دوسرا حصہ
انسانی اختیار اور مجبوری کی حدیں جو دین اسلام نے مقرر کی ہیں اور علمائے کرام نے ان کی تشریحات اور توجیہات بیان کرنے کی کوششیں کی ہیں ان کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا جا سکتا۔قرآن حکیم نے جبر واختیار کے بارے میں اپنا واضح موقف قائم کیا ہے کہ انسان نہ تو مکمل طور پر اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی مجبور محض ہے۔ایک طرف گیارہ جہتی بے کنار ا ور لامحدود کائنات جس کو انسانی عقل سمجھ نہیں سکتی اور دوسری طرف انسان کی ذاتی اور معاشرتی زندگی جس کو بہتر سے بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے کے بارے میں قرآن کی واضح تعلیمات ہمیں ملتی ہیں۔
ا گرچہ علمائے کرام کی تفہیم اور تشریحات سے تعرض کیا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم انسان کو بالکل آزاد ارادے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس کو دو واضح راستے دکھا دیتا ہے کہ ان میں سے جس کا چاہو انتخاب کرلو اور وہ بھی قوانین اور قاعدوں کی پابندی کرتے ہوئے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’ ہم نے اس کو راستہ دکھلا دیا ہے چاہے تو شکر گزار رہے اور چاہے تو نا شکر گزار بن کر رہے ‘‘۔دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے ہم نے اس کو دونوں راستے دکھا دئیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ انسان خلقی طور پر صاحب ارادہ ہے وہ دونوں یعنی بدی اور نیکی کے راستوں میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکتا ہے وہ مجبور محض نہیں صاحب ارادہ اور مہم جو ہے۔
’’ اور جو لوگ ہمارے معاملہ میں جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں‘‘۔’’ جو کوئی اس کی طر ف رجوع کرتا ہے وہ اس کو اپنی طرف ہدا یت دیتا ہے،، ایک طرف انسان کو اچھے اور برے اعمال میں اس نے آزادی دی ہے مگر دوسری طرف آپنی قدرت اور طاقت کا بھی اظہار کرتا ہے۔’’ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے‘‘۔مگر یہ بات محل نظر رہنی چا ئیے کہ رحیم و کریم ہو نا اس کی دوسری صفات پر برتری رکھتی ہیں۔’’ اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے ‘‘جس میں اس کی کوشش کے ساتھ ساتھ فضل خاص بھی شامل ہوتا ہے‘‘کوشش اور فضل ہر جگہ اکھٹے نہیں ہوتے۔’’جو برا عمل کرے گا اسی کے مطابق اسی کو بدلہ ملے گا‘‘۔
’’ہر شخص اپنی کمائی کے بدلے رہن ہے‘‘ اور تیرا رب اپنے بندوں کے لئے ہر گز ظالم نہیں ہے،،تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے تمہارے اپنے ہا تھوں کی کمائی ہے یہ کہ قدرت ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔خبردار خلق بھی اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا۔آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی پاس ہیں جس کے لئے چاہتا ہے،رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے نپا تلا کر دیتا ہے۔ کہو اختیار بالکل اللہ کا ہے۔۔۔خیر کی ابتدا انسان کی جانب سے اور تکمیل خدا کی جانب سے ہے۔اس کو فجور اور تقوٰی دونوں کا الہامی علم دیا۔ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے۔
اس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا لیکن وہ دیکھتا ہے کہ اعمال میں تم سے بہتر کون ہے۔تم پر تم سے سرزد غلطیوں کا الزام نہیں مگر معاملہ نیتوں کا ہے۔اللہ تعالیٰ تم سے ضد شکنی کی باز پرس نہیں کرے گا بلکہ ان ارادوں کو دیکھے گا جو تمہارے دلوں میں ہے۔جس دن تمام رازوں کو کھول دیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت آپ نہیں بدلتے۔ ارتقا و تبدیلی کے زمرے میں ارشا د ہے ۔کل یوم ھو فی شان۔،، ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔
با ئبل میں اس حوالے سے کچھ اس طرح مرقوم ہے۔ خدا نے انسان کو اپنے تصور میں پیدا کیا۔ بر عکس جانوروں کے اور ہمیں اپنے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار دیا اور ہم اپنے خالق سے انصاف اور محبت جیسی صفات میں مشا بہ ہیں اور خدا کی طرح ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں۔۔۔ ہما ری کامیابی اور نا کامی کا انحصار پہلے سے ہماری قسمت میں مرقوم نہیں ہے اگر ہم کسی مشکل پر قابو پانا چاہتے پیں تو سخت محنت سے کام لینا ہوگا،جہاں تک ہما رے ہاتھ پہنچ سکتے ہیں۔ ۔۔ خدا لا محدود طاقت کا مالک ہے لیکن ہر چیز کو کنٹرول کرنے میں وہ اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے‘‘۔
قرآن حکیم دوسرے مذاہب اور مثالیت پسندوں یعنی متصوفانہ نظریات کے بر عکس نہ خالصتاًجبریت کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی مکمل قدریت کی بلکہ اس سلسلے میں اس کا موقف متوسطین قدریہ کا ہے،جس میں انسان کے ارادے کی آزادی کے راستے میں بھی رکاوٹیں حائل نہیں ہوتیں اور نہ ہی جبریت کے زیر اثر وہ تقدیر پرست بن کر رہ سکتا ہے۔جبر کو کوشش اور جدوجہد کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے اور حد ادراک سے پرے کھوج لگانے پر پابندی تو عائد نہیں کی گئی،لیکن اس معاملہ میں توکل اور صبر سے کام لینے کی ہدایت کی گئی ہے،جس کا تعلق فلسفیانہ مسائل سے ہے،کیونکہ ایسے مسائل کے جوابات کا کھوج لگانے میں خاطر خو اہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
جیسے کائنات کا آغاز و اختتام،موت و زندگی کی حقیقت، کائنات کی وسعتوں کا اندازہ، روح و بدن کا مسئلہ اور خدا کے وجود اور عدم وجود کے بارے میں تجربی اور سائنسی بنیادوں پر تجربی تصدیقات جیسے مسائل جسے ہمارا علمی دامن خالی ہے،جس کو ایمان بالغیب سے منسلک کر دیا گیا ہے،اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ جدوجہد اور کوشش کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر کو ئی جامد شے نہیں ہے ،کوشش سے بدل جاتی ہے۔قرآن نے انسانی نیتوں کو اعمال پر ترجیح دی ہے،کیونکہ ہر کام میں نیت کو بنیا دی اہمیت حاصل ہے۔ نیک نیتی اعمال وکردار کی ہیت کو تبدیل کر دیتی ہے جسے حسن عمل پیدا ہوتا ہے اور حسن عمل معاشرے پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔
دوسرا نیکی اور بدی کے علم کو اکتساب سے زیادہ خلقی و وہبی قرار دیا گیا ہے جیسے اچھے اور برے کام کی تمیز اور احساس کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کا تعلق تفہیم سے ہے،شعور جبلت کو کنٹرول کرتا ہے اور اجتماعی خیر کے احساس کے ساتھ کام کرتا ہے ااس کے باطن میں نیکی اور بدی کا سگنل برابر جلتا اور بجھتا رہتا ہے۔جہاں تک اپنے حالات بدلنے کی آزادی اور فری ول کا معاملہ ہے اس میں انسان کو قرآن مکمل آزادی دیتا ہے اور یہ ذمہ داری فرد اور اجتماع کے کندھو ں پر ڈالتا ہے کہ خدا اس قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک آپنے حالات کو وہ خود بدلنے کی کوشش نہ کرے جس میں شخصی آزادی کو اجتماعی آزادی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
حالات بدلنے کے لیے سلام استحصالی قوتوں سے جنگ کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس مقام پر جہاد کو فرض قرار دیا گیا ہے اور انسان کو تقدیر شکنی کے لئے مقتدر طبقات کے خلاف نبر آزما کرتا ہے،جو ملکی اور قومی وسائل پر قا بض ہو کر عام فرد کو بنیادی ضروریات سے محروم کرتے ہیں،اور عمومی طور پر ہر عہد میں یہ جنگ طبقات کے خلاف لڑی گئی ہے جس میں محکوم طبقے نے حق خود ارادیت کی جنگ لڑی ہے،کیونکہ قرآن حکیم کی تعلیمات کے مطابق انصاف،مساوات اور عدل اجتماعی کے لئے شخصی آزادی اجتماعی آزادی کے بغیر نا ممکن ہے مگر انفرادی سطح پر فرد کی ذ اتی محنت کو الگ اہمیت بھی دی گئی ہے۔
قرآن فری ول کے لئے جمودی نظریات کا پرچار ک نہیں ہے بلکہ ہر عہد کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ انسانی فکر کو ہم آہنگ کرنا چاہتا ہے،اگر کوئی پتہ اس کے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآنی تعلیمات جبریت کا درس دیتی ہیں بلکہ ہر حرکت کے ساتھ کل یوم ھو فی شان یعنی ہر لمحہ وہ نئی تخلیق اور تبدیلی میں بھی مصروف عمل نظر آتا ہے۔
پتہ کی حرکت شان خلاقی سے منسلک ہے جو مسلسل جاری و ساری عمل ہے۔تبدیلی و حرکت فطرت کے بنیادی اصول ہیں جو اس کی صفات میں کن فیکون کے عمل میں ایک جوہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔قرآن کی یہ آیات’’ ہر آن وہ نئی شان میں ہے‘‘ معاشرے اور فطرت میں جدلیاتی عمل کی غمازی کرتی ہے،جس میں تقدیر شکنی معاشرتی ارتقا اور نئے سے نئے نظام کی طرف بڑھنے کا درس ملتا ہے۔حق خود ارادیت کی جنگ عوام اور مظلوم طبقات ہی لڑا کرتے ہیں اور یہ جنگ ہمیشہ استحصالی سرمایہ دار ،جاگیر دار،مذہبی پیشواؤں،نسلی اور علاقائی شخصیات کے خلاف لڑی گئی ہے ۔
قرآن کریم اس کے ساتھ ہی بے خوفی اور اور قرب الہی کی بھی تعلیم دیتا ہے،جس کے لئے انسان کو دو جہانوں سے خفا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے سوا کسی دوسرے کی محبت اور خوف عقیدہء توحید کے خلاف ہے جس سے چھوٹی چھوٹی روحانی اور سماجی مقدس ہستیاں جنم لے کر اجارہ داریاں قائم کرتی ہیں اور انسان کے ذ ہنی اور معاشرتی ارتقا کے عمل کو روکتی ہیں۔ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔’’لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی خدا سے ہونی چائیے حالانکہ جو ایمان والے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔کاش ظالموں کو وہ بات سوجھ جاتی جسے یہ عذاب سامنے دیکھ کرمحسوس کریں گے کہ تمام قوت کا مالک صرف اللہ ہے‘‘۔
قدریت پسندوں یعنی معتزلہ کا یہ کہنا کہ بندے اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں اور خدا خیر پر قدرت رکھتا ہے شر پر نہیں کا یہ مطلب واضح ہوتا ہے کہ اس نے شر کے خلاف لڑنے کا نہ صرف اپنے بندوں کو حکم دیا ہے بلکہ اس عمل یعنی جنگ کو ان پر فرض قرار دیا ہے۔تقدیر کے حوالے سے زیادہ سوال کرنے کی بجائے کوشش اور جدو جہد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اس معاملہ میں فرمایا گیا ہے ایسی باتوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کو اگر تم پر ظاہر کیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو،کیونکہ اللہ ایک راز ہے اور اس کی مثل کوئی شے نہیں تمہارا کا م آپنی آزادی اور حالات بدلنے کے لئے سیاسی و سماجی پلیٹ فارموں پر جبری قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی کیوں نہ ہوں۔
جبر و اختیار کے ملمی قضایا پر مسلم اور غیر مسلم مفکرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔افراط و تفریط کا دونوں شکار ہوئے ہیں،مگر انسانیت کو گر کچھ فائدہ پہنچا ہے تو وہ قدریہ مکتبہء فکر سے پہنچا ہے،جبکہ معاشرتی ترقی کے پہیہ کو جام کرنے میں جبریہ کا پلڑا بھاری رہا ہے،جس کی وجہ سے سیاسی و سماجی ارتقا میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔لیکن اس نکتہ پر سب کا اتفاق ہے کہ کارخانہء قدرت اور انسانی سماج میں انسانی ارادہ و اختیار کی کچھ حدود مقرر ہیں،مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ معاشرہ و فطرت ساکت و جامد ہیں۔اس حوالے سے مولانا مودودی فرماتے ہیں۔’’مگر اس سے یہ نہ سمجھناچاہیے کہ انسان کا اختیار اور اس کی آزادی غیر محدود ہے،اور اس کو کلیتہ وہ اختیار تفویض کر دئیے گئے ہیں جو قدریہ نے فرض کر لئے ہیں۔ہر گز نہیں۔
انسان کو جو کچھ اختیا ر دیا گیا ہے وہ یقیناًا ن قو انین کے تحت ہے۔جو اللہ نے تدبیر کلی اور تدابیر جزئیہ کے لئے مقر ر کر رکھے ہیں اور جن کے تحت یہ سارا کارخانہء قدرت چل رہا ہے۔کائنات کے نظام میں انسان کی قدرت اور اس کی روحانی،نفسانی اور جسمانی قوتوں کے لئے جو حدیں اللہ نے قائم کر دی ہیں ان سے وہ بال برابر بھی تجاوز کرنے کی طاقت نہیں رکھتا،پس یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے۔مولانا مودودی صاحب بذات خود تقدیر کی تشکیل میں اسباب و علل اور سماجی و مادی عوامل کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ان کے بغیر انسان کی تقدیر تشکیل نہیں ہوتی،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کا مقدر لوح محفوظ پر پہلے سے لکھا ہوا نہیں ہے وہ سراسر مادی اسباب کا مرہون منت ہے۔
فرماتے ہیں۔’’ہر قوم کی تقدیر جن اسباب سے بنتی ہے،ان میں نسلی خصوصیات،تاریخی اثرات،جغرافیائی حا لات،قدرتی وسائل اور بین الاقوامی صورتحال کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ بات دنیا کی کسی قوم کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اسباب کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنی تقدیر جیسی چاہے خود بنا لے۔علمی قضایا میں بھی یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ انسان اچھی اور بری تقدیر لے کر پیدا ہوتا ہے،کیونکہ انسانی تقدیر سراسر تاریخی اثرات کے زیر اثر پروان چڑھتی ہے،مقدر کے بیج کی پہلی کونپل سیاسی معاشیات کی کیاری سے اگتی ہے،جس سے مقدر کے اچھے اور برے ہونے کا تعین ہوتا ہے اور یہ عمل صرف پیدا واری قوتیں سر انجام نہیں دیتی ہیں بلکہ کسی سماج کا انصاف اور مساوات پر قائم سیاسی ڈھانچہ متعین کرتا ہے۔
جیسے یورپ کے موسم جغرافیہ اور زرعی و صنعتی نظام کئی صدیوں سے ترقی یافتہ تھا،مگر عوام کی تقدیر بری تھی افلاس،استحصال،بے روزگاری، بے گھری،احساس محرومی نمایاں طور پر دیکھے جاتے تھے،کیونکہ پیداواری قوتوں پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ تھا،جس سے انہیں کھلے ہوئے باغات ،لہلاتی ہوئی سر سبز وشاداب زمینیں اورمصنوعات سے بھرے ہوئے گودام تونظر آتے تھے،مگر عوام کے پاس احساس محرومی کے سوا کچھ نہ تھا۔ نہ صرف صنعتی انقلاب سے پہلے بلکہ بعد بھی یورپی ممالک میں پیدا ہونے والا تقریبٗاہر بچہ بد نصیب پیدا ہوتا تھا،اس کی بنیادی وجہ وہاں کا پولیٹیکل سسٹم تھا۔جب یورپ بھر اور روس میں صنعتی انقلاب کے بعد بدبخت محروم طبقات نے انقلاب اور اصلاحات کے خلاف اپنے حقوق کی آواز بلند کی،سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں فلاحی ریاستیں معرض وجود میں آئیں،تو وہاں کا ہر پیدا ہونے والا بچہ خوش نصیب ہو گیا،اور مقدر کا سکندر بن گیا۔
مولانا مودودی صاحب کا کہنا کہ مقدر کے تعین میں موسم،جغرافیہ،،نسلی خصوصیات قدرتی وسائل اور بین الاقوامی صورتحال اثر انداز ہوتی ہے اگر ایسی بات ہے تو عمر فاروق کے دور حکومت میں بھی عربوں کو یورپ کی طرح نہ تو صرف اچھے موسمی حالات اورجغرافیہ ملا تھا اگر کچھ بہتری آئی تھی تو معاشی اصلاحات کا نتیجہ تھا۔باقی ساری چیزیں ضمنی تھیں۔جہاں تک نسلی خصوصیات کا انسانی مقدر سے تعلق ہے وہ سرا سر ایک لغو تصور ہے۔کیونکہ انسانی شعور اور شخصیت کی نشو و نما سماج کے ان گنت اور پیچیدہ معالات اور رشتوں میں ہوتی ہے،جہاں نسلی خصوصیات یا خصا ئص کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔مشق میں شعور اور شخصیت کے بننے اور بگڑنے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔
نسلی خصوصیات کا انسانی جسم میں دس فیصد حصہ ہوتا ہے وہ بھی صحت اور بیماریوں کے ضمن میں،جن پر سائنسی تحقیق کافی حد تک قابو پا چکی ہے اور انسان موروثی جبر سے نجات حاصل کر چکا ہے۔آدمی کی قسمت بنانے اور بگاڑنے میں اتفاقات اور حادثات کے عمل دخل کو در خور اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے،کیونکہ جہاں غیر سائنسی طرز فکر اور طرز عمل سے سیاسی و سماجی اور فطری معاملات طے کرنے کا رجحان ہو گا وہاں اتفاق اور حادثات کا انسانی مقدر سنوارنے اور بگاڑنے میں اتنا ہی عمل دخل ہو گا جیسے سٹہ بازی،جوا،ذخیرہ اندوزی،غیر منظم سرمایہ داری سسٹم، منی لا نڈ رنگ، اداروں کی عدم خود مختاری اور ٹیکس چوری میں مقدر بنا نا اتفاقات اور حادثات سے جڑا ہوتا ہے جہاں طالع آزما بغیر محنت کے نہ صرف مالدار بن جاتے ہیں بلکہ عوام کا مقدر تعین کرنے کی قدرت بھی انہیں حاصل ہوجاتی ہے،جہاں روحانیات عوام کی بد بختی پر تقدیر کی مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔
دوسرا مقدر کے بننے اور بگڑنے کے دیگر اسباب جن کا ذ کر مولانا مودودی نے کیا ہے۔آدمی کی تقدیر پر دنیا کے بہت سے واقعات اور اتفاقات کے بھی اچھے اور برے اثرات پڑتے ہیں۔ زلزلے، سیلاب، قحط، موسم، بیماریاں، لڑائیاں،معاشی اتار چڑھاؤ اور اتفاقی حادثے اکثر انسان کی پوری زندگی کا رخ موڑ لیتے ہیں۔مولانا نے تقدیر کے بننے اور بگڑنے پر قدرتی آفات اور فطری جبر کا ذ کر تو ضرور کیا ہے جس سے یہ معنی مترشح ہوتے ہیں کہ انسان فطری جبر اور قدرتی آفات کے سامنے بے بس ہے۔فطری جبر ہو یا سماجی و معاشی جبر انسان نے اپنی قوت ارادی اور اپنی خلا قانی صلا حیتوں کے بل بوتے پر ان پر قدرت حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیا ہے،اگر ہم صرف مقدر کی تعمیر و تشکیل کے اسباب کا ذکر کرنا اور ان کی نشان دہی کو ہی کافی سمجھیں تو مسائل حل نہیں ہوتے اور ایسی صورت میں انسان تقدیر کا زندانی ہی رہے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ روز آفرینش سے ہی کرہء ارض پر انسان کے لئے ماحول سازگار نہیں رہا ہے اس نے جدو جہد اور اپنی خلاقی سے سماجی اور فطری جبریت پر قابو پاکر جینے کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا ہے اور یہ تبدیلی فلسفہء حرکت کے آپنانے سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر ہم ہر شے کو مستقل اور جامد دیکھنے کے عادی ہو جائیں تو نہ ہی حالات بدلیں گے اور نہ تبدیلی کی صبح کا سورج کبھی طلوع ہو گا۔ چین نے اپنے فطری اور معاشرتی آفات اور مسائل پر قابو صرف سیاسی اور معاشی سسٹم کی تبدیلی کی بدولت کیا،اور تبدیلی کی فکر کو اپنے سماجی اور سیاسی نظام میں مرکزی حیثیت دی غذائی قلت اور اور قحط کے خاتمے کے لئے انہوں نے چار ہزار کے لگ بھگ ڈیم تعمیر کئے۔
روزگار کی فراہمی کے لئے دیہا ت میں صنعتی یونٹ لگا کر عورتوں کو بالخصوص ملازمتیں فراہم کیں۔اب چینی دنیا کی پہلی قوم ہے جو مصنوعی بارش برسانے اور زمینوں کو سیراب کرنے پر قدرت حاصل کر چکی ہے۔ بھارت اپنے پاس دو سال کا غلہ محفوظ رکھ کر پھر تجارت کرتا ہے،تاکہ قحط اور موسمی تغیرات کے اثرات سے محفوظ رکھ سکے اور ان دونوں اقوام کے پاس تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے بینکوں میں فالتو سرمایہ جمع ہے صرف چین کے پاس تین ٹریلین ڈالر کے ریزرو بینکوں میں محفوظ ہیں۔تحقیق اور جدوجہد کے بل بوطے پر جبری فلسفے کو یہ اقوام شکست دے رہی ہیں اور دنیا کی تقریباً آدھی آبادی کا پیٹ بھی بھر رہی ہیں۔
انسان کی دست صناعی کے ہاتھوں فطری اور معاشرتی جبر روبہ زوال ہے اور تقدیر کے فتوے اپنی حیثیت اور اثر و نفوذ دن بدن کھوتے جا رہے ہیں اور انسانی فری ول شباب کے مراحل طے کر رہی ہے۔جتنا زیادہ غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ سیاسی نظام ہو گا اتنا ہی زیادہ انسان تقدیر کا قیدی ہو گا۔تماتر تا ریخی،جغرافیائی،موروثی،نسلی،طبیعی،لسانی،حیاتیاتی،عصبی و ذہنی،سیاسی و معاشی جبریت جس کا سامنا انسان کو پیدا ہوتے ہی کرنا پڑتا ہے،اس کا توڑ صرف وصرف سیاسی و معاشی نظام کی تبدیلی میں مضمر ہے۔جہاں قوم کا ہر بچہ مقروض نہیں بلکہ جمع شدہ پونجی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
مسلمانوں کے علمی و ادبی قضایا میں علامہ محمداقبال فلسفہء تقدیر کے سلسلے میں ایک مستند حیثیت رکھتے ہیں،جن کے افکار امت مسلمہ کی فکری نمائندگی میں ایک سنگ میل کی حامل ہیں۔فکر اقبال کمیتی تبدیلی کے برعکس کیفیتی تبدیلی کی موید ہیں،جو صفات اور کیفیات سے ظاہر ہوتی ہیں نہ کہ کسی جامد شے سے۔اقبال جمود پر حرکت اور نفیء خودی پر اثبات خودی کو ترجیح دیتے ہیں۔ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کے مظاہر نہ صرف وہ نظام فطرت میں دیکھتے ہیں،بلکہ انسانی نفسیات اور شعور میں بھی اس کی کارفر مائی دیکھتے ہیں۔ا نہیں صدائے کن فیکون کی برقی رو نہ صرف فطرت میں محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ سلسلہ انہیں سماجی زندگی میں بھی اپنے جلوے دکھاتا ہوا نظر آتا ہے۔
تبدیلی وحرکت کا یہ سلسلہ شعوری نہیں بلکہ ایک خود کار ہے جس میں انسان کی قوت ارادی ،خلاقی فطرت سے ہم آہنگ ہو کر سماجی ترقی اور تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔فطرت اور انسان اپنے اپنے دائرہء کار میں رہتے ہوئے تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ لا متناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ فکر اقبال تقدیر کے لئے امکانات کے دروازے کھلے رکھتی ہے اور تعین کے فلسفے کو رد کرتی ہے۔۔نظام فطرت میں اجرام فلکی کو وہ تقدیر کے پابند مگر انسان کو تقدیر شکن کے القاب سے مخاطب کرتے ہیں۔پھر وہ قرآنی آیات کا سہارا لے کر اپنی فکر پر تصدیق کی مہر ثبت کرتے ہیں۔ کل یوم ھو فی شان ،ہر آن وہ نئی شان میں ہے کہ ہر لمحے فطرت وخدا نئے سے نئے رنگ اور تبدیلیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو رہے ہیں،فطرت میں جمود نہیں ہے اور فطرت و سماج تبدیلیوں اور امکانات سے مزین ہیں۔
اس بنا پر انسان تقدیر کا قیدی نہیں بلکہ تقدیر شکن پیدا ہوا ہے اور خدائی صفات جو کیفیتی تبدیلی کا موجب بنتی ہیں وہ حضرت انسان میں موجود ہیں،جیسے رحم،انصاف اور خلاقی۔انسان صاحب اختیار اور انتخاب کا حق رکھتا ہے۔تقدیر کوشش اور جدوجہد سے تبدیل ہو جاتی ہے اور خدا سے بہتر سے بہتر تقدیر کی دعا کرنے سے بھی انسان کے اندر بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے جو عزم و حوصلے اور ولولے میں ظاہر ہوتی ہے۔
نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
ناچیز جہاں مہ و پروین تیرے آگے
وہ عالم مجبور ہے تو عالم آزاد
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز وشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پے اڑنا
منزل یہی ہے کٹھن قوموں کی زندگی میں
تقدیر شکن قوت باقی ہے اس میں
نادان جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
اقبال انفرادی اور اجتماع دونوں سطحوں پر تقدیر شکنی اور جدوجہد اور کوشش سے اپنا مقدر بنانے کا سبق دیتے ہیں،کیونکہ تقدیر جامد نہیں ہے امکانات کی دنیا وسیع ہے کوشش اور قوت ارادی سمندروں کے سینے چاک کر دیتی ہے۔کاخ و امرا کے در ودیوار ہلا دیتی ہے۔ اگر قوم اجتماعی سطح پر غلط فیصلے کرتی ہے تو اس کی سزا انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر بھگتنی پڑتی ہے۔
المختصر قوت ارادی،جدوجہد،نظم وضبط،مہارت سے سیاسی جبر،معاشی استحصال اور مثالیت پسندی کے حکمناموں کے خلاف جدوجہد کرکے انسان امکانات کی دنیا میں بہتر سے بہتر جنت ارضی قائم کر سکتا ہے اور آپنی آزادی و اختیار اور انتخاب کے حق کا مالک بن سکتا ہے۔انسان کو اپنے مقدر سنوارنے کے لئے صرف وصرف ایک عادلانہ سیاسی نظام کی ضرورت ہوتی ہے بس۔
♠
One Comment