ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
اسی سال فروری کے اوائل میں سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی چینل نے ایک ویڈیو نشر کی ہے جس میں ایک اچھوتے طرز کے اسلامی خاندانی ڈاکٹر خالدالثاقبی نے شوہروں کو نوید سنائی ہے کہ اسلامی اور حلال طرزتشدد کو استعمال کرتے ہوئے بیوی پر دست درازی کے کیا کیاممکنہ مواقع ہو سکتے ہیں۔ اس ویڈیو پیغام نے ملک بھر میں خوب داد تحسین حاصل کی اسی لئے سعودی حکومت نے اپریل میں واشنگٹن ڈی سی میں قائم مشرق وسطی کے تحقیقی ادارے کو ہدایت کی کہ اس ویڈیو کو فی الفور مشتہر کروایا جائے تاکہ مغربی تہذیب کے زیر سایہ پلنے والے مسلمان شوہروں کی مدد ہو، مذہب کا بول بالا ہو اور مردانگی کی رٹ دائر ہو۔ انگریزی سب ٹائیٹل کا سلیس اردو ترجمہ یہی ہے کہ اپنی بیوی کو مارپیٹنے کے اسلامی گر سیکھیں۔
اس ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر ثاقبی نے مسلمان شوہروں کو ایک پتے کی بات بتائی ہے کہ بیوی اگر حکم عدولی کی مرتکب ہو تو پکڑ کر مارنے یا فی البدیع کچھ کہنے (گالم گلوچ) کے بجائے توقف کرنا احسن عمل ہے، انہیں بٹھا کر، رسمی طور پر آگاہ کر دیا جانا چاہئے کہ میرے ہمراز و ہمدم! آپ نے زوجیت کے متعین حدود کراس کر لیں ہیںِ، براہ کرم اب سے چند منٹ بعد حکم عدولی کی پاداش میں آپ کی گوشمالی کی جائے گی جس کا مقصد ہر گز آپ کی دل آزاری نہیں البتہ مستقبل میں احسن اخلاقی ضابطے کو رائج کرنے کیلئے آپ کی اصلاح ہے۔ اور ہاں اس مار کو پیار سمجھنا کہ یہی ازدواجی زندگی کے دوام اور بقائے باہمی کا تقاضا ہے۔
ویڈیو میں بیوی کی زبان درازی اور شوہر سے بحث و مباحثے کو حدود شکنی کے مترادف گردانا گیا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کم و بیش ایک صدی پہلے اشرف علی تھانوی صاحب نے بھشتی زیور میں خواتین کو جس بات سے اجتناب کرنے کا عندیہ دیا تھا وہی حدود شکنی کے خواب ہیں جو مسلمان عورت کے نامکمل انسانی وجود کو سوالیہ نشان بناتے ہیں۔
تھانوی صاحب کے تصنیف مذکور کے مطابق، اک مثالی اسلامی بیوی کو بیک وقت تابعدار، وفاشعار، کم سُخن،غیر متلون مزاج، سادہ لوح،سلیقہ من، سگھڑ، قناعت پسند، نرم گو، نرم خو،سبک رفتار، صابر و شاکر رہنا چاہئے۔ یہی وہ تصور ہے جو بہشتی زیور کے ساتھ ساتھ، ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کی دھایئوں میں بننے والی چند پاکستانی فلموں میں بھی پایا جاتا ہے۔ نیک پروین کا خیالی کردار بیسیوں پاکستانی ڈراموں میں چلتا رہا جو عورت کی غیر مشروط وابستگی، کمٹمنٹ اور ایثار کو اس کے مجازی خدا کا حق بتاتے ہیں۔
بہشتی زیور میں اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھنئو کی ایک ازحد تابعدار بیوی کی روداد اپنے مخاطب قارئین (خواتین) کے سامنے پیش کی ہے۔ میاں کے ساتھ نباہ کرنے کا طریقہ کے عنوان سے لکھے گئے باب نمبر ۲۵ میں آپ رقمطراز ہیں۔
لکنھئو میں ایک بی بی کے میاں بڑے بد چلن ہیں۔ دن رات باہر ہی بازاری عورت کے پاس رہا کرتے ہیں۔ گھر میں بالکل نہیں آتے۔اور طرہ یہ کہ وہ بازاری فرمائشیں کرتی ہیں کہ آج پلاو پکے آج فلانی چیز پکے اور وہ بیچاری دم نہیں مارتی جو کچھ وہ کہلابھیجتے ہیں روزمرہ برابر پکا کرکھا نا باہر بھیج دیتی ہے اور کبھی کچھ سانس ہی نہیں لیتی۔ دیکھو ساری خلقت اس بی بی کو کیسی واہ واہ کرتی ہے۔ اور خدا کے یہاں جو اسکو رتبہ ملے گا وہ الگ رہا۔ اور جس دن میاں کو اللہ تعالی نے ہدایت دی اور بدچلنی چھوڑ دی اس دن سے بس بی بی کے غلام ہی ہو جاوینگے۔ (اصلی بہشتی زیور ۔ حصہ چہارم صفحہ۴۲) ۔
گوکہ اس کتاب میں مولانا صاحب عورتوں اور خصوصا بیویوں سے مخاطب ہیں لیکن ایک مرد کے طور پر مجھے تو اس بد چلن میاں کی خوبی تقدیر پر رشک ہونے لگتا ہے۔ کہ جب تک بندہ بدچلن رہے تو بیوی ایک باندی ہے جو جی حضوریاں کرتی پھرے، مرغن غذائیں کھلاتی رہے، گھر پہنچنے پر فرشی آداب بجا لائے اور ویسا ہی استقبالیہ تبسم فرمائیں جیسے پاکستانی جہازوں میں چھڑتے وقت مسافروں کیلئے کیا جاتا ہے۔ اور جب تنگ دستی یا ضعف نے آن لیا تو گھر کی طرف مراجعت ویسے ہی فطری امر ہے،کہ دن ڈھلتے پرندھے گھونسلوں کو لوٹتے ہیں اور عمر ڈھلتے بندہ گھر یا گور کو نہ جاوے تو کہاں کا رخ کریں۔ نہ دلیل نہ صفائیِ، جھوٹے بھانے نہ سُدر جانے کی وعیدیں۔ بیچارے انشا جی کو تمام عمر یہی زعم رہا کہ زنجیر پڑی دروازے پر، سجنی سے کرے گا بھانا کیا؟؟
اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۶ مئی کو جو ماڈل تحفظ حقوق نسواں بل پیش کیا اس میں ایک بار پھر نیک پروین بیویوں کے خد و خال تازہ کئے ہیں۔ مارپیٹ کے شوہرانہ و پدرانہ حقوق کو ایک بار پھرجتایا گیا ہے۔ اگرچہ ان سفارشات میں بظاہر چند ایک مراعات کی بات بھی ہوئی ہے لیکن عورت یا بیوی کی مفعولی حیثیت ایک ایسا مظہر ہے جو اسکے کمتر اور ثانوی بشری حیثیت کو اٹل فطری حقیقت کے طور پر بیان کرتا ہے۔ عوامی، سماجی اور کاروباری حلقوں میں مرد و زن کے مخلوط تعامل کی شدید حوصلہ شکنی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ معاشرے میں صنفی تضاد کو کم کرنے کیلئے متنوع کاوشیں حتمی طور پر بند کر دی جائے۔ اسلامی نطریاتی کونسل نے گوکہ گذشتہ سال اکتوبر میں بچوں اور بچیوں کی مخلوط تعلیم کے خاتمے کی سفارش کی تھی اور اب جو سفارشات سامنے آرہی ہیں وہ عورت کے سماجی حیثیت اور فاعلی کردار کو ایک بار پھر سوالیہ نشان بنا رہے ہیں۔
تاریخی حقیقت یہی بتاتی ہے کہ مردانگی کی رٹ دائر کرنے کیلئے پیار ویار کے چونچلے نہیں چلتے۔ اس میں مار ہی کو پیار مان لیا جاتا ہے۔ آخر روایت میں اساتذہ، والدین اور شوہروں کو مارپیٹ کا پیدائشی حق حاصل ہوتا ہے، جس طرح ساس کبھی بہو تھی اور استاد کھبی شاگرد تھا، اسی طرح تشدد مختلف معاشرتی کراداروں کو کاندھوں پر منظم انداز مین نسل در نسل چلتا ہے اور معاشرے میں تقدس اور پیار کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔
عورتوں اور بچوں پر تشدد کو سماجی جواز قدرتی عمل کے نتیجے میں تو حاصل نہیں ہوتا۔ جبر اور استبداد کے اس مساوات میں مذہبی زعما نے عموما کلیدی ہندسے کا کردار ادا کیا ہے، کمال تو یہ ہے کہ یہ ٹولہ مفرد اعداد کی طرح اپنے علاوہ کسی بھی ہندسے پر تقسیم نہیں ہوتے، اور انتہائی آسانی سے تبدیلی کے کسی بھی ممکنہ رخ کو بھانپ کر اسلام کو خطرے سے دوچار تصور کر لیتے ہیں، اپنے اپنے بتان مسلک کو بغل میں دبائے کسی آئی جے آئی یا ایم ایم اے کے آہنی چادر تلے صف آرا ہوجاتے ہیں۔
اشرف علی تھانوی سے مولانا شیرانی تک کے علمی مجاہدے میں فکر کی ارتقا مفقود نظر آتی ہے۔ دیگر رجعت زدہ معاشروں کی طرح یہاں بھی ترقی اور خودکفالت تک نہ پہنچنے کی وجوہات یا تو بن دیکھے بیرونی دشمن بتایا جاتا ہے یا پھر معاشرے کے کمزور سماجی اور مذہبی گروہوں کا چال چلن اسکا موجب ٹہرایا جاتا ہے۔ مسلمانان ہند و پاک کی شکست خوردہ اجتماعی لاشعور میں شاہد یہ بات آج بھی اتنی سختی سے راسخ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کا آغاز عورت کی بنیادی انسانی حقوق اور اسکے فاعلی اور تخلیقی وجود کے مکمل انکار میں مضمر ہے۔
♠