اسلام قبول کرویا علاقہ چھوڑ دو

pakistani-christians

پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین ميں توہين مذہب کے ايک مبينہ واقعے سے متعلق رپورٹيں سامنے آنے کے بعد چند افراد نے وہاں کی مقامی مسيحی آبادی سے مبينہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ وہ يا تو اسلام قبول کر لے يا پھر علاقہ چھوڑ دے۔

پاکستان ميں مذہبی اقليتوں کے خلاف تشدد اور ان سے امتيازی سلوک کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہيں۔ اس حوالے سے تازہ ترين واقعہ صوبہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کے ’چک چواليس‘ نامی گاؤں ميں پيش آيا۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس علاقے ميں مقيم تقريباً تين سو مسيحيوں کو مبينہ طور پر دھمکی دی گئی ہے کہ وہ يا تو اپنا مذہب تبدیل کر لیں، يا پھر علاقہ چھوڑ ديں، يا پھر عمران مسیح نامی ایک اقلیتی نوجوان کو مقامی مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے، جو مبینہ طور پر توہين مذہب کا مرتکب ہوا۔

مقامی سطح پر انسانی حقوق کے ليے سرگرم ايک کارکن اور صحافی سليم اقبال نے اس بارے میں ڈی ڈبليو سے بات چيت کرتے ہوئے بتايا کہ کچھ روز قبل ايک مقامی ہسپتال ميں صفائی کا کام کرنے والا عمران مسیح نامی ایک شخص اپنے موبائل فون پر کچھ ديکھ رہا تھا کہ اُسے ايسا کرتے اُس کے ايک ساتھی محمد بلال نے ديکھ ليا۔

بعد ازاں بلال نے یہ دعویٰ کيا کہ عمران مسيح ’اسلام مخالف اور متنازعہ‘ مواد ديکھ رہا تھا اور يوں اس کے بقول وہ ’توہين رسالت کا مرتکب‘ ہوا ہے۔ سلیم اقبال کے مطابق واپس لوٹنے پر عمران نے اپنا فون توڑ ديا اور کہا کہ اُس پر جھوٹا الزام لگايا جا رہا ہے اور اُس نے کسی بھی طريقے سے کوئی توہين مذہب نہيں کی۔

ابتداء ميں يہ معاملہ ٹھنڈا ہو گيا ليکن جوں ہی اِس کی خبريں گاؤں کے ديگر افراد تک پہنچیں تو کچھ لوگوں نے اِس معاملے کو دوبارہ اٹھايا اور اشتعال دلاتے ہوئے کہا کہ عمران مسیح کو چھوڑ کر ’بہت بڑی غلطی‘ کی گئی ہے۔

دريں اثناء عمران مسیح اپنی جان کو لاحق خطرے کے سبب گاؤں سے فرار ہو چکا ہے اور اس کا کوئی پتہ نہيں ہے۔ سليم اقبال نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’جمعہ چھ مئی سے گاؤں ميں نفرت انگیز تقارير شروع ہوئيں اور پھر اس کے ساتھ ہی مسیحی برادری کو نشانہ بنايا جانے لگا‘‘۔

چک چواليس‘ کے ایک مسیحی رہائشی عامر يعقوب نے اس بارے ميں ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’اس واقعے کے نتیجے میں زمينداروں نے مسيحيوں کو دھمکياں ديں کہ اُن کے گھروں پر قبضہ کر ليا جائے گا۔‘‘ اس کے علاوہ يہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مقامی دکانداروں نے مبینہ طور پر مسيحيوں کو کچھ بھی فروخت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اس علاقے ميں مسيحيوں کے تقريباً چاليس گھر ہيں، جن کے رہائشيوں کی تعداد قریب تين سو بنتی ہے۔ اس واقعے کے بعد پچھلے ايک ہفتے کے دوران تقريباً بيس گھر خالی ہو چکے ہيں اور لوگ اپنے مکانات چھوڑ کر چلے گئے ہيں جبکہ دیگر وہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ صحافی سليم اقبال اور مسيحيوں کی نمائندگی کرنے والے عامر يعقوب دونوں نے اس کی تصديق کر دی ہے کہ مسيحی رہائشی وہاں سے نقل مکانی کر رہے ہيں۔

سليم اقبال نے ڈی ڈبليو کو مزيد بتايا کہ مقامی طور پر عمران مسيح کے بارے میں اطلاع دينے پر ايک لاکھ روپے نقد انعام اور اسے گرفتار کرانے والے کے لیے دو لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔

ڈی ڈبليو نے اس معاملے کی وضاحت کے ليے متعلقہ پوليس اسٹيشن کے ايس ايچ او ظفر اقبال سے رابطہ کيا، تو ان کا کہنا ہے کہ اس گاؤں ميں مسيحيوں کو کوئی خطرہ نہيں اور نہ ہی اُن کو کسی نے دھمکی دی ہے۔ اُن کے بقول، ’’پوليس نے متعلقہ اشخاص کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد ايک کميٹی قائم کر دی ہے، جو اس معاملے کی ديکھ بھال کرے گی۔‘‘ ايس ايچ او ظفر اقبال کے مطابق اب تک کی جانے والی تحقيقات ميں کوئی خاص بات سامنے نہيں آئی۔

اس کے برعکس سليم اقبال کا دعویٰ ہے کہ معاملہ جوں کا توں ہے اور پوليس تو ہميشہ ايسے معاملات کو نظر انداز کرتی آئی ہے۔ وہ يہ بھی کہتے ہيں کہ جمعے کے روز پوليس نے ايک شخص کو اس ليے گرفتار کر ليا کہ وہ مبینہ طور پر مسجد ميں کی جانے والی نفرت انگیز تقارير کے بارے ميں مسيحيوں کو مطلع کر رہا تھا تاکہ وہ اپنی جانيں بچا کربھاگ جائیں۔

چک چواليس‘ کے رہائشی اور مقامی مسيحی برادری کی نمائندگی کرنے والے عامر يعقوب نے بتايا کہ مقامی ڈی پی او نے 12 مئی بروز جمعرات فريقين سے بات چيت کر کے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی اور ان سے کہا ہے کہ عمران مسیح قصور وار نہيں ہے اور گاؤں کا ماحول خراب نہ کيا جائے۔ تاہم يعقوب کا کہنا ہے کہ وہ اور ديگر مسيحی خود کو بالکل محفوظ محسوس نہيں کرتے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے خلاف کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے اور ہمین یہی خوف لاحق ہے۔ ہم کسی بھی لحاظ سے محفوظ نہيں ہیں‘‘۔ عامر يعقوب کے بقول اگرچہ ضلعی پولیس افسر یا ڈی پی او فی الحال معاملہ ختم کرانے کی کوشش کی ہے تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک سوال ہے کہ آیا مقامی لوگ بھی ایسا ہی کریں گے۔

ڈی ڈبليو نے اس معاملے کی مزید وضاحت کے ليے ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان کے لاہور ميں قائم دفتر ميں شکایات سیل کے سربراہ زمان خان سے رابطہ کيا، تو انہوں نے بتايا کہ اگرچہ پوليس نے بر وقت مداخلت کی تاہم ماضی کی طرح اب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو سکتا ہے اور لوگوں کے خدشات جائز ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان ميں مذہبی اقليتوں کے خلاف مظالم کے خاتمے کے ليے ايک بہت طويل عرصے تک انقلابی اقدامات کيے جانے کی ضرورت ہے۔‘‘ زمان خان نے مزيد کہا، ’’ایسا (فیصلہ کن اقدامات) پاکستان ميں نہ ماضی ميں ہوا ہے، نہ موجود دور ميں ہو رہا ہے اور نہ ہی مستقبل ميں ايسا ہونے کے کوئی امکانات ہيں‘‘۔

DW

Comments are closed.