آصف جیلانی
پچھلے 69سال سے کشمیرکے ایک کڑوڑاکہترلاکھ عوام کوان کے حق خود ارادیت اور آزادی سے محروم رکھنے کے سب سے بڑے مجرم بلا شبہ ، جواہر لعل نہرو ہیں جو خود کشمیر النسل ہوتے ہوئے کشمیریوں کی خواہشات سے با خبرتھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کشمیری قوم پرستی کے مقابلہ میں ہندوستان کی قوم پرستی کو ترجیح دی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے کشمیریوں کی امنگوں کے ترجمان اور خود اپنے دیرینہ ساتھی شیخ عبداللہ کو ہندوستان کے خلاف نام نہادسازش کے الزام میں گرفتار کر کے گیارہ سال تک قید وبند کی اذیت میں مبتلا رکھا ۔جرم در اصل شیخ عبداللہ کا نہرو کے نزدیک یہ تھا کہ وہ ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کے خلاف تھے۔
ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی سرگرم کارکن اور مشہور صنعت کار مردولا سارہ بائی جنہیں جواہر لعل نہرو نے 1946میں کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹریوں میں سے ایک مقرر کیا تھا ، شیخ عبداللہ کی رہائی کی کوششوں میں پیش پیش تھیں۔ 1961میں اسی سلسلہ میں جب وہ دلی آئیں تو ان سے میری ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات میں مردولا سارہ بائی نے انکشاف کیا کہ شیخ عبداللہ ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کے سخت خلاف تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ گو شیخ صاحب سیکولرزم کے زبردست حامی تھے اور اسی بنیاد پرانہوں نے پاکستان کے د و قومی نظریہ کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ میں نے مردولا سارہ بائی سے پوچھا کہ شیخ عبداللہ کیا چاہتے تھے؟ انہوں نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر کہا۔ کشمیر کی آزادی۔
کہنے لگیں کہ اپریل 1946میں شیخ عبداللہ نے کیبنٹ مشن کو ایک تار بھیجا تھا جس میں انہوں نے کشمیریوں کی آزادی کے حق کا مطالبہ کیا تھا ۔ ان کا استدلال تھا کہ کشمیری ایک الگ قوم ہیں جو ہندوستان کے ایک منفرد علاقہ میں آباد ہیں۔ مردولا سارہ بائی نے کہا کہ شیخ عبداللہ کا موقف تھا کہ ہم نہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کر کے ہندوستان کے ساہو کاروں کے غلام بننا چاہتے ہیں اور نہ پاکستان سے الحاق کر کے وہاں نوابوں کے درباری بننا چاہتے ہیں۔
اسی زمانہ میں کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے ایک قریبی ساتھی ، جی ایم صادق نے دلی میں ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ شیخ صاحب نے 1953 میں اپنی گرفتاری سے بہت پہلے ، انہیں اور بخشی غلام محمد کو کشمیر کی آزادی کے بارے میں بات چیت کے لئے پاکستان بھیجا تھالیکن پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے انہیں وزیر اعظم لیاقت علی خان سے نہیں ملنے دیا۔ جی ایم صادق کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس رویہ پر شیخ صاحب کو شدید قلق تھا۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان نے کشمیریوں کی قوم پرستی اور آزادی کے جذبہ کو سمجھنے سے صاف انکار کیا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور عوام نے اپنے ذہنوں پر یہ طاری کر لیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ،کشمیر پاکستان سے ملحق ہے، اس کے بیشتر دریاوں کے منبع کشمیر میں ہیں اور کشمیریوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے لہذا کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے۔ خود غرضی کی کالی پٹی اہل پاکستان نے اپنی آنکھوں پر ایسے کس کر باندھ لی ہے کہ انہیں کشمیریوں کی قوم پرستی او ر آزادی کے جذبہ کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس۔
بے بسی اور بے کسی کے عالم میں جب کشمیری پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں تو پاکستان اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ کشمیری پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ نہ جانے پاکستان اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے کہ 70سال بعد بھی ہندوستان کے جبرو استبداد کے باوجود کشمیریوں کی قوم پرستی زندہ ہے ۔ ہندوستان کشمیریوں کی اس قوم پرستی کو ،،بھارت کے اٹوٹ انگ،، کی بغاوت سے تعبیر کرتا ہے اور اس جذبہ کو روندھتے ہوئے کشمیریوں پر فوج کے بل پر اپنی حکمرانی مسلط کیے ہوئے ہے۔
عالم یہ ہے کہ وادی میں ایک حریت پسند کو پکڑنے کے لئے پورے گھر کو مسمار کردیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اسرائیلی مقبوضہ علاقہ میں ایک فلسطینی نوجوان کو پکڑنے کے لئے پورے گھر کو مسمار کردیتے ہیں۔ ہندوستان کا کس قدر ظالمانہ امتیازی رویہ ہے۔ اس زمانہ میں جب ہندوستان کے پنجاب میں سکھوں کی خالصتان کی تحریک جاری تھی، ہندوستانی فوج یا پولس نے یہ حکمت عملی اختیار نہیں کی تھی۔ کشمیر یوں سے یہ انتقام کی انتہا ہ نہیں تو کیا ہے؟
دوسری جانب پاکستان نے کشمیریوں کے جذبہ قو م پرستی اور آزادی کی آرزو کو سمجھنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کی بات نہیں تو کیا ہے کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ کشمیری ہندوستان کی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کے دوران ہزاروں جانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے استحصالی جاگیر داری نظام کا پانچواں صوبہ بن جائیں گے۔
مردولا سارہ بائی کی بات اب بھی مجھے یاد آتی ہے ۔ وہ یہ کہتی تھیں کہ پاکستان اگر کشمیر کے الحاق کے بجائے کشمیر کی آزادی کے حق میں موقف اختیار کرے تو کشمیریو ں کو ہندوستان کے چنگل سے آزاد کرا سکتا ہے۔کشمیریوں کی آزادی کی اگر دونوں ہندوستان اور پاکستان ضمانت دیں اور اقوام متحدہ اس آزادی کی نگرانی کی ذمہ داری اٹھائے تو ایک طرف کشمیری ہندوستان سے اپنے تجارتی تعلقات استوار کر سکیں گے اور پاکستان سے اپنے مذہبی ، ثقافتی اور روایتی تاریخی روابط کی تجدید کر سکیں گے اور یوں دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی بنیاد ڈال سکیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ 1963میں کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے ذوالفقار علی بھٹو اور سردار سورن سنگھ کے درمیان جو طویل مذاکرات ہوئے تھے ان میں بھی وادی کو آزاد قرار دے کر بین الاقوامی ضمانت کی تجویز پر غور کیا گیا تھا۔ اس تجویز کے تحت جموں، ہندوستان کو اور آزاد کشمیر پاکستان کے حوالے کیا جانا تھا، لیکن یہ کشمیریوں کی آزادی کی نہیں بلکہ کشمیریوں کو ہندوستان اور پاکستان میں بانٹ کر محض وادی کی آزادی کی تجویز تھی جو کسی طور بھی کشمیریوں کو قابل قبول نہیں تھی۔ ویسے بھی اس تجویز کے بارے میں کشمیریوں سے پوچھا نہیں گیا بلکہ لداخ کے مستقبل کے مسلہ اور امریکا اور چین کی رقابت کی وجہ سے تجویز پر پیش رفت نہ ہو سکی۔
جواہر لعل نہرو کو اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل اس بات پر سخت ندامت تھی اور اس کا شدید احساس ہوگیا تھا کہ کشمیر کے بار ے میں ان کی پالیسی کی وجہ سے کشمیری قوم اپنی خواہشات حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اورہندوستان اور پاکستان باہمی دشمنویوں کی گھاٹی میں ایسے لڑھک گئے ہیں کہ عوام کو مصائب کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے۔ چنانچہ نہرو نے شیخ عبداللہ کو گیارہ سال کی قید سے رہا کرنے کے بعد لوک سبھا میں اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کے بارے میں کوئی آئینی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نہرو کے اس اعلان پر حز ب مخالف اور خود کانگریس پارٹی میں زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ بمبئی میں کانگریس کے اجلاس میں نہرو نے ڈٹ کر اپنے فیصلہ کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ اس فیصلہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ میں اس اجلاس میں موجود تھا۔ چار روز تک نہرو اپنی علالت کی وجہ سے اسٹیج پر ایک صوفہ پر لگے بستر پر لیٹے اپنے فیصلہ کے خلاف نکتہ چینی سنتے رہے اور پانچویں روز وہ جوش میں آ کر کھڑے ہو گئے اور مائیکرو فون پکڑ کر انہوں نے نہایت جلالی انداز میں تقریر کی اور کہا کہ ایک طرف ہندوستان فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھلس رہا ہے اور دوسری جانب کشمیر کے مسئلہ پر دونوں ملک دشمنی میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس دلدل سے نکلیں۔اجلاس میں ایسا لگا کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
اس اجلاس کے بعد نہرو ڈیرادون چلے گئے جہا ں سے وہ تین روز کے بعد دلی واپسی پر انتقال کر گئے اور شیخ عبداللہ جو پاکستان گئے تھے ناکام و نامراد واپس آگئے۔
یہ حقیقت ہے لیکن بہت تلخ ہے کہ کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت اور آزادی سے محروم رکھنے میں ہندوستان کے ساتھ پاکستان بھی شریک مجرم ہے۔ یوں ہم سب مجرم ہیں۔
♠
One Comment