ہم نظریاتی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں

liaq

لیاقت علی ایڈوکیٹ

قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہندووں ، سکھوں، انگریزوں اور دیگر غیرمسلم سیاسی ، سماجی اور مذہبی شخصیات کے ناموں پر بننے والے شہروں ، پارکوں،تعلیمی اداروں اور عمارتوں وغیرہ کے نام بدلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔بعض اداروں کا نام ہم بدلنا چاہتے تھے لیکن قانونی مجبوریاںآڑے آئیں اور ہم ایسا کرنے سے باز رہے جیسا کہ لاہور کا سر گنگا رام ہسپتال ، فیر وز پور روڈ پر واقع گلاب دیوی چیسٹ ہسپتال ، ایبٹ روڈ پر جانکی دیوی ،جمعیت سنگھ زچہ بچہ ہسپتال اور میوہسپتال کے پہلو میں موجود لیڈی ایچیسن ہسپتال وغیرہ لیکن ہم نے بالک رام میڈیکل کالج جو قیام پا کستان کے وقت ابھی اپنے تشکیلی مراحل تھا کو فاطمہ جناح میڈکل کالج کا نام دے دیا ۔

لاہور کے مال روڈ کوہم نے شاہراہ قائد اعظم کا نام تو دے دیا لیکن آج بھی اسے مال روڈ ہی کہتے ہیں۔ میکلوڈ روڈ کو لیاقت علی خان روڈ کا نام دیا گیا تھا لیکن یہ نام کبھی زبان زد عام نہیں ہوا ۔لاہوری آج بھی اسے میکلوڈ روڈ کے نام ہی سے پکارتے اور لکھتے ہیں ۔لاہور کا لارنس گارڈن تمام تر کوششوں کے باوجود جناح گارڈن نہیں بن سکا ۔ لیکن گول باغ ناصر باغ بن چکا ہے ۔ نئی نسل کو نہیں پتہ کہ جسے وہ ناصر باغ کہتی ہے چالیس سال پہلے تک اس باغ کو لاہور کے باسی گول باغ کے نام سے جانتے تھے ۔

اور جسے آجکل گریٹر اقبال پارک کا نام دیا جارہا ہے اس کو منٹو پارک کہا جاتا تھا اور یہی وہ منٹو پارک تھا جہاں 23مارچ 1940کو آل انڈیا یونین مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کیا تھا جس میں قرارداد لاہور منظور کی گئی تھی جسے آج ہم قرارداد پاکستان کے نام سے جانتے ہیں ۔ اگر کبھی نئی نسل کا کوئی فرد یہ پوچھ لے کہ لاہور میں منٹو پارک کہا ں ہے جہاں پاکستان کی قراردار منظو رہوئی تھی تو ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔ایمپریس روڈ شاہراہ عبدالحمید بن بادیس بن چکا ہے ۔ڈیوس روڈ سرسلطان محمد آغا خاں روڈ میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

لائل پور کب کا فیصل آباد بن چکا ۔شیخو پورہ کے قریب واقع قصبہ چوہڑ کانہ کو فاروق آبادکا نام دیا گیا ہے ۔لا ہور قصور روڈ پر ایک چھوٹا سا قصبہ للیانی ہو ا کرتا تھا اب اس کو اسلامائز کرکے مصطفی آباد کا اسلامی نام دے دیا گیا ہے ۔ قصور چونیا ں روڈ پر ایک اور قصبہ ہے جسے ماضی میں ٹھینگ موڑ کہا جاتا تھا لیکن اب اسے الہ آباد کا نام دے دیا گیا ہے ۔

کراچی میں ایک رام باغ ہو اکرتا تھا اسے ہم نے بڑی آسانی سے آرام باغ بنا دیا ہے اور ملتان میں رام باغ قاسم باغ بن گیاہے ۔میری قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اپنے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں جو نام تبدیل ہوئے ہیں اس کے بارے میں لکھیں ۔میرے خیال میں یہ ایک خاصی کتاب بن جائے گی۔

اس مجوزہ کتاب سے پتہ چلے گا کہ جس فکری اور نظریاتی گرداب میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اس کی ابتدا جنرل ضیاء کے دور سے نہیں خود قائد اعظم کے عہد سے شروع ہوگئی تھی جب ہم نے 15اگست کی بجائے 14۔اگست کو اپنا یوم آزادی قرار دیا تھا ۔

One Comment