سعادت حسن منٹو ہندوستان کے مایہ ناز کہانی کار ہیں۔ ان کی کہانیاں آج بھی اسی طرح ترو تاز ہ ہیں جیسے آج سے ساٹھ ستر سال پہلے تھیں۔
وہ گیارہ مئی سن 1912 کو پیدا ہوئے جبکہ کا انتقال 18 جنوری 1955کو صرف 42 برس کی عمر میں ہوا۔ ضلع لدھیانہ میں پید ہونے والے منٹو سن 1947 میں تقسیم ہند کے بعد پاکستانی شہر لاہور منتقل ہو گئے۔
پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی گیارہ مئی کو ان کے 104 ویں یوم پیدائش کے موقع پر کئی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔
منٹو کی ادبی تخلیقات کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے دیکھی بھالی اور جانی پہچانی دنیا میں ہی ایک ایسی دنیا دریافت کی، جسے لوگ درخوراعتناء نہیں سمجھتے تھے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ گمراہ لوگوں کی دنیا ہے، ایسے لوگوں کی، جو مروجہ اخلاقی نظام سے ماورا اپنی ہی بنائی ہوئی دنیا کے اصولوں پر چلتے تھے۔ ان میں اچھے لوگ بھی تھے اور برے بھی۔
منٹو کی کہانیاں نہ صرف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں بلکہ ان کی سبھی تحریریں بشمول کہانیاں، مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے حامل ہیں۔ان کی کہانیوں کے کردار آج بھی ہمارے معاشرے کے زندہ اور چلتے پھرتے کردار معلوم ہوتے ہیں ۔ ا نہیں پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اپنی شخصیت بھی کسی ایک کردار کا روپ دھارے ہوئے ہے ۔
منٹو اپنے سماج کی عکاسی اپنی کہانیوں میں کرتے تھے۔ لیکن ریاست پر قابض گروہ کو سماج کی عکاسی سے پریشانی تھی کیونکہ اس کی کہانیاں عوام کو باشعور کرتی تھیں اور باشعور ہونے کا مطلب ان کے مفادات پر سوال اٹھانا تھا۔
منٹو پر اکثر و بیشتر فحاشی کا الزام لگایا گیا۔ پاکستان کی سرکار نے اس کی تحریروں کو فحش قرار دیتے ہوئے پابندیاں لگائیں۔ مگر منٹو ان تمام پابندیوں کے خلاف نہ صرف لڑتا رہا بلکہ ریاستی اداروں کی منافقت کو بے نقاب کر تا رہا۔
منٹو کا کہنا تھا کہ ’’ اگر آپ میر ی تحریروں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کے کپڑے کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ ۔۔میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لیے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے‘‘۔
ہمارے ہاں عمومی طور پر تاریک گوشوں کو دیکھنے کی عادت نہیں اور نہ ہی حکمران طبقہ اور اس کے حواری اسے دکھانا پسند کرتے ہیں۔منٹو نے اپنی کہانیوں میں سماج کے غریب ترین اور پسے ہوئے طبقے کی معاشی و سماجی صورتحال کی عکاسی کی کہ یہ لوگ کیسی زندگی گذارتے ہیں خاص کر وہ عورتیں جو دو وقت کی روٹی کے لیے اپنا جسم بیچتی ہیں۔
منٹو پر 1947 کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کا بھی گہرا اثر تھا۔مذہبی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم ایک ایسا سانحہ ہے جس کے اثرات عوام آج بھی بھگت رہے ہیں۔ تقسیم کے وقت قتل و غارت اور اس کے نتیجے میں جو انسانی المیے رونما ہوئے وہ اس کی کئی کہانیوں میں نظر آتے ہیں۔ تقسیم کے موضوع پر اس کا مشہور افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے۔یہ افسانہ تقسیم کے کوئی دو یا تین سال بعد لکھا گیا جس میں ہندوستان کی تقسیم کو طنزیہ انداز میں بتایا گیا۔
اس کہانی کے کردار پاگل ہیں جو ایک پاگل خانے میں رہتے ہیں۔ منٹو لکھتا ہے کہ ایک مسلمان پاگل جو باقاعدگی سے روزنامہ زمیندار پڑھتا تھا سے دوسرے پاگل نے پوچھا کہ مولبی صاحب یہ پاکستان کیا ہوتا ہے تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا ’’ ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں‘‘۔
یاد رہے کہ روزنامہ زمیندار اس زمانے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لیے مشہور تھااور آنے والے سالوں میں ہمارا میڈیا روزنامہ زمیندار سے کم نہیں تو دو ہاتھ آگے ہی رہا جو مذہبی انتہا پسندی اور جہادیوں کو ہیرو قرار دیتا رہا ۔ اور پھر پاکستان دہشت گردوں کی نرسری بنا ۔
اس کہانی کا ایک کردار اس تقسیم کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں نہ تو ہندوستان جانا چاہتا ہوں او ر نہ پاکستان بلکہ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔
وہ ایک سیکولر اور سماجی انصاف پر مبنی سماج کا خواب دیکھتا تھا جس میں تمام انسانوں کو کسی رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر برابر کے حقوق حاصل ہوں ۔
♣
One Comment