پاکستان نے ایک بار پھر اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کردیا ہے۔ ملک کے نئے مالی سال کے بجٹ میں دفاع کے لئے آٹھ سو ساٹھ بلین روپے رکھے گئے ہیں جب کہ گزشتہ سال یہ رقم سات سو اسی بلین روپے تھی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2016-17 کا بجٹ پیش کر دیا۔ اس کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کی مد میں 11 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور دفاعی بجٹ کا حجم 860 ارب روپے جب کہ وفاقی ترقیاتی بجٹ 800 ارب روپے ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 21 فیصد زائد ہے۔
بجٹ کا مجموعی حجم 4894.9 ارب روپے جب کہ معاشی نمو کا ہدف 5.7 فیصد رکھا گیا ہے اور ٹیکس وصولی کا ہدف 3621 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
اسحاق ڈارنے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا چوتھا بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں دفاع کے لئے آٹھ سو ساٹھ بلین روپے رکھے گئے ہیں جب کہ آٹھ سو ارب روپے ترقیاتی پروجیکٹس کے لئے بھی مختص کیے گئے ہیں۔
ایک سو تیس ارب توانائی کے شعبے کے لئے، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لئے ایک سو اٹھاسی ارب، فاٹا کے متاثرین کے لیے سو ارب، امن و امان کے لیے ایک سو تین بلین، ریلوے کے لئے 78 ارب، پانی کے منصوبوں کے لیے 32 ارب اور ہائر ایجوکیشن کے لیے 21.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 29 ارب روپے بنیادی صحت کے لیے اور پچیس ارب گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کے لیے بھی مختص کیے گئے ہیں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جب کہ ایڈہاک الاؤنسز کو بیسک تنخواہ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ چودہ ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ تیس لاکھ سے زیادہ جائیداد کی خرید و فروخت پر وِدہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھادی گئی ہے۔
اسحاق ڈار نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہوں نے زراعت کے لیے سب کچھ لٹا دیا۔ اسمبلی میں بڑے بڑے جاگیردار اور کاشت کار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ملکی تاریخ میں سب سے بڑا کسان پیکج دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا یوریا کی بوری کی قیمت میں کمی کی جارہی ہے جو اب چودہ سو روپے ہوگی اس کے علاوہ ڈی اے پی 2500 روپے میں ملے گی۔
کارپوریٹ کلچر کے فروغ کے لیے ٹیکس کی شرح اکتیس فیصد کر دی گئی ہے۔ ’نان فائلر‘ کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھادی گئی ہے۔ نان فائلرز کے پرائز بانڈ کی انعامی رقم پر بیس فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے ڈٰی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ امیروں کا بجٹ ہے اور یہ حکومت بھی امیروں کی ہے۔ اس لیے یہ ایسی پالیساں بناتی ہے جو امیروں کے حق میں جاتی ہیں۔ ہر سال بجٹ سے پہلے کارپوریٹ سیکٹر مطالبات کے انبار لگا دیتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کو کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو پبلک سیکٹر سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ آپ نے حکومت کے ما تحت چلنے والے 169 صنعتی ادارے نجکاری کی نذرکیے ان میں سے اب ایک سو چالیس کے قریب بند ہیں اور بقیہ ادارے حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے۔ نجکاری کی وجہ سے آپ کی ٹیکس وصولی پر بھی فرق پڑا ہے۔ پبلک سیکٹر آپ کو اچھا خاصا ٹیکس دے رہا تھا لیکن آپ نے نجی مفادات کے لئے ان کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اسٹیل مل نے تباہی کے دہانے پر پہنچنے کے باوجود آپ کو چار ارب روپے کا ٹیکس دیا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’تین سال پہلے ہماری برآمدات پچیس ارب ڈالرز تھی جو اب اٹھارہ ارب ڈالرز ہے۔ ہماری پیداوار کم ہوتی جارہی ہے اور کھپت بڑھتی جارہی ہے۔ ہم بڑھتی ہوئی کھپت کے پیشِ نظر پیداوار نہیں بڑھا رہے ہیں بلکہ درآمدات کر کے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہمیں برآمدات بڑھانے کے لئے کوششیں کرنی چاہیں کیونکہ اس سے آپ کی معیشت میں بہتری آتی ہے‘‘۔
تاج حیدر نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو مثبت قرار دیا اور زور دیا کہ مزدور کی بڑھائی جانے والی اجرت پر عمل درآمد بھی کرایا جائے۔
معروف صنعتکار کریم چھاپرا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس بجٹ کو صنعت کاروں کا بجٹ کہنا ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ حکومت کو ملکی صنعت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ڈالرز کے گرنے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ملکی صنعت نقصانات سے دو چار ہو گئی ہے۔ رہی سہی کسر چین اور بھارت نے پوری کر دی ہے، وہ یہا ں اپنی اشیاء ڈمپ کر رہے ہیں۔ حکومت کو ’اینٹی ڈمپپنگ‘ ڈیوٹی لگانی چاہیے تھی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک سو ساٹھ کے قریب سپننگ یونٹ بند ہیں۔ ہماری پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے ہماری قیمتیں مسابقانہ نہیں رہیں۔ بنگلہ دیش، ویت نام اور یہاں تک کہ کمبوڈیا کی برآمدات ہم سے بڑھ گئی ہیں اور ہم صرف اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں پھنسے ہوئے ہیں‘‘۔
DW