پاکستان میں نصابی کتب کے ساتھ دو طرح کے مسائل ہیں۔پہلا مسئلہ نصابی کتب کا انتخاب ہے۔قیام پاکستان کے فورا بعد جن لوگوں کے پاس نصابی کتب کے انتخاب کا اختیار آگیا تھا ، یا انہوں نے کسی طرح یہ اختیار لے لیا تھا،وہ زیادہ تر بند ذہن کے لوگ تھے۔چنانچہ انہوں نے کتابوں کے انتخاب کے لیے عقیدہ پرست رویہ اختیار کیا۔بیشتر ایسی کتابوں کو نصاب کے لیے منتخب کیا گیا جو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے اصولوں اور بنیادی نظریات سے متصادم تھیں۔اسلامی تعلیمات کے نام پر بچوں کو ان سارے علوم سے محروم کر دیا گیا جس سے ساری دنیا کے بچے استفادہ کرتے رہے۔
گویا نصاب کو عقائد تک محدود کر دیا گیا۔اصولی طور پر جو کچھ صرف اسلامیات کی کلاس میں پڑھایا جا سکتا تھا اس کو پورے نصاب تک پھیلا دیا گیا۔دوسرا مسئلہ اپنی پسند کے مصنفین کی لکھی ہوئی کتب کو نصاب میں شامل کرنا تھا۔ یہاں پسند سے مراد یہ نہیں تھی کہ وہ کئی اچھے لکھاری تھے۔بلکہ جن کے ساتھ ان کا کوئی ذاتی تعلق واسطہ یا غرض و غائیت تھی یاسفارش تھی۔اس سلسلہ عمل میں مصنفین اور اشاعتی اداروں نے مالی مفادات کے لیے ایسی کتابیں نصاب میں شامل کروا لیں جو درسی کتب کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
تیسرا مسئلہ اپنے عقیدے اور سیاسی نظریات کے مطابق نصاب کی ترتیب تھی جس کا سب سے بڑا شکار تاریخ تھی۔یہ درست ہے کہ تاریخ پر ہمیشہ دو سے زائد نقطہ نظر ہوتے ہیں ۔ مگر تاریخ پڑھاتے وقت تمام موجود نقطہ نظر یا واقعات کو پیش کرنا پڑتا ہے۔اگر صرف وہی واقعات پڑھائے جائیں جو اپ کے ذاتی عقائد اور نظریات کے قریب ہوں تو یہ ایک جانب دارانہ اور متصب روویہ ہے جو دراصل تاریخ کو توڑ موڑ کر پیش کرنے اور مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں تاریخ کی درسی اور نصابی کتابوں کے حوالے سے یہ رویہ بڑے پیمانے پر اپنایا گیا۔خواہ وہ تاریخ اسلام ہو ، تاریخ پاکستان ہو یا پھر ہندوستان کی تاریخ۔تاریخ اسلام میں سارازور جنگوں اور فتوحات پر دیا گیا۔اور اس میں بھی اپنی پسند کی تصویر دکھائی گئی۔سپین پر قبضے کو یوں دکھایا گیا گویا یہ قبضہ خود صاحب کتاب نے کیا ہو اور اپنے ہاتھوں کیا ہو یا ، یا پھردنیا میں قبضے سے زیادہ کوئی مقدس کام ہی نہ ہو۔
پھر اس میں واقعات کو یا تو بہت زیادہ توڑ موڑ کر پیش کیا گیا یا پھر انتہائی اہم اور فیصلہ کن واقعات کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا۔اس طرح بچوں کو ایک ادھوری اور بگڑی ہوئی تصویر دکھائی گئی۔بچوں کو یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ اس قبضے سے پہلے سپین سنگین قسم کے اندرونی بحران اور خانہ جنگی کا شکار تھا۔معزول بادشاہ کے بیٹے نے تخت کی خاطر خودجا کر عربوں کو سپین پر حملے کی دعوت دی اور اس ساری مہم کے دوران ان کی رہنمائی بھی کرتا رہا۔
اس قبضے میں سب سے اہم کردار خود سپین کے یہودیوں کا تھا جو اپنے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے بادشاہ کے سخت خلاف تھے۔اور پھر اس میں وہ عیسائی بھی شامل تھے جو کنگ راڈرک کے خلاف تھے۔ اس طرح بچوں سے سپین کی جنگ کی اصل اور بڑی تصویر ہی دور رکھی گئی۔اس کے نتیجے میں اس جنگ کے جو نتائج اخذ کیے گئے وہ بھی حقیقت کی عکاسی کے بجائے لکھنے والوں کی ذاتی خواہشات اور نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔
بڑی تصویر کو انکھوں سے اوجھل رکھنے سے مراد یہ ہے کہ یہ کہانی سرے سے بتائی ہی نہیں جاتی کہ جب عربوں نے سپین پر حملہ کیا تو اس وقت سپین کے سیاسی معاشی اور سماجی حالات کیا تھے۔یعنی یہ کہ سپین تاریخ کی ایک خوفناک خانہ جنگی کا شکار تھا۔مذہبی فرقہ پرستی اور نسل پرستی اپنے عروج پر تھی۔ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا۔حکمران خاندانوں، سماج کے اونچے طبقات اور مذہبی پیشواوں کے درمیان خون آشام جنگ جاری تھی۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ لوگ کسی بھی بیرونی قوت کا ساتھ دینے کے لیے تیار تھے۔ چنانچہ جب عرب سپین میں داخل ہوئے تو یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد سمیت سماج کے کئی طبقات نے ان کا ساتھ دیا۔ ان لوگوں کے نزدیک اس وقت بڑا مقصد اپنے بادشاہ کے ظلم و تشدد اور کرپشن سے نجات تھا۔ان کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال نہ تھا کہ آنے والے حکمران نہ صرف یہ کہ ملک پر قابض ہو جائیں گے بلکہ وہ ظلم و کرپشن میں اپنے پیشرو حکمرانوں سے بھی زیادہ بدنام ہو ں گے۔
چنانچہ سپین پر قبضے کے بعد طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہو گئے اور اس کی بازگشت دمشق میں خلیفہ تک پہنچی۔ان دونوں جنرلوں کو کرپشن کے الزامات میں واپس دمشق طلب کیا گیا۔دمشق میں ان کو سپین سے لائی گئی دولت کو جمع کروانے کا حکم دیا گے۔موسی ٰبن نصیر خلیفہ کے عتاب کی وجہ سے آخری عمر میں مسجد کے سامنے بھیک مانگتے ہوئے پائے گئے اور انتہائی کسمپرسی کی موت مرے۔
تاریخ نویسی کے اس عمل کو صرف جنگوں اور جنرلوں تک محدود کر دیا گیا اور عوام کو اس سے اس طرح باہر رکھا گیا گویا تاریخ سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو، اس طرح ایک آمریت پسند ذہن تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی جو پاکستان میں تاریخی طور پر ہمیشہ آمریت کی ضرورت رہی ہے۔اس طرح تاریخ کو مسخ کر کے حکمرانوں کی باندی بنا دیا گیا۔
♠