عبدا لحئی ارین
کہتے ہیں کہ کمیونسٹ روس اور برطانیہ کی افواج ایک جنگی محاذ میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھیں۔فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے ایک روز برطانیہ کا وزیر اعظم میدان جنگ میں اپنے فوجیوں کے پاس گئے ۔ اس دوران فوج کے ایک جرنیل نے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جناب دشمن کی فوج کی تعداد ہماری فوج سے کئی گنا زیادہ ہے، اُن کے پاس جدید اسلحہ و ٹیکنالوجی بھی ہیں، جبکہ اُن کے مقابلے میں ہماری فوج کی تعداد کم ہے اور اسلحہ و ٹیکنالوجی بھی اتنی جدید نہیں ہیں۔ مبادہ کہ اگر لڑائی چھڑگئی تو ہماری فوج کو شکست ہو سکتی ہے۔۔
وزیر اعظم جو حس مزاح بھی رکھتا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جنرل کے قریب آئے اور اپنی ناک اُسکی ناک پر رکھ کر رگڑتے ہوئے کہا۔ ’جنرل صاحب!۔فوجیوں کی تعداد اور اسلحے کے زور سے جنگیں جیتنے کا زمانہ اب نہیں رہا ہے۔ ہم نے جنگ اسلحے اور فوجیوں کی تعداد سے نہیں بلکہ دماغ سے جیتنی ہے‘ ۔ واقعی اب وہ زمانہ آن پہنچا ہے کہ اب جنگیں اسلحے سے نہیں صلاحیتوں سے جیتی جارہی ہیں۔ بقول عظیم سیاسی فلاسفر سائیں کمال خان شیرانی کہ’ یہ صدی صلاحیتوں کی صدی ہے۔ جس قوم میں صلاحیتیں زیادہ ہوں گی، جو قوم دماغ کا مناسب استعمال کرے گی، وہی قوم کامیاب و باقی رہے گی۔ ‘ جس قوم میں جتنا زیادہ سیاسی شعور ہوگیاُتنا ہیُ س قوم کے حقوق محفوظ اور نئی نسل کا مستقبل تابناک ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ اب زیادہ تر استعماری ممالک اپنے استعماری مقاصد کے حصول کیلئے فوجیوں سے زیادہ پراکسیزسے کام لے رہے ہیں اور ملک کے اندر اور باہر مختلف شکلوں میں اپنے پراکسیز پال رکھے ہوئے ہیں۔ کہیں یہ پراکسیز القائدہ کی شکل میں ہیں۔ داعش، طالبان، رائیونڈ کے تبلیغی مرکز جو اسلام کے مقدس دین کے نام پر لوگوں کو غیر سیاسی اور شعوری طور پر خصی بنا رہے ہیں۔ کہیں یہ شیعہ و سنی کے نعرے لگانے والوں کی شکل میں تو کہیں فوج کے گملوں سے نکلنے والے سیاسی و مذہبی پریشر گروپس کی شکل میں سیاست دشمن اور جمہوریت دشمن سرگرمیوں میں سرگرم عمل نظر آرہے ہیں۔
یہ سلسلہ اب یہیں تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ ان سب پراکسیز کیساتھ ساتھ پاکستان میں جو سب سے خطرناک پراکسیز اس وقت پیدا کئے جارہے ہیں وہ ہیں میڈیا انڈسٹری کے اینکرز اور کچھ کالم نویس۔ چونکہ یہ اینکرز اور کالم نویس عوامی رائے بنانے اورملک کے جمہوری قوتوں کے خلاف ایک اہم رول ادا کرر ہے ہیں۔جمہوریت کی بدنامی سے لے کرقومی مفاد و نظریہ ضرورت کے تحت پارلیمنٹ سے باہر بنائی گئی خارجہ پالیسی کو عوامی حمایت دلانے میں ہماری میڈیا کے کچھ اینکرپرسنز نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ اینکرپرسنز فوج کے گملے میں اُگنے والے مذہبی و سیاسی پریشر گروپس اور طالبان سے بھی خطرناک بنتے جارہے ہیں۔
جمہوریت کو بدنام کرنے ، عوامی اور قومی قائدین کی کردارکشی کرنے کیلئے تو اب ان نیوز چینلز کے ہر پروگرام میں کوئی نہ کوئی ریٹائرڈ آرمی افسر تجزیہ کار کے طور پر بیٹھائے جاتے ہیں اور پھر یہ نام نہاد اینکر پرسنز اور آرمی کے ریٹائرڈ افسرتخریبی تجزیے کرتے ہیں اور بڑی مہارت سے وہ جمہوری قوتوں کی کردار کشی کر کے غیر جمہوری قوتوں کیلئے جمہوریت اور عوامی نظام پر شب خون مارنے کیلئے سازشوں میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
اگر ہم پاکستانی میڈیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو۱۹۸۰ سے پہلے یہاں کا میڈیا عوامی تھا ۔ لیکن ۸۰ کی دہائی کے بعد جنرل ضیا الحق نے جہاں اس ملک میں وہابی ازم ، جہاد اور کلاشنکوف کلچر کو فروغ دینے کی کوششیں تیز کردیں، وہیں انھوں نے میڈیا میں ایسے گُھس بیٹھئے داخل کئے جن کے بچے آج تک اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور میڈیا کو عوام کی بجائے استعماری مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ضیاء دور میں جہاں جمہوریت اور قومی سیاسی پارٹیوں کو مختلف طریقوں سے کمزور کرنے کی کوششیں شروع کی گئی تھیں وہیں ان غیر جمہوری قوتوں نے پرنٹ میڈیا میں بھی ایسے لوگ ایک خاص سازش اور منصوبے کے تحت داخل کروادئے تھے جو مختلف ناموں، نظریات اور سیاسی وابستگی کے پردے میں رہ کر ایسے کالم، فیچرز اور رپورٹنگ کرتے تھے جس کا فائدہ عوام کی بجائے جنرل ضیاء الحق اور اُس کی ٹیم کو ہوتا تھا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اور اب الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس دور میں ان غیر جمہوری قوتوں نے عوامی شعور کو کمزورکرنے ، پاکستان میں آباد دیگر اقوام کے حقوق پر منظم انداز میں ڈاکہ ڈالنے، اُن کے وسائل پر قبضہ کرنے، قومی سوال و قومی حقوق کیلئے سرگرم سیاسی قومی تحریکوں کو کمزور کرنے بلکہ ختم کرنے کیلئے مزید سازشیں شروع کر رکھی ہیں اور عوام کو ان قومی تحریکوں سے بدظن کرنے اور نئی نسل کے دلوں میں ملک کے غیر جمہوری آقاوں اور ایک صوبے کی حکمرانی کی وجہ سے نئی نسل میں بڑھتی ہوئی قومی شعور اور اُن کے دلوں میں پروان چڑھتی ہوئی حقیقی تبدیلی اور انقلاب کے جذبات کو ختم کرنے اور انھیں سیاسی بے راہ روی اور کنفویز کرنے کیلئے پاکستانی میڈیا بالخصوص اردو میڈیا کا کردار ہمیشہ سے مشکوک رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ملک کے حقیقی فوجی و جنرل کا کردار پاکستانی میڈیا کے یہ اینکر پرسنز ادا کر رہے ہیں۔ یعنی اگر اس ملک میں نئی نسل اپنے ساتھ ہونے والے زیاتیوں کے خلاف منظم ہوکر حقیقی انقلاب برپا کرنا چاہے تو اُن کو روکنا موجودہ فوجی جنرلوں کی بس کی بات نہیں ہے اس لئے ان عوامی جذبات اور نئی نسل کو گمراہ و کنفیوز کرنے اور حقیقی قومی انقلاب کا راستہ روکنا کیلئے میڈیا کے یہ اینکر پرسنز رکھے گئے ہیں۔ جو حقیقت میں’ پریشر والیوز‘ یا ڈیم کی سپل وے کا کام کرتے ہیں۔ اور عوام کے ترجمان بن کر اپنے کالم کے ذریعے عوامی غبار کو نکلاتے رہتے ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ کالم عوامی مفاد میں نہیں لکھے گئے ہوتے ہیں۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا ایک اخباری کالم ہزاروں لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں اور ایک ٹی وی پروگرام کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں۔ جس کے ذریعے وہ عوام بالخصوص نئی نسل میں حقیقی انقلابی جذبات کو روکنے کی سازشیں کرتے ہیں ۔ جس کے باعث اس ملک میں حقیقی تبدیلی روکی ہوئی ہے۔ لیکن ان کے کالم و ٹاک شوز میں جاری سازشوں کی بدولت سیاست بدنام ہے، ریاست ناکام ہے لیکن آمریت کا بول بالا ہے۔ اور اصل یہ کہ عوام شعوری اور سیاسی طور پر مفلوج بنادی گئی ہیں اور وہ اپنے حقوق مانگنے سے قاصر ہیں۔ یہ اینکر سوات، فاٹا اور ملک کے دیگر علاقوں میں لائے گئے دہشت گردوں کے بارے میں کبھی بھی حقیقت نہیں بتاتے ہیں۔ آپرشن ضرب عضب کے بعد فاٹا کے اندر کیا ہورہا ہے۔ پشتونوں، بلوچوں، سرائیکیوں وغیرہ کے غضب شدہ حقوق اور اُ ن کے ساتھ جاری استحصال پراُن کے لب کبھی نہیں کھول پائیں گے۔ لیکن اگر کہیں پر کسی سیاستدان سے کوئی کمزوری سرزد ہوجاے تو ان کی کردار کشی کرتے یہ اینکر پرسنز تھکتے نہیں ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کو گمراہ کرنے ، اُن کے قومی حقوق پر پردہ ڈالنے اور حقیقی سیاسست و قومی لیڈرز سے دور کرنے میں ہماری میڈیا کا بہت ہاتھ رہا ہے۔
نئی نسل کو حقیقی تاریخ اور اپنی استعماریت کو مزید طول دینے کیلئے جہاں ہر چینل پر سلیم صافی، مبشر لقمان جیسے دیگر اینکرپرسنز بٹھائے گئے ہیں۔ وہیں ان چینلز کے ہر ٹاک شو میں آرمی سے ریٹائرڈ افسرز بطور تجزیہ کار گُھسا دئیے ہیں۔ جو اپنے علم اور معلومات سے خالی مگر زہریلی گفتگو سے سادہ عوام کو جمہوریت، سیاست اور حقیقی قومی لیڈرشیف کے بارے میں بدظن کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل مشرف کے دور میں افغانستان میں پشتونوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا مردان کاجہادی سلیم صافی کو میں سٹریم اردو میڈیا میں داخل کیا گیا۔ اس نے شروع شروع میں اپنے کالمز اور ٹی وی پروگرامز میں پشتونوں کے قوم پرست لیڈرز اور اُن کے اکابرین کی تعریفیں کیں اور اُ ن کے قصیدے بیان کیے۔ وہ یہ سب کچھ اس لئے کر رہے تھے کہ نئی پشتون نسل میں اعتبار پیدا کر سکیں اور اُن کی سوچ کو اپنی طرف مبذول کراسکیں۔
اس مرحلے میں جب وہ کامیاب ہوئے اور پشتون نوجوانوں کے دلوں میں اعتبار پیدا کرنے کے بعد سلیم صافی نے اب دوسرے مرحلے پر کام شروع کردیا ہے۔ جس کے تحت گزشتہ پی پی پی دور میں سلی عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی خان کو ہدف بنایا تھا اور آج پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیرمین محمود خان اچکزئی کی ذات کو نشانہ بنا رہاہے۔ اگر دیکھا جائے تو سلیم صافی کا ٹی وی پروگرام ہو یا جناب کا کالم، موضوع کوئی بھی ہو لیکن اُس میں محمود خان اچکزئی کی توہین اور اُن کے خلاف من گھڑت قصے لکھنا اپنا روایتی پاکستانی صحافتی فریضہ سمجھتے ہیں۔
سلیم صافی کی منافقت اور پشتون دشمنی کا اندازہ اہل شعور اس بات سے با آسانی لگاسکتے ہیں کہ سلیم صاحب مُلا عمر، اُسامہ بن لادن اور پشتونوں کے تباہی کے علمبردارمُلا عمر، حکیم اللہ محسود اور اور مولوی فیض اللہ کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور اُن کی حق میں ٹی وی پروگرام اور اپنے کالمز میں اُن کے بہادری کے قصیدے بیان کرتے رہتے ہیں لیکن پشتون لیڈرز کے خلاف نفرت کا اظہارکرتے رہتے ہیں۔ اب باشعور عوام کی ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہورہاہے کہ کیا اسفندیار ولی خان اور محمود خان اچکزئی اس کے آقاوں کے پالے ہوئے مُلا عمر اور اچھے و بُرے طالبان سے بھی بدتر ہیں؟۔وہ مُلا عمر، اُسامہ اور فیض اللہ جو پشتونوں کی تاریخ کو مسخ کرنے والے اور پشتون وطن میں ہر تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ جن کو اپ ہیرو اور نجات دہندہ سمجھتے ہو جبکہ محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی خان کو اپنا دشمن۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیم صافی حقیقی پشتون لیڈرز کی کردار کشی کرکے نئی نسل کو اُن سے بدظن کررہا ہے اور اس طرح قومی تحریکوں کو عوام میں غیر مقبول بنا کر ان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن یاد رکھیں ہماری یہ قومی تحریک مغلوں کے خلاف پیر روشان نے شروع کی تھی جو خوشحال خان، ایمل خان، میرویس بابا اور احمد شاہ بابا سے ہوتا ہوا باچا خان اور خان شھید کے کارکنوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس تحریک کو نقصان پہنچانے کیلئے اورنگ ہو، فرنگ ہو یا اُن کی موجودہ کالی رنگ ان سب نے ہر دور میں اخوند درویزہ جیسے پشتون دشمن لوگ پیدا کئے تھے جو کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔
♠
One Comment