ناچ، گانا،موسیقی اور شراب، نقش نگاری،مصوری اور بت تراشی
برسراقتدار طبقے کواپنا نظام چلانے کے لئے
ڈاکٹر،انجینئر، سائنسدان،استاد،جج،وکیل، مکینک، افسر، کاشتکار اور مزدور کے علاوہ سپاہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے
ایک محفل میں مختلف پس منظر رکھنے والے افراد بیٹھے ہیں
ایک فوجی سپاہی، دوسرا پولیس اہلکار، تیسراپہلوان ،چوتھا بینکار، پانچواں پروفیسر
بحث کے موضوعات بدلتے رہتے ہیں کشمیر اور افغان جنگ پر بات چیت ہورہی ہے پولیس اہلکار، بینکار،معمار،پہلوان اور پروفیسر کی اس حوالے سے معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ فوجی سپاہی کشمیر، افغان اور سیاچن جنگوں میں حصہ بھی لے چکا ہے وہ آپ بیتی سنا رہا ہے اور دیگر افراد انہماک سے سن رہے ہیں وہ ایک ایک واقعہ یاد کرتا اور مرچ مصالحہ لگاکر سنا رہا ہے کبھی کبھار مبالغہ بھی کرتا ہے اور مسلسل بولے جارہا ہے۔
چوری،قتل اور اغواء کا ذکر چل پڑا ہے تو پولیس اہلکار کو موقع مل جاتا ہے وہ سب سے زیادہ جانکاری رکھتا ہے چنانچہ وہ بول رہا ہے اور سب ہمہ تن گوش ہیں
جب کشتی، کبڈی اور کھیلوں پر بات چیت کا دور چلتا ہے تو پہلوان اور کھلاڑی آگے ہوجاتے ہیں پروفیسر تعلیم و تربیت کی ملک و معاشرے کے لئے اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو وہ حاضرین محفل کے لئے اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔
جسمانی اور ذہنی محنت کرنے والوں میں ایک نمایاں فرق وامتیاز بھی نظر آتا ہے فوجی سپاہی ، پولیس اہلکار اور پہلوان اظہار خیال کے دوران ہاتھ یا پیر بھی ہلاتا ہے اپنی جانب توجہ کرانے کے لئے قریبی شخص کو ٹوکا بھی دیتا ہے اسے ہاتھ سے ہلاتا ہے اور پیٹھ پر ایک آدھ بار مکا بھی دے مارتا ہے ان کا طرز گفتگو جارحانہ انداز لئے ہوئے ہوتا ہے پروفیسر دھیمے لہجے میں آہستہ آہستہ اور ایسے انداز میں بولتا ہے جس میں دلیل اور ثبوت نمایاں نظر آتے ہیں
اس طرح ہمارے ذریعہ روزگار اور پیشہ کا ہمارے لباس،بات چیت، رہن سہن،تعلقات،صحت،رویے اور اخلاق سمیت ہر چیز پر اثر پڑتا ہے
آپ چارپائی میں لیٹے ہوئے ہو بچہ دبے قدموں آتا ہے اورپیر کے تلوے کو انگلی سے چھوتا ہے تو گدگدی ہوتی ہے یہ دماغ کو اطلاع دیتی ہے تو جلدی سے پیر اپنی جانب کھینچ لیتے ہو
میرے دوسالہ بھتیجے نے گرم توے کو چھونے کے لئے ہاتھ بڑھایا افراد خانہ نے منع کیا مگر وہ پھر اور پھر بڑھا تو میں نے کہا:
’’چھونے دو‘‘
اس نے چھوا اور اف اف کرتا ہوا ساتھ کے کمرے میں چلاگیا
راقم الحروف نے ٹوٹکوں کی ایک کتاب میں پڑھا
نظر تیز کرنا ہے تو رات سونے سے پیشتر پیر کے انگوٹھے کو سرسوں کے تیل سے مالش کرو
رفتہ رفتہ نظر تیز ہونا شروع ہوجائے گی
ذہنی تناؤ کا شکار تھا۔
میرے دوست ملک اختر منیر نے مجھے کاغذ پر دو فقرے لکھ دئیے اور بتایا کہ کمرے کی تنہائی میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاؤ اور پہلا فقرہ دہراؤ
میں صحت مند ہوں، میں ریلکس ہوں
اس کے ساتھ ہی اوپر کو سانس کھینچو اور روز یہ عمل دس مرتبہ دہراؤ اگلے مہینے دوسرا فقرہ اسی طرح کے عمل کے ساتھ دہراؤ
ملک صاحب نے مجھے مطالعہ کے لئے یوگا پر ایک کتاب دی جس میں تصاویر کے ساتھ آسن بھی تھے اور ان کے ذریعے بیماریوں کا علاج بھی بتایا گیا تھا
موسیقی، گانا اور ناچ جہاں تفریح کا ایک بڑااور اہم ذریعہ ہے وہاں تشکیل ذہن میں بھی ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے
موسیقی سے انسانیت کے اسباق بھی دئیے جاتے ہیں
اور جنگ و جدل اور خون ریزی پر بھی آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
جہاں موسیقی اور ناچ نہیں ہوتے ہیں یہ اس آبادی کے باسیوں کی خشک مزاجی اور جنگ جویانہ فطرت کو ظاہر کرتے ہیں
پختونوں اور انگریزوں کے مابین جنگ کے واقعات کا ذکر ملتا ہے ایک ایسی جنگ کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انگریز سات مرتبہ حملہ آور ہوا اور ہر مرتبہ اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا آخری بار وجہ معلوم کرنے پر مجبور ہوگئے تو معلوم ہوا کہ پختون فوج کو جوش دلانے کے لئے دوڈھول بجانے والے بھی موجود رہتے ہیں چنانچہ اگلی مرتبہ انگریز آفیسر نے چند سپاہیوں کو ان موسیقاروں کو نشانہ لگانے پر مامور کردیا آٹھویں معرکہ نے موسیقی کے اس پہلو کو بھی اجاگر کردیا
پختونوں میں مشہور ہے کہ بنوں کے ایک باسی کو ترسا ترسا کر مارنے کا ارادہ ہے تو اسے ایک درخت سے باندھ لو اور پھر اس کے روبرو ڈھول بجانا شروع کردو
راقم الحروف پہلی بار بنوں گئے تھے اور ایک بالاخانہ سے نیچے بازار کو دیکھ رہے تھے ایک جانب سے شادی کا دولہا اور شرکاء آرہے تھے ان کے آگے آگے ڈھول بجانے والے ڈھول بجارہے تھے تو ایک دکان سے بندے اٹھتے اور ڈھول کی تھاپ پر ناچنے لگتے اور پھر دوسری سے اسی طرح لوگ اٹھتے اور ناچنے لگتے۔
پختونخوا میں موسیقی کی اہمیت کا اندازہ ان دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے
بچوں کے آگے بھی ڈھول بجتا ہے توان کا ناچنا دیدنی ہوتا ہے
جنگ عظیم کے دوران جرمن موسیقار بیتھون کی موسیقی جرمن سپاہیوں کو گرماتی رہی جبکہ پاک بھارت جنگ کے دوران نورجہاں کے گائے ترانے بھی یہی کام کرتے رہے
شاید اسی لئے ایک مکتبہ فکر کی مخالفت کے باوجود موسیقی، گیت اور ناچ ہماری ثقافت اور تہذہب کا جزو لاینفک رہا ہے جبکہ اب تو ترقی یافتہ ممالک میں پودوں پر بھی موسیقی کے اثرات کے تجربات کئے جاتے ہیں اور یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مخصوص دھنوں کا ان پر خوشگوار اور ناخوشگوار اثرپڑتا ہے۔
کھانے پینے کا جہاں ہمارے جسم پر اثر پڑتا ہے اسی طرح ان کا گلے اور آواز بھی پڑتا ہے کہا جاتا ہے کہ حلواہ کھانے سے آواز میں بھاری پن پیدا ہوتا ہے اور شراب پینے سے انسان میں جرات اور ہمت پیدا ہوتی ہے
اسے جرات رندانہ کہتے ہیں۔
راقم الحروف لڑکپن اور جوانی میں خاموش طبع واقع ہوئے تھے چنانچہ انٹر کیا اور پہلی مرتبہ ایک انٹرویو کرنے گئے تو ایک دو پیک پی لئے۔
موسیقی،ناچ ، گیت ،یوگا،ورزش اور شراب کا ہی فقط جسم اور ذہن پر اثر نہیں پڑتا ہے بلکہ خطاطی،نقش نگاری،مصوری، صنم تراشی اور رنگوں کے بھی جسم اور ذہن پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
طب کے حوالے سے ایک مضمون میں رنگوں کے ذہن پر اثر کے بارے میں پڑھا تھا ریسٹورنٹ کے ایک کمرے میں جو بندہ بھی کچھ عرصہ قیام کرتا تو اسے بیماری کی شکایت پیدا ہوجاتی تھی بالآخر ایک ڈاکٹر نے وجہ معلوم کرنے کی ٹھان لی تو اس نے کمرے کا رنگ تبدیل کرانے کا مشورہ دیا۔
انڈیا کی فلم ’’آوارہ‘‘ کے ایک گیت میں ہیرو خواب دیکھتا ہے اور اس دوران بڑے بڑے مجسمے دکھائے گئے ہیں گیت کے بول اور ان بتوں کے سنگم نے گانے میں جان ڈال دی ہے
چونکہ ورزش،یوگا، موسیقی،گیت، ناچ،شراب، مصوری،نقش نگاری،رنگوں اوربتوں کا ذہن اور جسم پر اثر پڑتا ہے ان سے جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا علاج بھی کیا جاتا ہوگا تو کیا مخصوص ورزشوں سے انسان کو بے وقوف اور کند ذہن بنانے کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔
جب ایک طالب علم قتل،چوری،گرفتاری،تفتیش،مقدمات اور جاسوسی کہانیاں اور ناول پڑھتا ہے تو اس کا رحجان عدالت ، وکالت،پولیس،خفیہ ایجنیسوں اورپراسرار واقعات کی طرف رہتا ہے۔
جو بچہ مذہبی کتب اور ساتھ ہی تاریخی اورجنگ وجدل،سپہ سالاروں،فتحوعات ،بادشاہوں اورشہزادوں کے کارناموں میں دل چسپی کا اظہار کرتا ہے تو اس کی بول چال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی دل چسپیوں کا محور و مرکز کیا ہے
موسیقی،ناچ ، گیت ،یوگا،ورزش ، شراب ،خطاطی،نقش نگاری،مصوری، صنم تراشی اور رنگوں کے علاوہ ایک انسان کی صحت اورعمربھی اس کے سلوک اور رویے میں کردار ادا کرتی ہے
ایک بوڑھا عموماً صلح جو اور مصالحت پسند ہوتا ہے وہ نوجوانوں کی مانند جلد غصہ میں نہیں آتا ہے جہاندیدہ ہوتا ہے چنانچہ اس کے خیالات میں بھی ٹھہراؤ پایا جاتا ہے ملک کا ہمسایہ بھارت سے تنازعہ چل رہا ہے اور جنرل ان کو کہتا ہے
’’بوڑھے سپاہیو! جنگ کے لئے کمر کس لو
صبح تاریکی میں حملہ آور ہونا ہے اور دشمن کے دانت کھٹے کرنے ہیں‘‘
ایک بوڑھا کہتا ہے:’’ چھوڑو یار! لڑنے جھگڑنے سے کیا ملے گا،خون خرابہ ہوگا کچھ ان کے اور کچھ ہمارے لوگ جان سے جائیں گے کیوں نہ کچھ دو اور کچھ لو پر عمل کیا جائے‘‘
دوسرا کہتا ہے:’’بھئی! مجھ سے نہیں لڑا جائے گا لگتا ہے جنرل صاحب کا دماغ چل گیا ہے ہم بھلا کتنے عرصے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں ہمیں اس سے کیا ملا حاصل وصول کچھ نہیں اور بالآخر کب تک لڑتے رہیں گے‘‘
یہی وجہ ہے کہ فقط فوج میں ہی نوجوانوں کو بھرتی نہیں کیا جاتا ہے بلکہ عسکریت پسند بھی ان کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔
بالآخر نوجوان ہی کیوں؟
کیونکہ ان کی سوجھ بوجھ کم ہوتی ہے جذبات ان پر غالب آجاتے ہیں وہ صحت مند اور تکڑے ہوتے ہیں جہاندیدہ نہیں ہوتے ہیں ان کی زندگی کے تجربات ابھی ناپختہ اور کم ہوتے ہیں علاوہ ازیں،جسمانی طاقت کے اظہار کا شوق بھی ہوتا ہے مگر ہر علاقہ کے نوجوان کو اس طاقت کو آزمانے سے لگاؤ نہیں ہوتا ہے شہروں کی نسبت دیہات کے نوجوان بھرتی ہوتے ہیں
دیہات کے ایک غریب باسی کو پیدا ہوتے ہی مارپیٹ کے ذریعے ادب آداب سکھائے جاتے ہیں عمر کا تفاوت دکھا کر تابعدار اور فرمانبردار بنایا جاتا ہے
اس کے علاوہ
اظہار خیال اور اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے
سخت جسمانی محنت سے بدن مضبوط ہوجاتا ہے چنانچہ بات چیت کے ذریعہ تنازعہ کا حل تلاش کرنے کا فقدان اوریہ ورزشیں اس کے ذہن کو چھوٹا اور جسم کو تکڑا بنادیتی ہیں
دیہہ کی غربت ، بے جا پابندیاں، بے روزگاری، گھریلو تنازعات اور کھچاؤ ذہن کو پریشان رکھتے ہیں تو یہ تمام عمل ایک نوجوان میں غصہ بھر دیتا ہے اور اس حالت میں انسان کا ذہن کام چھوڑ دیتا ہے یا پھر وہ کھوپڑی سے زیادہ ہاتھ پاؤں سے کام لینے لگتا ہے
گاؤں کے ماحول میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
بات چیت کے دوران
نوجوان قریب بیٹھے ساتھی کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اسے ہاتھ سے تھپکی دیتا ہے کندھے پر ٹوکا دیتا ہے یا بہ آواز بلند اپنی طرف توجہ کراتا ہے۔
اس نوعیت کے حالات انسان کو ہی نہیں بلکہ جانور کو بھی کچھ سے کچھ بنا سکتے ہیں کہا جاتا ہے کہ بلی بے بس ہوجاتی ہے تو وہ انسان پر بھی حملہ کردیتی ہے خرگوش اپنے بچوں کو پیروں تلے کچل دیتا ہے اور کتے کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جائے تو وہ ہر ایک پر بھونکتا اور کاٹنے کو دوڑ پڑتا ہے۔
یہ دیہات کا مخصوص ماحول ہی ہوتا ہے کہ اس کے باسیوں کا رحجان فوج میں بھرتی کی طرف رہتا ہے
اگر موسیقی،ناچ،گیت،خطاطی، نقش نگاری،مصوری، بت تراشی اور مطالعہ سے ذہن سازی ہوتی ہے رات کو پیر کے انگوٹھے پر تیل لگانے سے نظر تیز اور پیر کو تیلی یا انگلی سے چھونے سے گدگدی ہوتی ہے تو مخصوص ورزشوں سے ذہن کو کند، بے وقوف اور جنگ پر آمادہ بھی رکھا جاسکتا ہے
جب پیر کے تلوے کو باربار اور زور دار آواز کے ساتھ زمین پر پٹخہ جاتا ہے تو جسم اور پٹھوں پر ہی نہیں اس کا ذہن اور دماغ پر بھی اثر پڑتا ہوگا
پاکستان میں کئی اخبارات اور چینلز ہیں جن کو تین حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔
پیسہ کمانے کا ذریعہ
حالات کو جوں کا توں رکھنا
عوام کو آگاہی اور شعور دینا
بلاشبہ، ترقی یافتہ ممالک کی مانند پاکستان میں بھی تعلیم اور تعلیمی ادارے موجود ہیں اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی ہیں مگر اس کے بالادست طبقات عوام کو محنت کش اور صابر دیکھنا چاہتے ہیں اسی طرح یہاں کی سڑکوں، چوکوں اورتعلیمی اداروں کی دیواروں پرپروفیسر وں ،موسیقار وں،فلاسفروں ،مصوروں اور سائنسدانوں کے نام کم اور شہداء کے زیادہ نظر آتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ اس ملک کے نوجوانوں سے کیا بنانا چاہتا ہے۔
♠