ڈاکٹر طاہر منصور قاضی
قریبا” دو ہفتے پہلے ہم سب ٹورونٹو میں نور ظہیر صاحبہ کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے تھے کہ برادرم منیر سامی نے جناب وجاہت مسعود کا کالم “مارکسزم، خواب، انحراف ۔۔۔ اور کچھ بچا لایا ہوں” کو پڑھنے کی تلقین کی۔ یہ کالم “ہم سب ڈاٹ کام پر 14 مئی 2016 کو شائع ہواتھا۔ اس کالم میں موصوف نے اپنے دلائل کو اتنے براڈ برش سے لکھا ہےکہ اِس ناچیز کو اصلِ مضمون سمجھنے میں دقت ہوئی۔ مارکس کو انہیں موضوعات پر دلائل دینے کے لئے “داس کیپیٹل” کی تین جلدیں اور کتنے ہی کتابچے تحریر کرنا پڑے تھے۔
وجاہت صاحب کی تحریر کے اندر ایک تضاد ہے جس کا ذکر میں سب سے پہلے کرنا چاہوں گا۔ وجاہت صاحب پیراگراف 5 میں فرماتے ہیں ” ۔۔۔ ریاست شہریوں کے ساتھ حقوق اور تحفظات کا ایک مستقل معاہدہ ہے” اور پیراگراف 6 میں لکھتے ہیں “ریاست کے ڈھانچے کو سیاسی اقتدار پر اجارہ دیا جائے تو ریاست غیر حقیقی مقاصد متعین کرتی ہے“۔ کیا وجاہت صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ شہریوں کے حقوق اور تحفظات کا کوئی مستقل معاہدہ ہونا ہی نہیں چاہئے یا یہ کہ شہری حقوق کوئی غیر حقیقی ضرویات ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور دنیا کی بیشتر ناکام ریاستیں شہری حقوق کو غیر اہم ہی سمجھتی ہیں۔
جناب وجاہت صاحب کی تحریر سے محسوس ہوتا حے کہ وہ مارکس کو معاشرے کی مادی تشریح کا بانی سمجھتے ہیں۔ معاشرے کی مادی جانچ پرکھ 18 ویں اور 19 ویں صدی میں ایڈم سمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو جیسے اکابرین مارکس سے پہلے بھی کر چکے تھے۔ اسی طرح ریاست اور مذہب کی علیحدگی کا اصول مارکس سے بہت پہلے 1648 میں ” پیس آف ویسٹ فیلیا” کے معاہدے کے ذریعے طے پا چکا تھا۔ اس لئے مارکس کو اس اصول کا باوا آدم بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مارکس کا نقطہء فکر دراصل تاریخی تناظر میں سرمایہ داری نظام ْکیپٹلزم‘ کا سماجی تجزیہ ہے جس کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ اُس زمانے میں مزدور اور مزدوری کا استحصال زوروں پر تھا، جو اب بھی ہے کیونکہ یہ کیپیٹل ازم کا خاصہ ہے ۔ تاہم یہ بات پیشِ نظر رہے کہ مارکسزم کوئی مذہب نہیں۔ اس کو زندگی کے ہر مسئلے کا حل سمجھنا درست نہیں۔ کئی تاریخی حقائق اس دور میں سامنے آئے ہیں جو مارکس کے گمان میں بھی نہیں تھے۔ مثلا” ماحولیاتی مسائل جو سرمایہ داری نظام کی دین ہیں، مارکس کے یہاں اس کا ذکر اذکار بھی نہیں۔ اس سلسلے میں مارکس کی خاموشی کسی طور مارکس کا درجہ کم نہیں کرتی۔ ماحولیاتی مسائل مارکس کے زمانے میں سامنے تھے ہی نہیں۔ اسی طرح آلاتِ حرب کی صنعت کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں جنگ و جدل کی وجہ سے بربادی کی داستان بہت طویل ہے۔ تباہی، بربادی اور استحصال کی پچھلی کئی صدیوں پر محیط اس تاریخ کا بنیادی ذمہ دار سرمایہ داری نظام ہی ہے ۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ انسان اور انسانیت کی بقا کی قلید سرمایہ داری نظام کے پاس ہے، صرف کوتاہ بینی ہے۔
تاریخِ انسانی میں غلامی باقاعدہ نظام کے طور پر رائج رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اسے اسلام سمیت کسی بھی مذہب نے منسوخ نہیں کیا۔ غلامی اور انسانی حقوق کا استحصال مذہب اور سرمایہ داری نظام کے تاریخی حقائق ہیں جس کے لیے ہمیشہ جبر کے نت نوع طریقے وضع کیے گئے ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرنا دراصل تاریخ سے انکار کرنا ہے۔
تاریخ کے اِس مقام پر مارکس نے استحصال کو خواہ وہ غلامی کی شکل میں ہو، مزدوری کی شکل میں ہو یا کسی بھی اور شکل میں، اسے اقدار کے جذباتی پن سے نکال کر معاشرتی نظام کی سائنسی تشریح کے ساتھ پیش کر کے خود کو انسانیت کے عظیم ترین مفکرین اور پیغمبروں کی صف لا کھڑا کیا ہے۔
کسی بھی بڑے مفکر کی طرح مارکس کے نظریات کا اثر تاریخ، سماج اور شعور غرض یہ کہ زندگی کے ہر پہلو پر ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ مارکسی نظریے کے اثرات مستقبل میں کتنی دیر تک چلیں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ جب تک سرمایہ داری نظام اس دنیا میں موجود ہے، سرمایہ داری نظام کے دانشور اور حکومتیں بھی مارکس کے نظریات کی روشنی میں منزلیں طے کریں گے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے غریب عوام کو سماجی سہولتیں مثلا” صحت اور بے روزگاری الاوءنس وغیرہ فراہم کر کے شخصی اضطراب کو سماجی بدامنی بننے سے روکنے کی سعی کی ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ تا ہم سرمایہ داری نظام کے اندر اس طرح کی سماجی اختراعات مارکس کے تجزیے کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔
ایک بنیادی سوال جو اس مقام پر ضروری ہے کہ مارکسزم اصل میں کیا ہے؟ بہت سے دانشور اسے سوویٹ یونین کا ہدایت نامہ سمجھتے رہے ہیں۔ یہ سوچ بالکل سطحی ہے، کہ جیسے کسی مشین کے ساتھ آئے ہوئے کتابچے کو، جس میں استعمال کی ضروری ہدایات درج ہوتی ہیں، اُسے مشین کی سائنس اور انجیئرنگ سمجھ لیا جائے۔
مارکسزم سماج اور سماجی تجزیےکا باضابطہ نظام ہے جس کی فلسفیانہ اساس “مادی جدلیات” پر ہے۔ مادی جدلیات خود سے ایک علیحدہ موضوع ہے، اس کی تفصیل کبھی آئندہ سہی لیکن اِس منطقی نظام کی روشنی میں مارکس نے انسانی تاریخ کے مختلف ادوار کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ اس حوالے سے ادوار کو “پیداوار کے طریقوں” موڈز آف پروڈکشن کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اِن ادوار میں غلامی، فیوڈل اور سرمایہ داری نظام شامل ہیں۔ اس تاریخی تواتر میں مارکس نے انسانی سماج کی ترقی کے اگلے زینے کو “کمیونزم” کہا ہے۔ تاریخ ابھی اُس مقام تک پہنچ نہیں پائی۔
غلامی، فیوڈل ازم اور سرمایہ داری نظام کی تاریخ کئی ہزار سال پر محیط ہے۔ اِس لئے یہ نقطہ پیشِ نظر رہے کہ تاریخ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے بہت تیز رفتار معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی اصلی حرکت نہایت سست رو ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اشتراکی نظام کا صرف 70 سالہ سوویت روسی تجربہ اپنی تمام اچھائیوں اور برائیوں کے باوجود مارکسزم کے رد و قبول کی کسوٹی نہیں۔ پھر بھی یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سوویت روس نے سماجی سفر انقلاب سے پہلے کے بادشاہی نظام کی پس ماندگی کے ساتھ شروع کیا تھا۔ اس نے صرف 70 سال کے قلیل عرصے میں سو فیصد تعلیم اور صحت کی ترجیحات کو کامیابی سے پورا کیا۔ اسی طرح سائنس، ادب، موسیقی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی قابلِ قدر ترقی ہوئی۔ دنیا بھر میں مزدوروں کے لیے معینہ مدت کے اوقاتِ کار، سالانہ چھٹیاں ، مردوں اور عورتوں کی مساوی اجرت، اور اسی طرح کے دیگر حقوق جو اب ترقی یافتہ ممالک میں عام ہوتے جارہے ہیں، مارکسی نظریے کے ہی مرہونِ منت ہیں۔
مادی جدلیات بے شک ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن اس میں ایک نقطہ جسے ” کلیہء تضاد” یا کنٹرا ڈکشن کہتے ہیں، اس کو سمجھنا ماکسزم کی بنیادی گفتگو یا کسی بھی نظام کے تجزیے کے لیے ضروری ہے۔ یہاں تضاد سے مراد منطقی تضاد نہیں ہے جیسے ‘الف‘ سے مراد جو بھی ہو سو ہو لیکن وہ “ب” نہیں ہو سکتا یا جیسے دو چیزیں تین نہیں ہو سکتیں۔ مادی جدلیات کے نظام میں تضاد سے مراد وہ اکائی ہے جس کے اندر کم از کم دو چیزیں ہوں جن کی زندگی ایک دوسرے پر منحصر تو ہو لیکن اُن کا باہمی رابطہ مخالفانہ یا معاندانہ ہونا چاہیئے۔ مثلا آقا اور غلام ، غربت اور امارت وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ امارت ہے جو غربت کو جنم دیتی ہے اور غربت امارت کو زندگی بخشتی ہے۔ اِن عوامل کی زندگی کا آپس میں ایک دوسرے پر انحصار ہے لیکن دونوں میں ایک دوسرے کے در پے ہوتے ہیں۔
یہ دراصل سماجی حرکیات کا وہ قانون ہے جس کی وجہ سے سماجی نظام ساکت نہیں بلکہ اس کے اندر حرکت یا تبدیلی کا امکان پیدا ہوتا ہے اور یہی وہ گنجائش ہے جس کی بدولت سماج میں تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ تاہم ترقی پسند قوتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود منظم ہوں اور اپنی تھیوری میں واضح طور پر عدل و انصاف کے اصولوں کو مانتی ہوں تبھی مستقبل میں ایک مُثبت تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ کلیہء تضاد کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو خود سے صرف اور صرف مثبت نتائج کی ضامن ہو۔
اِس جگہ یہ سمجھنا بھی از حد ضروری ہے کہ جدلیاتی نظام میں کوئی ایسی حدیث بھی نہیں جو یہ کہے کہ ہر زمانے میں اور ہر جگہ تضاد کا رشتہ ہمیشہ ایک جیسا ہو گا۔ اِسی لئے جدلیاتی گفتگو اور بحث کا سلسلہ ہمیشہ چلتا رہنا چاہئے تا کہ سماج کے اندر رشتہ تضاد جو اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے اُس کا حالات کے مطابق نئے سرے سے تعین ہوتا رہے۔ مارکسزم کے اندر حرکیات کا یہ قانون اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہاں کچھ بھی آخری صحیفہ نہیں بشمول مارکس کے اپنے تجزیات اور اقوال کے۔
کلیئہ تضاد کی بات چلی تو مندرجہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ مارکسی نظامِ فکر کے اندر پرولتاری آمریت کا تضاد جمہوریت سے نہیں بلکہ اُس سرمایہ داری نظام سے ہے جس میں جمہوریت صرف انتخابی گنتی تک محدود رہے یا وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت جس میں جمہوری طریقہء کار سے نہ تو زرعی اصلاحات ہو سکیں اور نہ ہی صنعت کار کو مزدوروں کے حقوق کے لئے قانونی اور عملی طور پر پابند کیا جا سکے، جہاں نہ تو عورتوں کے حقوق محفوظ ہوں اور نہ ہی اقلیتوں کے سر سے خوف کا سایہ اٹھ سکے۔ پاکستان اور بہت سی دیگر ریاستیں اس کی واضح مثال ہیں۔
وہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک جہاں یہ حقوق نسبتا” محفوظ ہیں وہاں بھی سرمایہ دار پیسے کے بل بوتے پر انتخابی عمل کے راستے سے منافع کی خاطر حقوق کو سلب کرنے کی تاک میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی شہر ڈیٹرائٹ میں بینکرپسی کی وجہ سے عام ملازمین کو اپنی پنشن اور دیگر مراعات سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں جگہ جگہ موجود ہیں جہاں جمہوری عمل اور قانونی ضابطے اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ اُن کے فائدے کا جھکاوء سرمایہ دار کی طرف زیادہ اور عوام کی جانب ذرا کم کم ہوتا ہے۔
لہٰذا مارکس کی فکر کے اندر آمریت سے مراد انسانی حقوق اور آزادی کو سلب کرنا نہیں بلکہ اُس نظام کا کنٹرول ہے جو کبھی قانونی طریقہ کار سے اور کبھی سماجی اور کلچرل دلائل کو بنیاد بنا کر غریب عوام اور مزدورں کے حقوق پر ہمیشہ ڈاکہ زنی کرتا رہتا ہے۔ یہ وضاحت کچھ اس لیے بھی ضروری تھی کہ بہت سے دانشور پرولتاری آمریت کے الفاظ کو صرف لفظی معنوں میں استعمال کر کے دانستہ یا نادانستہ طور پر غلط بیانی کرتے رہتے ہیں۔
تاریخی تناظر میں سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ سماجی تضادات سرمایہ داری نظام کے اندر موجود ہیں اور حقوق کے لیے جدوجہد بھی اسی نظام کی بساط پر ہو رہی ہے۔ یہ بات بذاتِ خود ایک دلیل ہے کہ “سرمایہ داری نظام” بنک میں پیسے جمع کرانے یا نکلوانے کی آزادی کا نام نہیں بلکہ یہ رشتوں اور رابطوں کا ایک مکمل سماجی ضابطہ ہے جس کا بنیادی عنصر “کموڈٹی” ہے۔ جس طرح ہر مالیکیول کے اندر کسی چیز کی مکمل خصوصیات ہوتی ہیں اسی طرح کموڈٹی کی پیداوار کے نظام کی ماہیت کے تجزیے کے لیئے کموڈٹی ہی وہ بنیادی مالیکیول جسے پرکھے بغیر سرمائے کے نظام کو سمجھنا ناممکن ہے۔
ایکالوجی یا ماحولیات ہمیں بتاتی ہے کہ نیچر ایک مکمل نامیاتی وحدت ہے۔ اس کے اندر ہر چیز کی زندگی کا انحصار دوسری چیزوں پر ہے۔ نیچر کے اندر مختلف اشیاء کا آپس میں کوئی تجارتی رشتہ نہیں، اسی لیے نیچر میں کسی قسم کی کموڈٹی کا وجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس انسانی معاشرتی رہن سہن کے سرمایہ داری نظام نے جب اشیاء کو ضرورت کی بجائے تجارت کے لیے بنانا شروع کیا تو کموڈٹی وجود میں آئی۔ کموڈٹی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک جس کی قیمت ہے اور دوسری جس کا تبادلہ یا ایکسچینج ویلیو کیا جاتا ہے۔
سرمائے کا نظام جس کا مقصد منافع کمانا ہے ہر اُس چیز کے پیچھے دوڑتا ہے جس کی ایکسچینج ویلیو یا قدر تبادلہ ہوتی ہے۔ سرمایہ داری نظام میں اِس طرح کموڈٹی کو بنانے کے دو نتائج سامنے آئے۔ ایک تو منافع کمانے کی بے انت دوڑ میں ماحول یعنی نیچر کو جو نقصان ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے اس کا اندازہ تو مستقبل میں ہو گا اور اس کی بات پھر کبھی سہی، اِس وقت موضوع نظر مزدور کا وہ خون پسینہ اور محنت ہے جس کے ذریعے نیچر کو سرمایہ داری کی منڈی میں نیلام کے لیے لایا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مزدور کی محنت اسے زندہ رہنے کی حد تک تو تنخواہ مہیا کرتی ہے مگر سرمایہ دار کو مزدور کی محنت کے مقابلے میں اور محنت کی وجہ سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ مزدور کی محنت کے نتیجے میں پیدا شدہ ویلیو یعنی “اضافی قدر” کا جائز حق دار کون ہے؟ آیا سرمایہ دار یا مزدور اور مجموعی سماج؟ اس کے بارے میں مارکس کے خیالات پر بعد میں بات ہو گی مگر یہ خیال رہے کہ سرمایہ، محنت اور منافع کی باتیں مارکس سے پہلے جو دانشور کر رہے تھے، ان سرمایہ داری علماء نے پیداوار اور تجارت کے نظامِ منافع کو صرف سپلائی اور ڈیمانڈ کی تھیوری تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ یہ تھیوری معاشیات کے سماجی تعلق کے بارے میں مکمل خاموش ہے۔ مارکس وہ پہلا مفکر ہے جس نے معاشیات کی سماجی جہتیں دریافت کیں۔
جو بات مارکس کو تمام مادی دانشوروں میں ممتاز کرتی ہے وہ تاریخ کا جدلیاتی مطالعہ ہے جس سے مارکس نے یہ نقطہ دریافت کیا کہ کس طرح سرمایہ داری نظام نے محنت اور مزدوری جو کہ ایک غیر مادی چیز ہے، اس کو بھی ناپنے، خریدنے اور بیچنے کی ایک کموڈٹی بنا دیا۔ اس طرح تجارت کے اندر ایکسچینج ویلیو کا کلیہ سامنے آیا۔ دوسرے لفظوں میں اشیاء کی قیمتوں میں مزدور کی محنت کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے بہت سے علماء نے استعمال کرنے کی قیمت پر زور دے کر مزدور کی محنت کے عنصر کو نظروں سے چھپانے کی بہت کوشش کی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مزدور کی محنت کے گِرد سماجی قدروں کا ایک پردہ ایستادہ کر دیا۔ انہوں نے مزدور کی محنت کے گرد مذہب، کلچر اور روایت کی دیواریں اس طرح کھڑی کیں کہ مزدور کی “محنت بحیثیت کموڈٹی” مارکس سے پہلے تمام مفکروں کی نظر سے اوجھل رہی۔ وہ مادی نظام کی باتیں تو کرتے رہے مگر مادی نظامِ سرمایہ داری کی بنیادی اکائی یعنی کموڈٹی جس میں محنت اور قدر مبادلہ اکٹھی ہوتی ہیں، اس کی اہمیت ان کی نظروں میں کوئی جگہ نہ پا سکی۔
یہی اکائی یا کموڈٹی جب مارکس کے تاریخی محدب عدسے کے نیچے آئی تو اس کے اندر چھپے ہوئے سماجی رشتے، مزدوری کی قدر یا ویلیو اور سرمایہ داری نظام کا ارتقاء روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا چلا گیا۔ اس سے یہ بھی سامنے آیا کہ زمین، سرمایہ، غلام یا مشینیں جیسی اشیاء پر تجزیے کے لیئے نظر رکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ جس بات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے وہ زمین نہیں زمیندار ہے، سرمایہ نہیں بلکہ سرمایہ دار، آقا اور مالکان ہیں جن کے باہمی رشتوں سے سماج کی ترتیب اور قوانین کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ بعد میں روایت، کلچر اور مذہب اُنہیں حدود کے محافظ بن جاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں فنون بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ضمنی طور پر یہ کہنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہی فن و ادب جو زمینی حقائق سے جڑا ہوا ہو، ترقی پسند فن کہلانے کا حق دار ہے۔
بات کا رُ خ واپس سرمایہ داری کی طرف موڑتے ہوئے اب ہمیں اس بات کا ادراک بھی ہونے لگا ہے کہ جب مزدور کی محنت منافع میں اضافے کا باعث بنتی ہے تو کام کرنے والے ہاتھ جتنے زیادہ ہوں گے تنخواہ اتنی ہی کم ہوتی چلی جائے گی۔ اسے زائد لیبر کہتے ہیں جو دراصل نہایت منافع بخش طریقہ کار ہے۔ کارندوں کی تعداد میں اضافہ کبھی امیگریشن کے قوانین میں تبدیلی اور کبھی نئی مشین یا ٹیکنالوجی کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبلائزیشن کا عمل سامنے آیا ہے۔ اس کا کلچر کے پھیلاوء کے معنوں میں ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں میں ایک نیا آلہ ہے جس کی وجہ سے کم قیمت مزدوروں کو پوری دنیا میں ڈھونڈا اور استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ دنیا بھر میں کم قیمت مزدور استعمال کرنے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ چین کے سستے مزدوروں کے بعد اب دوسرے ملکوں کے مزدوروں کو ان سے بھی زیادہ سستے داموں خریدا جا رہا ہے۔
ان سب ہی عوامل کی تفصیل تو بہت لمبی ہے مگر اس تجربے سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ معاشرے کے اندر محنت کی کمائی سے زندہ رہنے کا سامان کرنے والے مزدور تعداد میں زیادہ اور ان کے خون پسینے کو چوسنے والے سرمایہ دار عددی طور پر کم ہونے کے باوجود سماج کی سیاست کے کھیل میں آگے آگے رہنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ سرمایہ داری معاشرے میں سیاست کا کھیل دراصل طبقاتی تقسیم کو مضبوط بنانے کا عمل ہے۔ طبقات کے درمیان تفاوت سماج کے اندر موجود وہ اکائی ہے جسے ہم پہلے تضاد یا کنٹرا ڈکشن کا نام دے چکے ہیں۔ سماجی حرکیات انہیں تضادات کا منطقی نتیجہ ہوتی ہیں۔ تاہم ان تضادات کی وجہ سے ہلکی پھلکی بد امنی تو ہو سکتی ہے لیکن انقلاب کی سونامی کے لیے خود ریاست کا شکست و ریخت سے دوچار ہونا بھی بعینہ ضروری ہوتا ہے۔ انقلاب کے قوانین ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اس مضمون میں ان قوانین کی تفصیل کی ضرورت نہیں لیکن سرمایہ داری نظام کے اندر سماجی ارتقاء کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
انقلاب کے نقطہء نظر سے مثال کے لیے 1917 کا روسی انقلاب اس بات کا گواہ ہے کہ وہاں معاشرہ ارتقاء کی اس منزل پر نہیں تھا کہ جہاں اندرونی تضاد کے نتیجے میں روسی ریاست کی شکست خود سے ایک نئے اور بہتر معاشرے کی تشکیل میں ممد ہوتی۔ جب روس میں ریاست کا شیرازہ بکھرا تو بالشوک پارٹی جس نے بعد میں ریاست کی باگ ڈور سنبھالی، ان کا انقلاب لانے میں کسی قسم کا کوئی ڈائریکٹ ہاتھ نہ تھا۔ اس وقت لینن سمیت تمام لیڈران جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ چند مہینوں کے بعد جب یہ لیڈران واپس پہنچے اور اگلے کچھ مہینوں میں انتخابات ہوئے تو بالشوک پارٹی کو صرف 24 فیصد اور دوسری پارٹی کو 41 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ بات الگ ہے کہ بالشوک پارٹی کے ممبران نے تشدد آمیزی کے ذریعے باقی سب کو زیر کر لیا۔ بعد میں تشدد آمیزی کا یہی رویہ پارٹی کے کئی لیڈران اور عام کارکنان کے ساتھ بھی برتا گیا۔ سٹالن کے دور میں تو تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ یہاں یہ ذکر بھی اہم ہے کہ مارکسی نظامِ فکر میں انسانی آزادیوں کو سلب کرنے کی کوئی ترغیب یا تحریک موجود نہیں ہے۔
تشدد آمیزی اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کے باوجود ملک میں عوام کے لیے صحت اور تعلیم پہلے جس کا فقدان تھا اب اس کا چشمہ بہنے لگا۔ اسی طرح اس انقلاب نے عام انسانوں کو ایک حوصلہ اور اعتماد بخشا کہ ظلِ الہی بادشاہ سلامت کی رعیت میں زندگی کوئی خدائی قانون نہیں۔ انسان خود نئے سماج کو ترتیب دے سکتے ہیں۔ اس مقصد کے واسطے جس محنت اور جاں فشانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ لوگ خود آپس میں طے کرسکتے ہیں اور اس محنت کا ثمر سماج کی مجموعی ملکیت ہوتا ہے۔ اس طرح مزدور کی محنت کی “قدر زائد” چند ہاتھوں میں ارتکاز پذیر ہونے کی بجائے سماج کی بہتری میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ سماجی ترتیب کا یہ قرینہ دیوانے کی بڑ نہیں، فرزا نے کی محنت کا انعام ہے۔
سو لازم تھا کہ امیر ترین سرمایہ دار ملک متحد ہو کر اس نظام کو شکست دینے کے لیے اپنے سارے وسائل استعمال کریں، اور اس کے ساتھ ہر طرح کے نفسیاتی، مذہبی، سیاسی، سماجی، متعصب میڈیا، اور جنگی حربے استعمال کریں۔ اور یہی ہوا ، جس کے نتیجہ میں وہ نظام جو ابھی اپنے ارتقا کے صرف سترویں سالوں میں تھا، کمزور ہوا اور اسے شکست ہوئی۔ سوویت یونین کے زوال کی سرمایہ دارانہ تاویلات کو قبول کرتے وقت ہمارے بعض لبرل دانشور یا وہ جو ماضی میں مارکسزم سے منسلک ہونے کے دعوے کرتے ہیں، بعض اہم حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسا وہ اس پروپیگنڈے کے اثر میں کرتے ہیں جو استعماری سرمایہ داری کے ذرائع ابلاغ کا پھیلایا ہو اہے۔ اس پروپیگنڈے اور ذہنوں کو کنٹرول کرنے کی چالوں کو ممتاز دانشور نوم چومسکی نے مینوفیکچرڈ رضامندی کا نام دیا ہے۔
یہ بات کرتے ہوئے ہم یہاں سوویت یونین کے نظام کی اندرونی کمزوریوں سے صرفِ نظر نہیں کر رہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سوویت تجربے کی ناکامی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عظمتِ انسان کا مارکسی خواب بھی اس تجربے کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔
اسی انقلاب کے مطالعے سے ایک اور بات بھی واضح ہوئی کہ وہ انقلاب جو خود انسانی آزادی کا غاصب ہو جائے، اُسے مصنوعی طریقے سے زندہ رکھنا بھی نہایت مشکل کام ہے۔ اس کمزوری کو دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے متحد ہو کر سوویت نظام کی شکست کے لیے استعمال کیا۔ سو سویت انقلاب کے ساتھ بھی وہی ہوا جو انسانی آزادیوں کو سلب کرنے والے کسی بھی نظام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ سوویت نظام کا شیرازہ بے شک بکھرا مگر انسان کی آزادی اور برابری کے مارکسی آدرش تو بدستور موجود ہیں۔ بقول فہمیدہ ریاض:۔
مجسمہ گِرا مگر
زمیں پہ زندگی دکاں کے نام تو نہیں ہوئی
ہماری داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی ۔
نوٹ:۔
مصنف اس مضمون میں مدد کے لیے منیر سامی اور نزہت صدیقی کا تہہ دل سے شکرگزار ہے۔♦
وجاہت مسعود صاحب کے مضمون کا لنک درجہ ذیل ہے:۔♦
http://www.humsub.com.pk/15522/wajahat-masood-81
مصنف سے رابطے کے لیے: [email protected]♦
7 Comments