آئینہ سیدہ
کبڈی پنجاب کا قومی کھیل ہے. اگرآپ خاتون ہیں اور وہ بھی ذرا نازک ترین حس لطافت کا شکار تو یہ کھیل ٹی وی پر دیکھنا بھی آپکی طبیعت پرگراں گزر سکتا ہے مگر کو شش کریں کہ بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہمت ، حوصلہ اور ” مردانگی ” سے کام لے سکیں۔
اس کھیل کے بنیادی اصول تمام پاکستانی ریاست و سیاست پرحا وی ہوچکے ہیں اس لیے بھی کہ صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اتنا بڑا کہ اپنی آبادی کو دوسرے صوبوں کے کونے کونے تک پہنچا دیا ہے اور اس لیے بھی کہ ملک کے طاقت ورمقتدرہ حلقوں میں پنجاب کے کبڈی یافتہ افسروں کی بہتات ہے اور اگر وہ اپنے دل پسند کھیل کے بنیادی اصولوں کو اپنے محکموں پرلاگو نہیں کریں گے تو کیا میں کروں گی ؟
کبڈی کے اس حیرت انگیز کھیل پر غور کریں۔ایک کھلاڑی دوسرے سے نبرد آزما ہونے کو تیارنہیں بلکہ صرف ” چھیڑخانی ” کے لیے حریف ٹیم کے غول میں جاتا ہے۔مزید یہ کہ اپنے حریف کے کاندھوں، بازوں یا سینے پر نہیں بلکہ جھکاؤ دیتا ہوا اسکی ٹانگوں پر“حملہ آ ور” ہوتا ہے اس طرح کہ ہلکا سا” چھوا ” اور اسکے بعد؟ بس دم دبا کر بھاگنے کی سر توڑ کوشیں، یعنی حوصلہ بس اتنا ہی کہ ہاتھ لگا کر بھا گو!!! اب حریف ہے جو آپکو بھاگنے نہ دے مگر اسکی بھی پہلی کو شش آپکی ” ٹانگیں کھینچنے ” میں ہی ہوتی ہے ۔اگر آنے والا دام میں آگیا توٹانگیں چھوڑنےکا نام نہیں اوراگرہاتھ سےنکل گیا تو وہ اپنی ٹیم تک پہنچ کر اپنے ” کامیاب بھگوڑا ” ہونے پر ایسے تکبراور اکڑا ہٹ کا مظا ہرہ کرتا ہے کہ توبہ !۔
اب نظر گھوما کر اپنی سیاست ، حکومت ،پارلیمنٹ ، عدلیہ ، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول جاسوسی کے آلات خواتین وزیروں، مشیروں تک کے گھروں میں نصب کرنے والی ایجنسیوں کی طرف دیکھیں . ” کوڈی ، کوڈی ، کوڈی” کرتی ایک دوسرے سے چھیڑخانی میں مصروف ایک ہاتھ لگا یا اور پھر یہ جا وہ جا ! دھر لیے جائیں تو شرمندگی مٹانے کو یہ نعرے کہ ” بین الاقوامی سازشیں” پیچھا کرتی ہیں اور ٹانگیں کھینچتی ہیں اور اگر دم دبا کر دوڑ لگانے میں کامیاب ہو گئے تو سینے پر ایک اور تمغہ ، کاندھوں پر ایک اور پھول! نہ ذمہ داری کا احساس ، نہ خود احتسابی ، نہ بہادری و جوانمردی نہ ارادے کی پختگی !۔
ایسا لگتا ہے کہ اس پاکستان نامی گھر کا کوئی بھی ما لک مکان نہیں یا جو مالک تھا وہ بے چارہ سوتیلی اولاد کے ذمے چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہوگیا ہے اور سوتیلی اولاد نے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک سے بڑھ کر ایک کمبخت کرایہ دار رکھا ہے جو نہ کرایہ دیتا ہے نہ مکان چھوڑتا ہے۔
ہمارا ماضی یقیناًبہت “تابناک ” ہے مگر یہ تابناکی دیکھنے اتنی دور کیوں جائیں جب کہ ابھی بھی لاکھوں نہیں کروڑوں آنکھوں کے سامنے ” کبڈی ” کا عمل جاری و ساری ہے۔کچھ کھلاڑی حریف کے غول میں گھسے اسکی ٹانگیں کھینچنے کے عمل کو لمبا کرتے جارہے ہیں چاہے اس عمل میں حریف کی ٹانگوں کی بجائے اپنا اور اسکا سر بوٹ والوں کا فٹ بال بن جائے مگر ” کبڈی ،کبڈی ” کی دھن پر بھنگڑے ڈالنا نہیں چھوڑیں گے۔.
کبڈی کے “سالانہ اجتماعات ” ہمارے ہاں ہر تین سال بعد منعقد کروانے کی کوششیں ہوتی ہیں کسی زمانے میں مڈل کلاس کے نام نہاد پڑھے لکھے بڑے شہروں میں بسنے والے اپنے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کبڈی کے کھیل پرسیر حاصل مباحثےکرتے۔ اس دوران ان شہروں کے “پہیےجام ” رہتے اورملک میں ترقی معکوس کا عمل جاری رہتا آج کل یہ مباحثے ڈرائنگ رومز سے نکل کر” دکانوں “پر چلے گئے ہیں جو 24/7 اسی کام کو انجام دینے کے پیسے لیتی ہیں۔ اب آپکے علاقے میں پہیہ جام ہو ،لانگ مارچ یا پھر دھرنہ یہ دکانیں کبھی بند نہیں ہوتیں۔ ان کے حق میں د عا ہی کیا کریں کیونکہ اب یہ بھی کبڈی کے کھیل کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دینے میں شامل ہیں۔
لطف کی بات اس بار یہ ہے کہ اکھاڑے کے دونوں جا نب ہی کبڈی کے چیمپین موجود ہیں وگرنہ اس ملک خداداد میں اکثر ایک طرف کبڈی کے مشاق کھلاڑی ہوتے ہیں تو دوسری طرف” کنچے ” کھیلنے والےمارکھانےکی نشانیاں“مفاہمتی” ٹیم کےممبر جو لنگوٹ کس کر میدان میں آجاتے تھے ۔لیکن حال یہ تھا کہ ابھی نشانہ باندھ کر اپنی انگلیاں ہی مروڑ رہے ہوتے تھے کہ کبڈی کا کہنہ مشق صرف ہاتھ لگا کر نہیں بلکہ ” دو چار” لگا کر منہ کے بل گرا کر دوڑ لگا دیتا وہ پھر اپنی “رسی ” کے پار جاکر عوام سے اپنی ” بہادری وجوانمردی ” کی داد بھی وصول کرلیتا اور یہ “کانگڑی پہلوان “اپنی چوٹیں اگلے دس سال تک سہلاتے رہتے۔
مگر وہ کہتے ہیں نا کہ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں تو جناب اس بار اکھاڑہ سجا اور دنگل کا بگل بجا تو پاکستانی عوام کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں طرف ہی ” کوڈی کوڈی ” کی صدا ئیں ہیں .دونوں ہی فریق ” چھیڑخانی ” پر تلے ہیں۔کبھی ایک” اوے” کی صدا لگاتا ہے تو کبھی دوسرا ” جا ا وے ” کا آوازہ کستا ہے۔.
ایک دھاندلی سےشرو ع ہوا تو کرپشن میں آ کرپھنس گیا دوسرا کرپشن سےشروع ہوا تو “کھجور ” میں آ کر اٹک گیا۔ حالانکہ ایک دوسرے کے گریبان نوچنے سے پہلے اگر اپنے سر کو خم دے کر اپنے گریبان میں جھانکیں تو انہیں وہاں دھاندلی کے ساتھ نا انصافی ، کرپشن کے ساتھ منافقت، مفاد پرستی کے ساتھ سودے بازی کے پھوڑے پھنسیاں ملیں گے جنہیں اب خالی مرہم کی نہیں سرجری کی بھی ضرورت ہے۔
سو ائے پیارے پاکستانیو !! اس بارکبڈی کے میچ کا فیصلہ جلد نہ ہوگا سو حوصلہ بھی رکھو اور اپنی گود میں پاپ کارن سے بھرا پیالہ بھی اور خبردارآٹھ سے دس بجے والی “دکان ” سے نظریں نہیں اٹھانی کہ یہ ڈرامہ ابھی چلے گا کیونکہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی …. کبڈی کبڈی کے نعرہ مفادانہ لگاتی دونوں ٹیمیں ھی مسلسل کوشش میں ہیں کہ مخالف کو ٹانگیں کھینچ کر خوار کروں چاہے اس تگ و دو میں جسم پر موجود آخری کپڑا بھی اتر جائے۔
♠