پاکستان کے کروڑوں افغانوں کی تاریخی شناخت اور تاریخ سے نا بلد سرفراز بگٹی

عبدا لحئی ارین 

sarfaraz-bugti
اس وقت اگر دیکھا جائے توافغانوں کی افغانستان سے بھی بڑی آبادی پاکستان میں ہے جو چترال سے شروع ہوکر بولان (سبی) تک اپنی تاریخی سرزمیں پر گزشتہ پانچ ہزار سال سے رہتے آرہے ہیں۔

ٹھہریئے جناب! پاکستان میں افغانوں کی اتنی بڑی آبادی آئی کہاں سے ؟ یہاں پر تو افغان نہیں بلکہ صرف اور صرف پشتون آباد ہیں جو اب جبری طور پر پٹھان بنتے جارہے ہیں۔ 

یہی تو المیہ ہے کہ یہاں پر نظریہ ضرورت کے نام پر لوگوں کے سیاسی، معاشی حقوق کیساتھ ساتھ اُن کی شناخت، تاریخ اور ثقافت کے نام پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے لوگ بالخصوص صحافی و سیاستدان اپنی ہی سرزمین اور یہاں کے لوگوں کی تاریخ سے نابلد ہیں اور کسی بھی محفل میں بیٹھ کر اوٹ پٹانگ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ لفظ پٹھان کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے۔ شروع شروع میں جب پشتون افغانستان سے پشتونوں کا ہندوستان میں قائم سلطنتیں جیسا کہ سوری، خلجی، لودھی ،درانی ادوار یا پھر کاروبار کے سلسلے میں ہندوستان جا کر مختلف جگہوں بالخصوص ہندوستان کے شہر پٹنہ میں آباد ہوئے تھے، تو اُن کو ہندوستان کے لوگ پٹنہ والے کہہ کر بلاتے تھے۔ جو بعد میں پٹھان کا لقب بنا۔ 

جس کے بعد یہ لفظ غلط عام ہوا اور اب تو پاکستان میں تذلیل کرنے اور استعماری مقاصد اور پشتونوں کی پشتون شناخت ختم کرنے کیلئے یہ لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ کیونکہ لفظ افغان یا پشتون کیساتھ تو پشتونوں کی پانچ ہزار سالہ تاریخ، ہندوستان، بنگال، پاکستان، افغانستان اور ایران کے کچھ علاقوں پر تین سو سال سے زیادہ حکمرانی جڑی ہوئی ہے جب کہ پٹھان سے ان کے اس تاریخ کو مسخ کیا جاسکتا ہے۔

حالانکہ تاریخ میں پشتونوں کیلئے پشتون، پختون ، پکتین اور یا افغان کے نام استعمال ہوئے ہیں۔ آج سے دو ہزار سال پہلے چینی سیاح ہیونگ سانگ کی لکھی گئی کتاب ہو، مقدونیہ کا سکندر کا دورہ، اورنگ کے دور کی میں لکھی گئی مشہور کتاب’ مغزن افغانی‘ہو یا فرنگی دور میں اس خطے کے حوالے سے لکھی گئی دیگر کتابیں ان سب میں پشتونوں کیلئے افغان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی تاریخی طور پر افغان سے مراد پشتون اور پشتون سے مراد افغان ہی لیا جاتا ہے۔ لیکن جب احمد شاہ درانی کے دور میں موجودہ افغانستان کی داغ بیل ڈالی گئی تو افغانستان کے دیگر اقوام بھی اس لفظ افغان کیساتھ پروئے گئے۔ اس لیے اس لفظ کے ماضی اور حال کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخی طور پر ہر پشتون افغان ہے مگر ہر افغان پشتون نہیں ہے۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آج کل پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں افغانوں کیلئے خلاف انتہائی غیر ذمہ دار زبان استعمال کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان لوگوں پر پڑھے لکھے جاہل کا لفظ بالکل صحیح معنوں میں پورا آتا ہے۔کیونکہ افغان سے تو مراد پشتون ہے اور ہماری میڈیا آئے روز اس قوم کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ افغانوں کو دھکے مار کر پاکستان سے باہر نکال دیں گے۔ یعنی بگٹی صاحب پاکستان کی دوسری بڑی آبادی کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ اب بھلا چترال سے لیکر بولان تک ان پشتون افغانوں کو جناب بگٹی صاحب دھکے مار کر کیا پاکستان توڑنے کی سازش تو نہیں کر رہا ہے۔ان کو کون سمجھائے کہ یہ پشتون ڈیرہ بگٹی کے وہ بگٹی نہیں ہیں جن کو اپنوں نے دھکے مار مار کر ڈیرہ بگٹی سے نکالا تھا۔ پاکستان میں پشتونوں کی آبادی کا اندازہ تو اپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ افغانوں کا کوئی ایک قبیلہ کاکڑ ہو یا یوسفزئی قبیلے کا موازنہ اگر کریں تو انکی ایک ہی قبیلے کے افراد کی تعداد توپورے بلوچ قوم کی آبادی کے برابر ہے۔

پاکستان میں چترال سے لیکر بولان تک ان کروڑوں پشتون افغان کی تاریخ سے نابلد سرفراز بگٹی، میڈیا، اسلام آباد کے حکمرانوں، عوام، مسلم لیگ اور تحریک انصاف جیسی سیاسی پارٹیوں کیلئے پاکستان کے افغانوں کی مختصر تاریخی حیثیت یاد کرانے کیلئے زیر نظر سطور میں مختصر تاریخی حقائق پیش خدمت ہیں۔

جب 1838میں پہلا اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان کو تخت سے ہٹا کر افغان وطن و مٹی کا واک و اختیار وطن فروش شاہ شجاع کے ہاتھ میں دیا۔ شاہ شجاع نے معاہدہ جمرود کے تحت پشاور سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک ( پشتونخوا وطن) پنجاب کے رنجیت سنگھ کو دیا جو بعد میں انگریز وں کے حوالے کیا گیا اور انگریزوں نے دوسرے مرحلے میں پشاور سے افغانستان پر حملہ کیا اور پھر دوسری اینگلوافغان(1878) جنگ کے نتیجے میں افغان حکمران امیر شیرعلی خان کو شکست دے کر وطن دشمن و قوم دشمن یعقوب خان کو افغانستان کا حکمران بنایا جس نے نام نہاد استعمار ی گندامک معاہدے کے تحت افغانستان کے علاقے کوئٹہ،سبی ٗ پشین ،(جنوبی پشتونخوا)اور کرامہ،میچنئی اور خیبر(فاٹا)کا واک و اختیارانگریزوں کے ہاتھ میں تھما دیا اور باقی افغانستان پر انگریز کی بالادستی کو تسلیم کیا ۔

اس کے بعدامیر عبدالرحمن کو افغانستان کا حکمران بنایا گیا۔جس نے 1893ء کو تیسرا اور آخری ڈیورنڈ کے استعماری معاہدے کے تحت افغانستان کے مزید علاقے ژوب ،بورائی (لورالائی)، وزیرستان ،سوات ،چترال و باجوڑ (وسطیٰ پشتونخوا)کے علاقوں پر انگریز کی بالادستی تسلیم کی اور اس طرح 1838سے لے کر 1893(55 سالوں کے عرصے میں)تک انگریز نے چترل سے بولان تک پشتون افغان وطن پر تین استعماری معاہدوں معاہدہ جمرود، معاہدہ گندمک اور معاہدہ ڈیورنڈ‘ کے تحت ان علاقوں پر قبضہ کیا اوران کے تاریخی شناخت ،ثقافت و جغرافیہ کو مسخ کرنے کیلئے ان علاقوں کو شمال مغربی سرحدی صوبے موجودہ خیبر پشتونخوا، فاٹا اور برٹش بلوچستان جس کو پاکستان بننے کے بعد موجوہ بلوچستان میں ضم کردیا گیاتھا، جبکہ اٹک اور میاں والی کے پشتون علاقے صوبہ پنجاب میں شامل کرائے گئے۔ 

پاکستان بننے کے بعد جنرل ایوب خان کے دور میں ون یونٹ بنایا گیا تھا یعنی موجودہ چاروں صوبوں (موجودہ بلوچستان کے بغیر) کی صوبائی حیثیت ختم کر کے مغربی صوبہ بنایا گیا تھا جبکہ بنگال کو مشرقی صوبہ بنوایا گیا۔ اس ون یونٹ کے استعماری فیصلے نے پاکستان کی چھوٹی قوموں کے حقوق پر کاری ضرب لگائی تھی۔ تاہم سیاسی پارٹیوں بالخصوص نیشنل عوامی پارٹی (نیب) کی کوششوں کے نتیجے میں 1969 کو جنرل یحییٰ خان کو ون یونٹ ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔

اب یہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے ارباب اختیار پشتون افغانوں کی ثقافت، زبان ومعیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے برٹش بلوچستان (چیف کمشنر صوبے) پر نظر ثانی کرتے اور اس کی گورنر صوبہ کی حیثیت بحال کی جاتی یا دوسرے پشتون متصل علاقوں کوخیبر پشتون خوا کے ساتھ ملا یا جاتا،یا پھر ان پشتون ،افغان علاقوں پر مشتمل ایک نیا صوبہ بنا یا جاتا جو یہاں کے لوگوں کا تاریخی مطالبہ تھا۔

اگرچہ مارشل لاء حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ تمام صوبے پرانی حالت بحال کیے جائیں گے ۔لیکن افسوس صد افسوس ون یونٹ کے خاتمے کے وقت بلوچستان کے پشتونوں کے کمشنری صوبے کی حیثیت بحال کرنے کی بجائے ایک منظم سازش کے تحت بلوچستان اسٹیٹس آف قلات میں ضم کیا پشتونوں کی شناخت ختم کرتے ہوئے ان کا کمشنری صوبہ ختم کیا گیا اور ایک بار پھر پشتونوں بلوچوں اور براہیوں کے تاریخی ،سیاسی وآئینی باہمی تعلقات نظرانداز کئے اور پشتونوں اور بلوچوں کو ملا کر موجودہ بلوچستان صوبے کی داغ بیل ڈالی گئی۔

اب اگر دیکھا جائے تو موجودہ بلوچستان کے افغانوں کا کمشنری صوبہ انگریز دور میں 1876 میں بنایا گیا تھا۔ لیکن آج بھی سرفراز بگٹی و دیگر رائٹ و لفٹ کے بلوچ لیڈرشیف بلوچستان کے افغانوں کی برابری کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اُن کے سیاسی، معاشی اور بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے انھیں افغان مہاجرین سے جوڑتے آرہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ان کو ایران و افغانستان سے بلوچستان میں غیر قانونی طریقے سے جو مہاجر بلوچ بلوچستان میں آرہے ہیں وہ بالکل غیر قانونی اور مہاجر نہیں لگتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد اور آباد کاری کی بات ہے تو اس کی تو تاریخ بہت مختصر مگر معنی خیزہے۔ یعنی 1970s کے عشرے میں اور بعد میں افغان ثور انقلاب کے بعد ایک خاص سازش کے تحت افغانوں کو افغانستان سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اور اُن کو پاکستان اور ایران میں لا کرمہاجر کیمپوں میں آباد کیاگیا۔ جن کو بعد دونوں ممالک افغانستان میں بظاہر سوویت یونین مگر حقیقت میں افغانستان پر قبضہ کرنے کیلئے اسلام کے نام پر استعمال کرتے رہے۔ لیکن 9/11کے بعد جب افغانستان میں ایک قومی حکومت جناب حمید کرزئی کی سربراہی میں بنی تو وہاں امن کی آشا پیدا ہوئی جس کے باعث پاکستان کو ہجرت کرنے والے لاکھوں افغان اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے واپس کو چ کر گئے اور جو یہاں رہ گئے ہیں اُن کا باقاعدہ طور پر یونائٹیڈ نیشن کمیشن فار ریفیوجی کے ساتھ رجسٹریشن ہوئی ہے اور پاکستانی گورنمنٹ کو اقوام متحدہ کا ادارہ و دیگر کروڑوں روپوں کے فنڈز مہیا کر رہی ہیں۔ 

لیکن ضرب عضب کے باوجودکچھ ملکی قوتیں اب بھی مہاجر کیمپوں میں آباد ان طالبان نما حشرات کی سرپرستی کر رہے ہیں اور یہیں سے خود کش حملہ آور و دیگر دہشت گرد تیار کرہے ہیں۔اسی لئے تو افغانستان پر قبضہ جمانے کیلئے طالبان کی شکل میں مداخلت ہنوز جاری ہے۔ جس کے واضح ثبوت پاکستان میں طالبان سربراہ مُلا عمر و مُلا اختر منصور اور طالبان شوریٰ کی موجودگی ہے۔

موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے میں یہی کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کے ارباب اختیار، عوام اور میڈیاکو چاہیے کہ وہ لفظ افغان کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں ۔ لفظ افغان کو صرف افغانستان کے ساتھ نتھی کرنے سے گریز کریں۔ اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ پاکستان میں لفظ افغان سے مراد صرف و صرف پشتون ہی لیاجائے۔اور جہاں ریاست اور اُس کی سیاست نے منصوبے کے تحت پشتونوں کی قومی وجود کو بلوچستان، فاٹا ، خیبر پشتونخوا اور اٹک و میانوالی میں منقسم رکھا ہے وہیں پاکستان کے ان افغانوں کی پانچ ہزار سالہ معلوم تاریخ، جغرافیہ و زبان بھی مسخ کئے جارہے ہیں اور پشتون افغان سے پٹھان بنتا جارہے ہیں۔ 

One Comment