانوں کیلئے دُعا کی
جوانوں کی میری آہ سحردے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال وپردے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میر انورِ بصیرت عام کر دے
جوانوں کے ساتھ ہی اُنہیں اساتذہ کا خیال آگیا ۔ کیونکہ انکی تعلیم وتربیت اساتذہ ہی کرتے ہیں لیکن انہوں نے دیکھا کہ یہاں بھی تاریکی کے سوا کچھ نہیں ہے اس نے کہا
گلاتو گھونٹ دیا پر مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لاالہٰ ال اللہ
نیز یہ کہ
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
الغرض اقبالؒ نے مسلمانان ہند کے ایک ایک طبقے سے یہ توقعات وابستہ کیں کہ وہ مسلم قوم کی ازسرنو سربلندی کیلئے آگے آئیں گے اور جو کچھ دوسری اقوم عالم کے لوگ دنیا میں اپنے آپ کو باوقار بنانے کیلئے کر رہے ہیں یہ بھی کریں گے لیکن اُنہیں سخت مایوسی ہوئی اس مایوسی کا اظہار ان کی عمر کے آخری دور کے کلام میں جابجا ملتا ہے۔ اُنہیں اپنے زمانے سے اور اپنی قوم کے لوگوں سے شکایت ہی رہی اُنہیں تو فنون لطیفہ سے شفف رکھنے والے لوگوں سے بھی کوئی خوش کن اُمید دکھائی نہ دی انہوں نے کہا
ہند کے شاعرو صورت گر و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
23مارچ 1940کو جب لاہور میں منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں قرار دادِ لاہور متفقہ طور پر منظور ہوئی تو اس میں وہی فارمولا تھا جو اقبالؒ نے1930میں الہٖ آباد کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا تھا اور اس طرح مسلم لیگ نے اقبال کو پاکستان کے تصور کا خالق عملی طورپر تسلیم کر لیا یہ قرار داد جسے بعد میں تقسیم ہند کے مخالف لوگوں نے قرار دادِ پاکستان کہنا شروع کر دیا اور خود مسلم لیگ نے بھی اس نام کو قبول کر لیا۔ تو مسلم لیگ کیلئے اقبالؒ کی حیثیت اور زیادہ بڑھ گئی ۔ ویسے بھی انہیں اب تحریک پاکستان کو آگے بڑھانے کیلئے کسی مفکر کی ضرورت تھی۔ جس کی سوچ کو نہ صرف تحریک کی اساس بنایا جائے بلکہ حاصل ہونے والے نئے ملک کی نظریاتی اساس بھی قرار دیا جائے چنانچہ انہوں نے اقبال کو مفکرِپاکستان مصورپاکستان بنادیا اور اقبالؒ کے مقبرے پر بھی قائداعظم کے مقبرے کی طرح گارڈ مقرر کر دیے۔
لیکن اس تمام ترعزت افزائی کے باوجود پاکستان کے مقتدر طبقوں نے اس امر کی پوری کوشش کی کہ پاکستان کے عوام اقبالؒ کے اصلی افکار بالخصوص اس کے زندگی بخش ترقی پسندانہ اور انقلابی افکار وخیالات سے واقف نہ ہو سکیں۔ اس کا بہت ساکلام جو حکمرانوں کے نقطہ نظر کے مطابق نہیں ہے یا ان کے مفادات کے خلاف ہے لوگوں کے سامنے لانے کی نہ صرف یہ کہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ اُسے چھپا یا گیا اور کوشش یہ کی گئی کہ اُس کے صرف اُن اشعار کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جائے جو ان کے ذہنوں میں کسی باغیانہ ہیجان کا سبب نہ بنیں۔
پاکستانی عوام سے اس اقبال کو روشناس کرایا گیاہے جو حکمرانوں اور حکمران طبقوں کیلئے مفید یا بے ضررتھا اور یہ کوشش بھی کی گئی کہ اقبال کو اس قوم کیلئے بیگانہ بنادیا جائے ۔چنانچہ آج یہ حال ہے کہ چند علم وادب سے شغف رکھنے والے لوگوں کے سوا بہت ہی کم لوگ ہیں جو اقبالؒ کو جانتے ہیں۔ اقبال کے نام سے تو پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔ لیکن اس کی فکر سے شاید کوئی ہی واقف ہو اورحالت یہ ہے کہ عوام الناس تو کیا کالجوں اور سکولوں کے پروفیسر اور اساتذہ بھی بہت ہی کم ایسے ہیں جنہیں اقبالؒ کی کتابوں کے ناموں کا علم ہے ان کا مطالعہ تو بہت دور کی بات ہے۔
♠