لیاقت علی ایڈووکیٹ
چند ہی دنوں میں ماہ رمضان کا آغاز ہونے کو ہے ۔ ہر سال کی طرح امسال بھی پہلا روزہ کس دن ہو گا اس بارے میں تنازعہ پیدا ہونا امر لازم ہے ۔وفاقی وزیر مذہبی امور نے مختلف مذہبی فرقوں کے مولویوں سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ انھیں ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن عیدمنانے پر متفق کیا جاسکے لیکن خبروں سے لگتا ہے کہ اپنی اس کوشش میں انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوسکی ۔
رمضان کے آغاز اور عید پر اختلافات کے پس پشت ایک وجہ تو فرقہ ورانہ ہے ۔ چاند دیکھنے کے لئے جو کمیٹی حکومتی سطح پر موجود ہے اس کی سربراہی ایک بریلوی مولوی مفتی منیب الرحمان کے پاس ہے جو دیوبندی مولویوں کو کسی صورت قبول نہیں۔ اس لئے مفتی منیب الرحمان کی قیادت میں یہ کمیٹی جو فیصلہ بھی کرے گی دیوبندی مولویوں کی طرف سے اس کی مخالفت ضرور ہوگی ۔اب تک تجربہ یہی بتا تا ہے ۔
لیکن ایک سوال اس ضمن اور بھی ہے ۔ آخر ہم ایک دن ہی روزہ رکھنا اور عید کیوں منانا چاہتے ہیں ۔ اگر شرط چاند نظر آناہے تو جس کو جس دن چاند نظر آجائے وہ اس کے مطابق روزہ رکھ لے اور عید منالے اس میں جھگڑے اور تنازعے کی کون سی بات ہے ۔
دراصل ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن عید منانا دینی سے زیادہ نیشن سٹیٹ کا مسئلہ ہے ۔ قومی ریاست کے کارپرداز یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح ہم دیگر قومی تہوار مناتے ہیں اور ان کی تاریخیں متعین ہیں اس طرح رمضان کا آغاز اور عید کا منانا بھی ایک ہی دن ہو ۔
لیکن پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ کیا دوسوسال قبل مسلمان ایک ہی دن رمضان کا آغاز کرتے اور عید منایا کرتے تھے ۔ بالکل نہیں ، جس دیہات میں جس دن چاند نظر آجاتا تھا اس کے باسی اس کے مطابق رمضان کا آغاز اور عید منا لیتے تھے اس میں تنازعے والی کوئی بات نہیں تھی ۔
یہ تو جدید آلات انفرمیشن اور نیشن سٹیٹ ہے جس نے ایک دن رمضان کے آغاز اور عید منانے کا تصور دیا ہے ۔ ہر عید پر حکومت کم از کم تین چھٹیاں تو ضرور کرتی ہے حکومت کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ان تین چھٹیوں میں جس دن جو گروہ ، فرقہ اور کمیونٹی عید مناچا ہتی ہے منالے۔ فرق تو زیادہ سے زیادہ ایک دن پڑے گا ۔
ویسے حکومت کو رویت کمیٹی کو تحلیل کر دینا چاہیے اور چاند دیکھنے کا کام موسمیاتی سائنس دانوں کے سپرد کر دینا چاہیے اور جس دن وہ کہیں روزہ رکھ لیناچاہیے اور جس دن وہ عید کا اعلان کریں اس دن عید کا تہوار منا لینا چاہیے۔
One Comment