تحریک انصاف ،آزاد کشمیر کی خدمت میں گزارشات

Chohan

پروفیسرمحمدحسین چوہان 

بنیادی طور پرتحریک انصاف مزاجاً ایک آزاد خیال،روشن خیال اور فرد کی انفرادی ترقی وآزادی پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعت ہے،جہاں شہری خارجی مداخلت اور کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد رہ کر اپنے فیصلے خود کرتا ہے،جس میں خوف اور ذ اتی مفاد سے بالاتر ہو کر شہری فیصلے کرتے ہیں اور ملک کے بالائی سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کرتے ہیں۔روایتی سیاسی جماعتوں کے بر عکس بلیک میلنگ اور جوڑ توڑ کی سیاست نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی مہا بیانیے کی آڑ لے کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔

یہ ایک ہلکے پھلکے انداز سیاست کا نام ہے جو اصلاح پسندی اور رواداری کو معاشرے میں پروان چڑھانا چاہتی ہے۔جاگیرداری اور قبائلی سیاست کے برعکس صنعتی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر جدید سائنسی و معاشرتی نظریات کو عمرانی ترقی میں شامل کر کے معاشرتی ترقی کے عمل کو جاری و ساری رکھنا چاہتی ہے۔مغربی ممالک میں اصلاح احوال کے لئے جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں،وہ لبرل ڈیموکریسی کی مرہون منت ہیں،جہاں فرد اور ادارے آزاد نظر آتے ہیں۔

رواداری اور برداشت کا یہ عالم لندن میں یورپین یونین میں شامل ہونے کے معاملے میں بلائے گئے اجلاس میں جب وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور لنڈن مئیر صادق خان اکھٹے ہوئے تو برطانوی وزیر اعظم نے سیاسی حریف کو کامیابی پر نہ صرف مبارکباد دی بلکہ فخر کا اظہار کیا کہ ایک بس ڈرائیور کا بیٹا اور نسلی اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والا غریب شہری ترقی کر کے لندن کے مئیر کی سیٹ پر براجمان ہو سکتا ہے۔جبکہ لنڈن مئیر کا تعلق لیبر جماعت اور وزیر اعظم کا کنزر ویٹو جماعت سے ہے۔دونوں کی سیاسی،نسلی،مذ ہبی اورتہذ یبی و ثقافتی شناخت الگ ہے۔وہ کون سا نکتہ ہے جس پر دونوں اکھٹے ہوئے ہیں،قومی اور ملکی مفادات نہ کہ کسی سیاسی گروہ یا پارٹی مفادات کے لئے۔

یہ آزاد خیال جمہوریت کا حسن ہے۔جس میں فکر ونظر کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور ترقی کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں لبرل ڈیموکریسی اپنے عروج پر ہے۔ آسٹریلیا میں اس کا میلان بائیں بازو کی طرف ہے۔کینیڈا میں دائیں بازو سے ہم آہنگ ہے،امریکہ میں لبرل مرکزیت پر زور دیتے ہیں۔یورپی ممالک میں بائیں بازو والوں کی اکثریت ان سے مل کر فری ٹریڈ،فری مارکیٹ اور لیبر یونین کے قیام پر زور دے رہی ہے۔اداروں کی آزادی و فعالیت، صنعتی و معا شی ترقی،ٹیکس میں اضافہ ،بیروزگاری کا خاتمہ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنا نے میں نہ صرف کوشاں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں فلا حی ریاستیں اپنی برکات کے عملی مظاہرے بھی دکھا رہی ہیں۔جبکہ برطانیہ میں لبرل ڈیموکریسی مقامی سطح پر فلاحی مزاج رکھنے کے با وجود بین الاقوامی سطح پر سامراجی عزائم سے مکمل طور پر دست کش نہیں ہوئی۔

آزاد کشمیر میں علمی اور معاشی ترقی ہونے کے باوجود روایتی سیاسی جماعتوں نے سیاسی و معاشرتی ارتقا کو روکنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔برادری ازم اور قبیلہ پرستی کی سیاست نے جمہوری قدروں کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔نو دولتیوں کی سیاست میں شرکت نے کرپشن کو فروغ دیا۔برادری ازم کی بنیاد پر تیسرے درجے کی سیاسی قیادتیں برسر اقتدار آتی رہیں۔قبیلے کی سیاست نے معیار ،انصاف،رواداری اور جمہوری ااقدار کا خون کیا۔ہر قبیلے کے عام فرد کے حصے میں مایوسی ، محرومی،خوف اور محتاجی کے سوا کچھ نہیں آیا ۔کیونکہ سیاسی ڈھانچے کی تشکیل غیر فطری اور غیر سائنسی تھی۔

ایک طرف ذات پات کی ہندوانہ قدریں تھیں اور دوسری طرف بالائی یعنی نو دولتی طبقہ کا استحصالی مزاج اور ساتھ ساتھ ادا ر وں کی عدم خود مختاری،جس میں سیاسی نمائندوں کی مداخلت نے انصاف اور معیار کی دھجیاں بکھیر دیں اور ایک کرپٹ ترین سماج اور سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی گئی اور مختلف قسم کے چھوٹے بڑے مافیاز نے دو بڑی روایتی سیاسی جماعتوں کے زیر سایہ مقامی کلچر کو بھی پراگندہ کیا جس میں پیپلز پارٹی قدرے کم مگر مسلم لیگ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادریوں کے افراد کا سماجی تشخص وہی رہا جو تاریخ میں ہندو سماج میں ہوتا تھا۔ا گرچہ اب ہندو سماج مسلم سماج سے اس لحاظ سے بہت بہتر ہوگیا ہے۔

جمہوریت کی شان معقولیت اور عقلیت پسندی ہوتی ہے،جبکہ کشمیر میں اس کی بنیاد توہم پرستی ،اور تعصب پر رکھی گئی،ایسے میں سیاسی اور معاشرتی ترقی کا سفر کیونکر طے ہوتا۔اب آزاد کشمیر میں لبرل ڈیموکریسی کی داغ بیل پڑی ہے،اس کا آغاز وقت کا تقاضا تھا،کیونکہ یہ کسی فرد واحد کا فیصلہ نہیں،بلکہ سماجی و معاشی ترقی اور میڈیا کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ہماری نوجوان نسل رجعت پسندانہ ماحول میں نہیں رہنا چاہتی۔ کرپشن بلیک میلنگ،کمیشن اور رشوت جیسے سیاسی کلچرمیں انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے اور اپنے مقدر کے فیصلے روائیتی کھڑپینچوں سے نہیں کروانا چاہتی۔فرد ایک دوسرے کی غلامی سے نجات چاہتا ہے۔اداروں کی آزادی اور خود مختاری سے مسائل کو میرٹ اور انصاف کی بنیادوں پر حل کرنا چاہتا ہے۔برادری ازم کے لعنتی تصور اور اسٹیٹس کو کا خاتمہ کر کے انسانی رشتوں کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔کشمیر ی نوجوان چاہے وہ بیرون ملک ہو یا اندرون ملک فرسودہ طرز سیاست سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔کیونکہ کشمیری جان چکے ہیں کہ گزشتہ سات عشروں سے انہیں کرپٹ ترین سیاسی قیادتیں اور نظام ورثے میں ملا ہے اور آئندہ آنے والی نسلیں مزید اس کرپٹ ترین نظام کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

اب آزاد کشمیر کی پی ٹی آئی کی قیادت کے لئے ایک کڑے امتحان کا سامنا ہے کیا وہ وہ فرسودہ سیاسی نظام سے عوام کو نجات دلا سکے گی۔کیا لبرل اقدار کے فروغ اور انصاف پر مبنی سیاسی و سماجی کلچر اور اقدار کو فروغ دے سکے گی۔کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے۔نا ممکن کچھ بھی نہیں مشکل ضرور ہے ا س کے لئے ا یثار اور قربانی کی ضرورت ہے،اگر پی ٹی آئی کی قیادت چےئر مین تحریک انصاف عمران خان کے رنگ میں رنگ گئی تو اس کی سیاسی پیش قدمی کو کوئی روک نہیں سکتا۔

وقت کا تقاضا تبدیلی کا متقاضی ہے اور اس کے لئے کشمیری قیادت کو اپنی پرانی کھال اتارنی ہوگی،پھر دیکھئے بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔انتخابی منشور میں انقلابی تبدیلی میں خواتین کی نشستوں میں اضافہ خوش آئند ہے،مگریہ اضافہ بالائی سیاسی ڈھانچے تک محدود ہے۔اصل تبدیلی سماجی اور مقامی سطح پر ہوتی ہے جو سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔معاشرتی اور سیاسی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں تحصیل کی سطح پر بلا مقابلہ خواتین کا کوٹہ مقرر کیا جائے،کیونکہ فرسودہ روایات کے پیش نظرخواتین کے لئے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے فضا ساز گار نہیں ہے،جب خواتین کو مقامی سیاست میں نمائندگی ملے گی تو ا سٹیٹس کو کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا۔اور معاشرتی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کے ذ اتی مسائل بھی باہمی مشاورت کے ذ ریعے حل ہوں گے۔

لبرل ڈیمو کریسی کا خاصہ ہے کہ وہ اپنا لائحہ عمل مقامیت کے پیش نظر طے کرتی ہے تاکہ زمینی حقائق اور مقامیت کو مرکزیت دے کر مسائل حل کئے جائیں۔اسی بنا پر کشمیر میں ہنر مند افراد یا غیر اکثریتی برادریوں کا ہر حلقے میں تقریباًبیس فیصد ووٹ ہے۔مگر وہ ہمیشہ سیاسی بیگانگی کا شکار رہتے ہیں،کبھی بھی وہ بنیادی جمہوریت میں اپنا نمائندہ منتخب نہیں کر سکتے،اور ان کا بکھرا ہوا ووٹ ان کو اپنی شناخت سے محروم کر دیتا ہے،اس کے بر عکس چند اکثریتی برادریوں کے زیر سایہ وہ سیاسی غلامی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

جمہوریت میں نکھار اور اسٹیٹس کو کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ ان محروم طبقات کا بھی بلدیاتی انتخابات میں ہر تحصیل کی سطح پر کوٹہ مقرر کیا جائے کیونکہ عددی اکثریت کے برعکس معیاری سطح پر یہ اس کے حقدار ہیں۔جب بنیادی جمہوری نظام میں ہر طبقے اور ہر صنف کو اقتدار اور سیاست میں نمائندگی ملے گی،تو پرانے سیاسی ڈھانچے کی رد تشکیل ہو جائے گی۔ایسا کرنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ کشمیر کے سیا سی ڈھانچے کی تشکیل برادری ازم سے ہوئی ہے۔اور وہاں دیگر اقلیتی یا نسلی گروپ نہیں ہیں کہ ان کا کوٹہ مقرر کیا جائے۔اس بنا پر چھوٹی برادریوں اور خواتین کا بلدیاتی الیکشن میں کوٹہ مقرر کر کے ایک انقلابی تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور یہ کام ایک لبرل سیاسی جماعت ہی کر سکتی ہے۔

انتخابی منشور میں جہاں سیاحت کو فروغ دینے کا تعلق ہے اس کے لئے بھی نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہے،کشمیریوں کی اکثریت بیرونی ممالک بالخصوص برطانیہ میں آباد ہے،وہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں،مگر ان کے لئے بہت سی مشکلات ہیں جن میں اداروں کی کرپشن اور بزنس سپاٹ کی تلاش اس کے لئے ضروری ہے کہ جہاں کہیں سرکاری زمینیں یا محکمہ مال کی اراضی ہو بزنس کے لئے سرمایہ کار کو لیز یا رینٹ پر دی جائے اور اس کی آمدنی براہ راست قومی خزانے میں جائے جس سے نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے،جس میں مقامی افراد کو ترجیح دی جائے۔

اس سے معاشرتی اور ملکی ترقی میں اضافہ ہو گا اور بے روزگاری کی عفریت سے نجات ممکن ہو گی۔کیونکہ ہم ابھی ایمرجنگ مارکیٹ کے کونے پر کھڑے ہیں صرف اصلاحات اور تبدیلی کے لئے عمل اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف کی کشمیری قیادت کو ابھی بہت سا ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے،جسے ہم کشمیر کو ایک ماڈل سٹیٹ بنا سکتے ہیں۔

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے ۔کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

Comments are closed.