مہرجان
جب بھی آپ کسی نظریہ پہ سوال اٹھاتے ہیں تو اہل نظریہ بجائے سوال کا جواب دینے کے اسے گردن زدنی سے تشبیہ دے کر آپ سے آپ کا نظریہ جاننا چاہے گا ۔
کیا اہل تشکیک کا کسی بھی نظریہ سے جڑا رہنا لازمی ہے؟ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ اگر بریلوی مکتب فکر یہ کہے کہ پہلے آپ کوئی مکتب فکر اپنالیں پھر اپنا سوال باقی مکتب فکر کے علماء کے سامنے رکھیں تاکہ دیوبندی یا اہل تشیعہ علماء کو بالکل آسانی ہو کہ بجائے سوال کا جواب دینے کے آپ ہی کے مکتب فکر کو کٹہرے میں لائیں اور یوں کبڈی کبڈی کا اک کھیل ناتمام شروع ہوجائے۔
آج مذہبی، مارکسسٹ اور اہل لبرل کے دانشورانہ بیانیوں سے کیا یہ کھیل (کبڈی کبڈی) شروع نہیں ہوا ہے؟ یہاں ہر کوئی ایک انچ بھی اپنی نظریات سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یہاں کسی بھی مکتب فکر سے سوال کرنے سے پہلے خود کو کسی مکتب فکر کی ارادت میں شامل کرنا لازمی امر بن چکا ہے۔
مکالمہ ہمیشہ وہاں فروغ پاتا ہے جہاں ذہنی طور پر انسان اتنا تیار ہو کہ جس نظر یے کے بت کو اس نے اپنے اذہان و قلوب میں تراشاہے اسے دلیل گر پاش پاش کربھی لے تو کوئی پشیمانی نہ ہو اور نہ ہی اس نظریہ کی پرستش کے لیے جواز تراشنا شروع کرے۔ لیکن یہاں پہلے ہی سے نظریات گھڑے گئے ہیں اورلوگ (دانشور) ان نظریات کو آخری اور دنیا کا واحد سچ قرار دے کر میدان کار زار میں اترتے ہیں۔
اب یہ مکالمہ نہیں بلکہ کبڈی کا ایک ناختم ہونے والا کھیل شروع ہوجاتا ہے اک دوسرے پہ طنز تحقیر کی بارش شروع ہوتی ہے۔ کہیں مارکس کو پیغمبر بنایا جارہا ہوتا ہے تو کہیں ان کے قد کو گھٹایا جارہا ہوتا ہے اور کہیں اہل مذہب تاویلات تراش رہا ہوتا ہے۔۔ پھر بقول جون ایلیاء
سب دلیلں تو مجھ کویاد رہیں
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا
لبرل ازم کے دعویدار آزادی افکار کے جتنے بھی ڈھول پیٹیں، بلاک کرنے کا آپشن کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کی ترجیحات ویلنٹائن ڈے کے منانے سے شروع ہو کر نقلی جمہوریت کی پرچار پہ ختم ہوجاتی ہیں جبکہ اہل مذہب دجال کے منتظر رہتے ہیں ۔ اور مارکسسٹ کے ہر برانڈ مارکیٹ میں اب میسر ہیں۔
انسانیت ایک کرب سے گزر رہی ہے تشدد کے نئے نئے مناظر انہی نظریات کی بدولت سامنے آرہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی اس کرب پہ بات کرے۔ کوئی اٹھ کر تشدد کے آداب ہی سکھادے یا معروضی حقائق کو زیر بحث لائے۔ یہاں ہر اک کے پاس ظلم کو جواز دینے کا اک ہنر موجود ہے۔
معروضی حقائق کی بجائے موضوعی سچ میں اہل دانش پناہ لے چکے ہیں اب اس درمیان اگر کوئی سوال اٹھائے تو لبرل حضرات اسے گردن زدنی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مارکسسٹ اسے کنفیوزڈ کہہ کر دھتکارتے ہیں اور اہل مذہب جاہل قرار دے کر ایک آیت (وإذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما)کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔ نظریات اور شخصیات کی اس بت گری میں انسانیت اور سچ آہیں بھر رہی ہیں ۔
جب نظریات مذہب کا درجہ اختیار کرپائیں تو ان نظریات کے نام پہ پہلے بھی ظلم و جبر روا رکھا گیا تھا اور اب بھی وہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ فقط نام اور جواز الگ الگ ہیں، ظلم کی داستان اور اہل دانش کا یہ کھیل اک ساتھ جاری و ساری رہیگا۔۔
تمہیں ہو صبح دم توفیق بس اخبار پڑھنے کی
تمہیں اے کاش! بیماری نہ ہو دیوار پڑھنے کی
جون ایلیا
One Comment