رزاق کھٹی
کچھ لوگ آئے روز تو کچھ ہماری طرح سال میں ایک دوبار قلیوں کو ریلوے اسٹیشن پر اپنے آس پاس ضروردیکھتے ہیں۔ آپ کے پاس سامان سفر زیادہ ہو اور آپ دکھتے بھی خوشحال ہوں تو دوچار قلی آپ کے گرد جمع ہو ہی جاتے ہیں۔
’’صاحب جی ! کون سی ٹرین میں جانا ہے؟‘‘
’’ قراقرم میں؟‘‘
وہ پوچھتا بھی ہے اور اپنی طرف سے آپ کی منزل کی جانب جانے والی ٹرین کا اندازہ بھی لگاتا ہے۔ ہمارے جیسے اکثر کنگلے لوگ جن کا سامان بھاری اور جیب ہلکی ہوتی ہے وہ قلیوں پر جان بوجھ کر اس لیے بھی دھیان نہیں دیتے کہ اگر ان سے بات کی تو یہ گلے پڑ جائیں گے، انہیں بھی سو دو سو دینے ہی پڑجائیں گے، بہتر ہے کہ اپنے ہی کندھے کو آزماؤ ۔ اور کچھ دیر کیلئے صاحب سے قلی بھی بن جاؤ ۔۔کون دیکھتا ہے، اسٹیشن پر سبھی تو قلی بنے پھرتے ہیں!! ۔
’’ صاحب جی سارا سامان کمپارٹمینٹ کے اندر رکھ دوں گا، ٹکٹ دکھائیں کون سی بوگی ہے‘‘ وہ ایک ہی سانس میں ہم سے سوال کررہا ہوتا ہے، کیونکہ مسافروں کی آمد کے دوران اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا۔۔ اور ہم اس دوران خیال ہی خیال میں خود قلی بن کر اپنا سامان بوگی میں پہنچا بھی چکے ہوتے ہیں۔ وہ تین سو مانگتا ہے لیکن قالین بیچنے والے پٹھان کی طرح ایک دم آسمان سے زمین پر آجاتا ہے کہتا ہے چلیں پچاس دے دیں۔۔
’’ صاحب جی سچ پوچھو سب ہماری جیب میں نہیں جاتا ساٹھ فیصد تو ٹھیکیدار لے جاتاہے‘‘
ہم تھوڑی دیر کیلئے حاتم طائی کی ساتویں پیڑھی بن جاتے ہیں اور پچاس روپے کے عوض ان پر احسان کرتے ہیں۔ جب تک ٹرین آئے جب بھی وہ قلی ہمارے سامنے سے گذرتاہے تو وہ ہماری اس مہربانی کے احسان تلے خود کو دبا ہوا محسوس کراتا ہے۔
ہم نے کبھی بھی اس کا نام نہیں پوچھا وہ اپنے نمبر سے جانے جاتے ہیں۔ جس طرح قیدی جیل میں اپنے نمبر سے جانے جاتے ہیں!!
وہ سامان اٹھاتے ہیں، ویٹنگ روم یا باہر بنی سیٹ جہاں بھی آپ کو بیٹھنے کی جگہ مل جائے وہیں سامان بھی رکھ دیتے ہیں ۔ پھر اسی طرح اسٹیشن کے گیٹ پر کھڑے ہوجاتے ہیں، رکشا ٹیکسی یا کسی نجی گاڑی جیسے ہی سامنے آکر کھڑی ہو وہ وہی ورد دھراتے نظر آتے ہیں ۔
اچانک ریلوے اسٹیشن پر لگے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہو تاہے۔ ہم میں سے بڑی اکثریت اس اعلان کو سمجھ نہیں پاتی۔ لیکن اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے سامان کی طرف جھکتے ہیں،کچھ دوڑتے ہیں، کوئی کسی کو آواز لگاتا نظر آتاہے، اس دوران وہی قلی آپ کی طرف آتاہے آپ کو بتاتا ہے کہ گاڑی آرہی ہے۔
گاڑی جیسے ہی رکتی ہے تو ہر جگہ سے آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں، بھاگم دوڑ میں کوئی قلی آگے تو کوئی پیچھے دوڑتا دکھائی دیتا ہے۔ آپ جب قلی کے پیچھے ہوتے ہیں تو ان چند لمحوں کے لئے آپ کی نظر اس پر ہی ہوتی ہے۔ وہ ہے بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا ہے، بوگی میں داخل ہوا اور سامان رکھا اور پیسے لیے اور یوں گیا، کیونکہ ٹرین مختصر وقت کیلئے اسٹیشن پر کھڑی ہوتی ہے اس دوران اسے دیگر مسافر بھی نمٹانے پڑتے ہیں، ٹرین چلی جاتی ہے لیکن قلی وہیں رہتا ہے ایک اور ٹرین ایک اور مسافر کا انتظار کرتا ہے۔!!
قلی کی شناخت اس کا سرخ لباس اور نمبر ہے۔ سرخ لباس انقلاب کی علامت ہوتاہے لیکن قلی کے تن پر سجا سرخ رنگ اس کی زندگی میں کبھی بھی انقلاب کا سبب نہیں بن سکا۔ ملک کے تمام بڑے ریلوے اسٹشنوں پر قلیوں کا ایک خاندان بستا ہے، سرخ رنگ پہنے اس خاندان کی زندگی میں فاقے کوئی انہونی بات نہیں ، جیئے جانا تو ان کی عادت ہے، رات ہو یا صبح ان کا کام بوجھ اٹھانا ہے، ان اس بات کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ بوجھ بازو پر ہے یا کندھے پر ۔
لیکن اب کی بار محکمہ ریلوے نے ڈیڑھ صدی بعد قلی کے سرخ لباس کو تبدیل کرکے اسے سبز رنگ میں تبدیل کردیا ہے، اس لباس کے کالر، کف، شولڈر اور جیب کی پٹیوں کا رنگ زرد ہے۔ ان قلیوں کو پاکستانی بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ان کے حالات تبدیل کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں اس وقت خواجہ سعد رفیق جو ریلوے کے وزیر ہیں جماعت اسلامی کے سیاسی فکر سے زیادہ متاثر ہیں انہوں نے حال میں قومی اسمبلی میں بنگلادیش کی حکومت کی جانب سے مولانا مطیع الرحمان کو پھانسی دیئے جانے کے عمل پر ایسی دھواں دار تقریر کی کہ جماعت اسلامی کی ارکان کے منہ بھی حیرت سے پھٹے کے پھٹے رہ گئے، انہیں گمان ہونے لگا کہ مولانا سراج الحق بھی اتنی جذباتی تقریر نہیں کرسکتے جتنی سعد رفیق نے کی۔
سعد رفیق ن لیگ کے ان ارکان میں گنے جاتے ہیں جن کاشمار سیاسی کارکنان میں ہوتا ہے، وہ آج بھی جنرل مشرف پر اسی طرح کھل کر بولتے ہیں جتنا وہ مشرف کی ملک میں موجودگی کے دوران بولا کرتے تھے، اس وقت ملک کی ریل کی تمام باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہے، حاجی غلام احمد بلور جب ریلوے کے وزیر تھے تو تمام ٹرینیں ڈیزل ختم ہونے کے باعث بیچ راستے میں رک جایا کرتی تھیں ، اس لیے نہ ریل کبھی وقت پر اسیشن سے روانہ ہوئیں اور نہ کبھی وقت پر منزل پر پہنچیں، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، اب نہ صرف ٹرینیں وقت پر نکلتی ہیں بلکہ وقت پر پہنچتی بھی ہیں، ۔
شاید یہی سبب تھا کہ گذشتہ برس مولانا سراج الحق بھی لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے، یہ یکم مئی کا دن تھا، انہوں نے قلیوں کے ساتھ کھانا کھایا اور سر پر لال پگڑی بھی پہنی، ہمیں اچھا لگا کہ ساری عمر سرخوں کو گالیاں دینے والے ایک فقیر منش امیر جماعت اسلامی نے اس رنگ کو عزت دی جو دنیا کے مزدورں کو ایک ہونے کی دعوت دیتا رہا ہے۔ اس دن سرخ رنگ جیت گیا تھا۔ جماعت اسلامی کے اس امیر نے نئی روایات کی بنیاد رکھی ،اس کا سبب یہی تھا کہ جس طبقے سے ان کا تعلق تھا وہ ان کے پاس آئے تھے۔
اب خواجہ سعد رفیق نے قلی کے لال لباس کو تبدیل کردیا ہے، لیکن اس قلی کے حالات تبدیل کرنے کیلئے ہم نے ایسی کوئی بات نہیں سنی جسے سن کر اس بات کا احساس ہو کہ لال جوڑے والے قلی کی بیٹی کیلئے بھی لال جوڑے کا حصول آسان ہوجائے گا۔ اس کے بچے بھی تعلیم حاصل کرسکیں گے، قلی کا بیٹا قلی بننے کے بجائے کوئی اور بھی کام کرے گا۔ ٹھیکیدار سے ان کی جان چھوٹ جائے گی، جتنا بار وہ اٹھائے گا اس معاوضے کا مالک وہ ہی ہوگا، ٹھیکیدار بھوت بن کر اس کا پیچھا نہیں کرے گا۔ اسے سرکاری اسپتال میں کسی الگ کاؤنٹر سے دوائی مل سکے گی، وہ مرجائے گا تو انشورنس کی صورت میں اس کے لواحقین کو اتنا کچھ مل جائے گا کہ ان کے گھر کا چولھا جل سکے ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
ایک تاریخی لباس کی تبدیلی کے ساتھ تاریخی اقدامات بھی ہوتے تو بات بنتی، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پاکستان تبدیل ہو نہ ہو پاکستان کے قلی کا لباس تو تبدیل ہو ہی گیا، پھر بھی لوگ دہائی دیتے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کرتی!! ۔
♠
رزاق کھٹی اس وقت اسلام آباد میں اب تک ٹی وی میں سیاسی اور پارلیمانی امور کی رپورٹنگ کرتے ہیں، اس کے علاوہ سندھی روزنامہ سندھ ایکسپریس میں کرنٹ افیئر پر ان کے کالم شایع ہوتے ہیں۔ اور سندھی نیوز میگزین افیئر کیلئے بھی تجزئے لکھتے ہیں،۔