حیدر چنگیزی
انسان کی سوچ ، غور و فکر ، تحقیق ،انسانی شعور اور ان تمام کو یکجا کرنے کے بعد انسان میں پیدا ہونے والی بیداری کو ہی انسانی معاشرہ اور انسانی ترقی کی ارتقاء کا بنیادکہا جاتا ہے۔تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک کہ اُس میں شعور، آگاہی اور بیداری نہ ہو۔
شعور ، آگاہی اور بیداری سے مرُاد ہر قسم کی آگاہی و شعور چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی ، معاشرتی ہو یا ضمیری یا پھِر نفسانی، پس انسان کے ہر امور اور حالات سے ہمیشہ باخبر اور اسُ کے بارے میں مکمل تحقیق اور آگاہ ہونے کے عمل کو شعوری بیداری کہتے ہے اور اسیِ عمل کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی انسان حالات کو اپنے قابو میں کر کے اسےِ اپنی سمت کھینچ سکتا ہے۔
انسان کی اسیِ شعوری بیداری سے متعلقہ ایک روایت ہے جسے ہمارے ایک قابلِ احترام استاد ہمیشہ ہمیں بیدار رہنے کیلئے بطورِ نصیحت سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پرُانے زمانے میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا ایک دن بادشاہ کے کچھ خاص مشُیراور وزیربادشاہ کے سامنے حاضر ہوئے اور انُہیں خبر دی کہ آپ کے ماتحت رعایا اتنی سسُت، آرام طلب اور خود پسند ہو چکی ہے کہ نہ صرف ایک دوسرے سے بلکہ ریاست کے تمام معاملات ، قوانین اور امور سے بے شعور و بے خبر ہو کر اپنے کاموں میں مگن ہیں جو کہ آپ کے حکومت کیلئے ٹھیک نہیں۔
بادشاہ پریشان ہو کر اپنے وزیروں کو جلد از جلد اس مسئلے کا حل دریافت کرنے کا حکُم دیا۔ کچھ دِنوں بعد وزیر صاحبان بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوئے اور مسئلہ کا حل تجویز کرنے لگے۔ انُہوں نے بادشاہ کو شہر کے تمام داخلی اورخارجی راستوں کے مین دروازوں پر دو دوسپاہیوں کا پہرا دینے اور شہر میں آنے اور جانے والے ہر شخص کودو دو ڈنڈے مارنے کی تجویز پیش کی۔بادشاہ بہت حیران ہوا لیکن وزیروں کی اس تجویز کی تائید کرتے ہوئے حکمُ نامہ جاری کیا۔
کچھ ہفتے گزرنے کے بعد حالات میں تبدیلی نہ پاکر بادشاہ نے اپنے وزیروں کو بلُایا اور ان کی اسِ تجویز کو ناکام قرار دے کر نیا حل ڈھونڈنے کا حکمُ دیا۔ وزیرصاحبان کچھ دیر کی مشاورت کے بعد اسُی تجویز میں تغیر کرنے کی درخواست کی کہ ڈنڈوں کی تعداد کو 2کے بجائے اضافہ کر کے10 کیا جائے۔یوں یہ حکم بھی جاری ہوا اور شہر میں آنے اور جانے والے ہز شخص کو10,10 ڈنڈے کھانے پڑے۔ابھی کچھ ہی دن ہی گزرے تھے کہ بادشاہ سے کچھ لوگ ملنے کیلئے محل میں آگئے۔
بادشاہ نے ان کو ملنے کی اجازت دی اور ملاقات کی وجہ دریافت کی، بادشاہ دل ہی دل میں خوش ہوکر سوچ رہا تھا کہ اسِ مرتبہ انُ کا یہ حربہ کام کر گیا اور لوگ بیدار ہوکر اسِ جبر کی وجہ دریافت کرنے آئے ہونگے لیکن اس کو سن کر بہُت مایوس ہوا۔ انُہوں نے اسِ ظلم و جبر کی بناِ وجہ پوچھے نہایت مودبانہ انداز میں ارض کرنے لگے کہ بادشاہ سلامت! آپ ہمارے حاکم ہیں، ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور آپ جو بھی اقدام لے رہے ہے ، وہ یقیناََ ہماری خیر اور بہتری ہی کیلئے ہی ہوگا۔ بس آپ سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ شہر کے دروازوں پر کھڑے سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیونکہ 10ڈنڈے فی کس کھانے کیلئے اچھا خاصا وقت لگتا ہے اور دو سپاہیوں کی کم تعداد کی وجہ سے شہر کے دروازے پر شہریوں کی لمبی قطار انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں جس سے وقت کابے حد ضیاع ہوتا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نہایت مایوس ہوا اور اسِ بیداری کے مُہمِ سے دستبردار ہونے کا ارادہ کیا۔
اب اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور ہم پاکستانی عوام کی حالت بھی کچھ اسیِ کہانی سے ہی ملتی جلتی ہے۔ ہم بھی اتنے کاہل، سسُت اور اپنی زندگی کی آسائشوں میں اتنے کھو گئے ہیں کہ ہمیں اپنی خود کی حالت بدلنے ، سوچنے اور اپنی مستقبل کو تاریکیوں سے نکالنے کی بھی فرُصت تک نہیں۔ہمارے ہاں کبھی سیاست کے نام پر لوگوں کو تقسیم ، الجُھایا اور دھوکہ پہ دھوکہ دیا جارہا ہے تو کبھی اسلام کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم رکھ کراور ہمیں قربانی کا بکرا بنا کرقتل اور لوگوں میں نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے لیکن ہمیں اسِ بات پر غور و فکر کرنے کی فرُصت ہی نہیں۔
بجلی کی بلاوجہ ، بے وقت اور نہ ختم ہونے والی لوڈشیڈنگ، گیس کی بندشِ، پانی اور غذا کی قلتِ اور کمر توڑ مہنگائی پر خاموش رہنا، لاء اینڈ آرڈر اور تحفظ کے نام پر شہریوں کو بلاِ وجہ تنگ اور ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرنا، ریاست کی چوکیداری، پائیداری اور تحفُظ کے نام پر آمروں اور جرنیلوں کا آئین کی خلاف ورزی اور بعد میں اسےُ مکمل طور پر یکطرفہ بنانا ، اسلامائزیشن کے نام پر حدود آرڈیننس جیسے فضول نظام اور طالبان کو جنم دینا ۔
بعد میں اسیِ طالبان کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرکے دھماکے کرانا اوربے گناہ معصوموں کی جان لینا، اپنے وسائل ، پرا پرٹی اور زمین پر ناجائز قبضہ ہونے کے بعد اپنے حق اور انسان کیبنیاد ی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اُٹھانے والے لوگوں کو باغی اور غدارٹھہراکر انُہیں لاپتہ کرا نا اور بعد میں انکی مسخ شدُہ لاشیں پھینکنا ، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جنِ کو ہم درک کرنے سے مکمل قاصرِ ہیں ۔
ہم میں سوچنے سمجھنے، غوروفکر کرنے اور تحقیق کرنے کی صلاحیت دن بہ دن ختم ہوتی جا رہی ہے اور ہم جنگل کے جانوروں کی مانندِ زندگی بسرَ کرنے میں ہی لطُف اندوز ہو رہے ہیں کیونکہ ہمیں نہ اسِ ملُک ، نہ اپنی اور نہ ہی اپنے آنے والی نسلوں کی فکرِ ہیں۔ہمارا ملُک اگر پیچھے چلا جارہا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، اگر پاکستان میں غنُڈوں، لٹُیروں، ڈاکوؤں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا متواترِ حکومت آرہا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، اگر ہماری آئین کو توڑ کر آمروں نے لوٹ مار کا بازار گرم رکھا ہوا ہے تو اسِ کی ذمہ داری سراسر ہما رے اوپر عائد ہوتی ہیں کیونکہ ہمیں اپنے آئینی حقوق کا علمِ ہی نہیں اور نہ ہی ہم اسکا علمِ رکھنا چاہتے ہیں جو کہ بڑے شرم کی بات ہے۔
جب ہم اپنے اردِ گردِ کے حالات و اقعات ، انُ واقعات کے رونما ہونے پر تحقیق ، غور و فکِر اور اپنے بنیادی حقوق و آئین سے خبر نہیں ہونگے اور جب تک ہم غلط کو غلط اورصحیح کو صحیح نہ مانے او نہ جانے گے، تب تک ہمارا ملُک ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ اسیِ لئے ہمیں اسِ طویل خوابِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے شعور کو بیدار کرکے ہر ملُکی ، معاشرتی، سیاسی و مذہبی معاملات سے آگاہ رہنا چاہیے تاکہ ہم نہ
صرف اپنے ملُک کو ڈوبنے سے بچا سکے بلکہ اپنی اور اپنے آنے والے نسلوں کی مستقبلِ کو بھی روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے کیونکہ آج تک خدُا نے اُس قوم کی حالت نہیں بدلی جب تک اسےُ خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔
♠
2 Comments