عظمٰی اوشو
قصور کے بچوں کے ساتھ پیش آنے والا شرمناک واقعہ نے چند سال قبل لاہور میں اس سے ملتے جلتے واقعہ کی یا د تازہ کر دی ہے ۔چند سال قبل لاہور کی ایک گنجان آبادی میں ایک ایسا د لخراش واقعہ سامنے آیا تھا جسے سن کر انسانیت منہ چھپاتی پھر رہی تھی ۔اس وقت الیکٹرانک میڈیا اتنے طمطراق سے موجودہ نہیں تھا ۔لاہور کے علاقہ راوی روڈ میں جاوید اقبال نامی شخص کہ گرفتارکیا گیا جس نے 100سے زائد بچوں کو زیادتی کے بعد تیزاب کے ڈرموں میں ڈال کر قتل کر دیا ۔
میں ان بد نصیب جرنلسٹوں میں سے تھی جو سب سے پہلے اس واقعہ کی رپورٹ کرنے جائے وقوعہ پر پہنچے تھے ۔اتنے برس بیت جانے کے باوجود میں اس واقعہ کی وحشت سے جان نہیں چھڑاسکی ۔لاہور کی گنجان آبادی میں واقعہ ایک تین مرلہ کی مقتل گاہ جس میں ایک عرصہ تک ایک گھناونا کھیل کھیلا جاتا رہا مگر محلے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور فرض شناس پولیس جو کسی مرد عورت کہ اکٹھے دیکھ کر فوری طور پر نکاح نامہ مانگنے چلی آتی ہے ایسے واقعات سے اکثر بے خبر ہی رہتی ہے ۔
میری نا قص رائے کے مطابق ہم دوسروں کی ٹوہ میں رہنے والی قوم ہیں خاص طور پر پنجاب میں یہ ایک سماجی رویہ ہے میں کیا کررہا ہوں کوئی نہ پوچھے دوسرا کیا کر رہا ہے یہ جاننا میرا حق ہے مگر اپنی اس خصوصیت کے باوجود سب جاوید اقبال کی درندگی سے بے خبر رہے ۔اس تین مرلہ کی مقتل گاہ میں میں نے جو دیکھا وہ انتہائی شرمناک تھا کمروں کی دیواروں پر برھنہ تصاویر تھیں بے شمارجوتے تھے جو ان معصوم بچوں کے تھے جو ایک وقت کی روٹی ،رات کاٹنے کی جگہ یا کام کی تلاش میں اس مقتل گاہ تک آئے تھے جا بجا جنسی ادویات کے خالی پیکٹ بکھرے تھے صحن اور باتھ روم میں تیزاب کے ڈرم تھے جس میں چندبچوں کے جسم کے ٹکڑے تھے جن سے بہت تعفن اٹھ رہا تھا ۔
اس واقعہ پر چنددن شور مچا جاوید اقبال نا می درندہ گرفتار ہوا اور پھر ایک دن خبر آئی کہ اس نے پولیس کی حراست سے فرار ہو کرخود کشی کر لی ہے ۔اور 100کے قتل کو یوں دبا دیا گیا جسے وہ بچے نہیں اس زمین پر رینگنے والے کیڑے تھے ۔جاوید اقبال کے معاملے میں جنسی ہوس کے علاوہ بھی کچھ عناصر شامل تھے۔ ایک اطلاع تھی کے بچوں کو زیادتی کے بعد خلیجی ممالک میں بیچ دیا جاتا ہے اس گھناونے کھیل میں کچھ بڑوں کے نام سامنے آنے کا خطرہ تھا سو اس وقعہ پر مٹی ڈال دی گئی۔
اور اب قصور میں پیش آنے والا واقعہ جس کی بازگشت ہرجگہ سنائی دئے رہی ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ واقعہ کا انکشاف ہونے کے بعد پنجاب گورنمنٹ اور پنجاب انتظامیہ کے تین موقف سامنے آ چکے ہیں۔
وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ بے بنیادہے اور اس کے پیچھے زمین کا تنازعہ ہے یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ واقعہ کا ایک ملزم 49کنال سرکاری ارازی کی خریداری کے تنازع میں ملوث ہے مگر اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ پورے گاؤں کے لوگوں نے اپنے بچوں کہ اس اراضی کے تنازعہ کی وجہ سے تماشہ بنادیا بچوں کی تعداد کے حوالے سے مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے مگر کیا کسی ایک بچے کے ساتھ ایسا گھناونا کھیل قابل مذمت نہیں ہے ۔رانا ثنا اللہ نے فرمایا ہے البتہ آٹھ سال قبل ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا ۔
دوسری طرف پنجاب پولیس کے آر پی او شہزاد اور ڈی پی او بابر سعید فرماتے ہیں کہ مظلومین کوبچے قرار دینا غلط ہے کیونکہ وہ ٹین ایجر تھے اور ساتھ ہی فرماتے ہیں تمام بچوں کی عمریں 15سال سے کم ہیں مگریہ احسان دونوں صاحبان نے ضرور فرمایا کہ اس واقعہ کا اقرار کر لیا ۔ان کا کہنا ہے یہ گھناؤنا کھیل پچھلے سات سال سے کھیلا جا رہا ہے مگر بچوں کے والدین اسے رپورٹ اس جون سے کرنا شروع کیا ہے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جس انکوائری کمیشن کا نام لے کر رانا ثنا اللہ اس واقعہ سے انکاری ہوئے ہیں اس کے ایک ممبر کمشنر لاہور عبداللہ خان سنبل نے بین الااقومی میڈیا کو بتایا ہے کہ انہوں نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ اس واقعہ کی جامع تفتیش ہونی چاہیے۔
کمشنر لا ہو ر کا کہنا ہے کہ حسین والا میں اس طرح کے واقعات گذشتہ آٹھ سال سے ہو نے کے شواہد ملے ہیں ۔ان تمام بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب گورنمنٹ ایسے معاملات کی روک تھام میں کتنی سنجیدہ ہے ۔ سنجیدگی محض ایک کمیٹی تشکیل دے کر دکھائی جاتی ہییا ابتدائی چند ایک شواہد اکھٹے کرنے کے بعد سو جاتی ہے اور پھر کسی اور واقعہ کا انتظار کیا جاتا ہے ۔
حکومت نے ریپ کے کیسزز کو دہشت گردی کی دفعات میں شامل نہیں کیا جبکہ اس کی اشد ضرورت تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر روز اندازاً 4عورتیں ریپ ہوتی ہیں اور پنجاب اس میں سب سے آگے ہے۔ عورت فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق سال گزشتہ میں سندھ کی 85عورتیں اور پنجاب کی 1408عورتیں گینگ ریپ کا شکار ہوئی ہیں۔ اسی طرح 5سے15سال کی عمر کے دس بچے روزانہ زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے 67فیصد واقعات دیہاتوں میں اور 33 فیصد شہروں میں ہوتے ہیں جس کی بڑی وجہ دیہاتوں میں مل جل کر رہنے کا رجحان ہے۔ مشاہدے کے مطابق 75فیصد بچے اپنے قریبی رشتے داروں ،پڑوسیوں اور جاننے والوں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں ۔
گینگ ریپ اورریپ کے واقعات میں پہلے نمبر پر آنے والے پنجاب میں قانون کی عملداری کے سارے پول کھل گئے ہیں ۔قصور میں ہونے والا واقعہ جہاں دنیا بھر میں ہماری اخلاقیات کی پستی کی داستان سنا رہا ہے وہاں وزیر اعلیٰ کی پولیس اصلاحات اور آزاد عدلیہ کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ ہے۔ آج فلسطین کے بچوں پر نوحہ پڑھنے والے اپنے بچوں کی تذلیل پرکیا کہتے ہیں؟ کیا اس اخلاقی بحران پر قابو پانے کی کوئی ترکیب ہے؟ کیا یہ محض مغرب کو گالی دے کر اور دین سے دوری کا گیت الاپ کر ہی بری الذمہ ہو جائیں گے؟
دین سے دوری کا نوحہ پڑھنے والے اس حقیقت سے نظریں کیوں چراتے ہیں کہ زیادہ تر بچے مسجد اور مدرسوں میں ریپ ہوتے ہیں کبھی کسی نے سنا کہ کوئی بچہ کسی ایسے سکول میں زیادتی کا نشانہ بنا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مغربی تقلید کرتے ہیں۔ ہم جس طرح کی اخلاقی پستی کا شکار ہیں اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی مگر دنیا کو اخلاقیات کا درس دینے کے ہم سب سے بڑے ٹھیکیدار ہیں عبادت میں سب سے آگے اور اخلاقیات میں سب سے پیچھے ۔میڈیا ، والدین، اساتذہ سب اپنے فرائض سے غافل۔ استاد نے خود کو نوکری تک محدود کر لیا ہے۔
بچوں کی شخصی تعمیر میں استاد کا کوئی رول نہیں رہا مسجد کا خطیب یا مولوی جنت اور دوزخ کے چکر سے ہی نہیں نکلتا کبھی کسی مسجد سے جمعہ کے خطبہ میں انسانی حقوق کا درس نہیں دیا گیا ،والدین بچوں کی تربیت میں دوسرے انسان کے کیا حقوق ہیں کا درس دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ ماں کی تربیت ماں کے قدموں میں جنت ہے سے شروع ہو کر وہاں ہی ختم ہو جاتی ہے ۔میڈیا سوائے سیاست دانوں کی پگڑیاں اچھالنے کے اور کوئی کام نہیں کرتا۔
آج تک کسی چینل نے بچوں کو جنسی ہراسیت سے بچاؤ کے حوالے سے کوئی پروگرام شروع نہیں کیا ۔گھروں میں مرنے کے بعد کیا ہوگا پر لیکچر دیا جاتا ہے مگر جیا کیسے جائے گا یہ بتانا پسند نہیں کیا جاتا ۔جنس پر بات کرنا بے شرمی کے زمرے میںآتا ہے تو ایسی صورت حال میں ایک ایسے پلان کی ضرورت ہے جس سے ہماری اخلاقیات بلند ہوں اور ہم اپنے بچوں کے قہقے سن سکیں مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ۔