بہشتی زیور معاشرہ

Razak khatti1

رزاق کھٹی

پاکستان اصل میں ایک بہشتی زیور معاشرہ ہے۔ جس میں عورت کی حیثیت ایک غلام کی سی ہے۔ اس ملک میں مُلا ہو یا مفتی، قبیلے کا ایک سردار ہو یا وڈیرہ خان اور یا چوہدری ان سب کے سامنے عورت کی حیثیت ایک جنسی پرزے یا خصیص نوکر سے زیادہ نہیں۔

بحیثیت مجموعی ہمارہ معاشرہ عورت کو ایک ایسے گناہ کی علامت سمجھتا ہے،جسے دیکھتے ہی آپ کے ذہن میں شہوانی خیالات در آتے ہیں۔ اس لیے اس معاشرے کی اکثریت آج بھی عورت کو اس بات کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں کہ وہ دفتر جاکر کام کرے، بازار میں دکان کھول کر بیوپار کرے، سائیکل یا موٹر سائیکل چلاکر اپنے کام خود کرے۔ اگر وہ اپنے گھر میں بھی کبھی موڈ ہونے پر بناؤ سنگھار کرلے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔

بھائی ہو یا شوہر ان کے اندر ایک ایسا مرد موجود ہے، جو ہر عورت کو صرف ایک ہی انداز سے دیکھتا ہے۔ حالانکہ وہ سارے کام خود کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ استحقاق صرف اسے ہی حاصل ہے، اس لیے عورت کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ کبھی اس بارے میں سوچے بھی!۔

عورت ہمارے معاشرے میں صدیوں سے ملکیت تھی اور اب بھی ہے، تھوڑی بہت جو آپ کو ٹی وی اسکرین یا بازاروں اور دفاتر میں تبدیلی نظر آتی ہے وہ بھی مُلا کو قابل قبول نہیں ، وہ سمجھتا ہے کہ عورت کے باہر نکلنے سے بے حیائی میں اضافہ ہوا ہے۔

’’ جاگیردار معاشرے میں عورت کی حیثیت ہمیشہ ایک ملکیت کی سی رہی ہے۔ جس میں اس کی آزادی ،حق اور رائے مرد کی مرضی کی محتاج رہتی ہے۔ اس معاشرے کا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ان اقدارکی ہمت افزائی کرے جس سے عورت مرد کے تابع اور فرمانبردار رہے اور اس کی آزدی کے تمام راستے مسدود کردیئے جائیں‘‘۔

اٹھارویں صدی کا اختتام اور انیسویں صدی کا آغاز ، پرانے اقدار مر رہے تھے۔ نئی روایات جنم لے رہی تھیں ۔ ان دنوں برصغیر میں جاگیردار طبقے کیلئے سب سے زیادہ پریشانی یہ تھی کہ اگر نئی روایات نے طاقت حاصل کرلی تو اس کی سیاسی طاقت کا اثر ختم ہوجائیگا۔ اس لیے ہر صورت جاگیرداری روایات کا بچنا ضروری تھا۔

نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے مضمون ’’ معاشرہ، عورت اور بہشتی زیور ‘‘ میں ان حالات کا نہ صرف تفصیل سے جائزہ لیا ہے بلکہ ان لوگوں کے چہرے پر چپکے سے نقاب کو بھی نوچ کر اتارا ہے جنہوں نے مذہب کا استعمال کرکے عورت کو غلامی میں دھکیل دیا، برصغیر میں ان دنوں اگر اس طرح کی کوشش کامیاب نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ آج ہمارے معاشرے میں عورت کی حیثیت مختلف ہوتی۔ لیکن کیونکہ مُلا ہمیشہ دربار اور طاقت کو مذہبی بنیادیں فراہم کرتا رہا اس لیے ان دنوں جاگیرداری کی روایات کو بچانے کیلئے ایک مولوی نے اپنے حصے کی کوشش کی ۔

ڈاکٹر مبارک لکھتے ہیں کہ ان دنوں جاگیردار طبقے کی نمائندگی اس دور کے سب سے بڑے عالم دین مولانا محمد اشرف تھانوی( 1848سے 1943) نے کی۔ انہوں نے بہشتی زیور نامی ایک کتاب لکھ کر گرتے ہوئے جاگیرداری سماج کو کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ عورت کو مذہبی بنیادوں کے سہارے اسی پوزیشن پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جو جاگیرداری نظام نے اس کیلئے مختص کررکھی تھی۔

مولانا اشرف تھانوی نے بہشتی زیور کے دس حصے لکھے اور اسے ایک جلد میں شائع کیا۔ برصغیر میں ایک بڑے عرصے تک اور شاید اب بھی والدین اپنی بیٹی کو نہ صرف یہ کتاب جہیز میں دیتے ہیں بلکہ اسے تاکید بھی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف یہ کتاب پڑھے بلکہ اس پر من و عن عمل بھی کرے ۔ اس کتاب کے حوالے سے یہ بھی تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ ہر نئی شادی شدہ خاتون پر اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ اس کام سے اجر بھی ملتا ہے۔

بہشتی زیور میں واضح پیغام دیا گیا گیا ہے کہ عورت نہ صرف مرد کی آقائیت قبول کرے بلکہ اس پر شکرانے بھی بجا لائے۔ اور فخر بھی کرے ۔ ڈاکٹر مبارک لکھتے ہیں کہ ’’ مولانا تھانوی نے اپنی کتاب میں عورت کو نہ صرف اچھا غلام بنانے کی تمام ترکیبیں اور گر بتائے ہیں بلکہ گھرداری اور مرد کو خوش کرنے کے طریقے بھی بتائے ہیں‘‘۔

مولانا تھانوی عورت( بیوی ) کو ہدایت کرتے ہیں کہ اگر اس کا شوہر حکم کرے کہ وہ ایک بڑا پتھر اٹھاکر ایک پہاڑ سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پہاڑ پر لے جائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیئے۔۔۔ عورت اگر مرد کی ہدایت کے باوجود بناؤ سنگھار نہ کرے تو مرد کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسے مارپیٹ کرے۔۔۔ بیوی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ شوہر کی مرضی کے بغیر میکے بھی جاسکے ۔

مولانا یہ بھی بتاتے ہیں کہ خواتین کو کونسی کتابیں پڑھنی چاہئیں اور کون سی کتابوں سے دور رہنا چاہیے۔وہ مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حسن و عشق کی کتابوں کا مطالعہ ناجائز ہے۔ شاعری اور کہانیاں اور ناول بھی کسی صورت میں خواتین کو نہیں پڑھنے چاہئیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو کوئی کتاب پڑھنی ہے تو وہ پہلے کسی عالم دین سے رجوع کرے ۔

لیکن مولانا تھانوی کو یہ اندیشہ لاحق ہوتاہے کہ اگر کوئی عالم دین ٹھیک طرح نہیں سمجھا سکا تو کیا ہوگا، اس لیے وہ خود ہی جائز اور ناجائز کتابوں کی فہرست بھی درج کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ داستان امیر حمزہ ، گل بکاؤلی، الف لیلیٰ اور اس طرح کی دیگر کتابوں کا مطالعہ جائز نہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ بیوی کی زندگی کا مقصد شوہر کی خوشی میں ہے۔ اسے چاہیئے کہ وہ شوہر کی آنکھ کے اشارے پر چلے۔ شوہر حکم کرے تو اس کی بیوی ساری رات اس کے سامنےہاتھ جوڑ کر کھڑی رہے ۔

وہ دن کو رات کہے تو اسے رات کہ کہنا چاہیئے۔ کبھی بھی شوہر کی غیبت نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ اس سے آخرت خراب ہوتی ہے۔ شوہر سے کبھی بھی اضافی خرچہ نہیں مانگنا چاہیئے۔ کوئی فرمائش نہیں کرنی چاہیئے۔ شوہر اگر کوئی تکلیف دے تو اس پر ردعمل دینے کے بجائے خوشی کا اظہار کرنا چاہیئے۔ شوہر کا مزاج دیکھ کر بات کرنی چاہیئے۔بیوی کبھی بھی شوہر سے اپنی برابری نہ کرے۔ شوہر سے کوئی خدمت نہ کرائے۔ اگر شوہر سر دبائے تو اسے روک دے۔

مولانا کے مطابق خدا نے مردوں کو شیر بنایا ہے،وہ کسی طور زیر نہیں ہوسکتے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر کسی عورت کا شوہر کسی دوسری عورت سے ملتا ہے تو اس عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے شوہر کو تنہائی میں سمجھائے اور اگر پھر بھی شوہر اس کی بات نہیں مانتا تو بیوی کو چاہیئے کہ صبر کرے اور خاموش ہوجائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بیوی اپنے میکے ہفتے میں ایک بار جاسکتی ہے۔ جبکہ دیگر رشتہ داروں کے ہاں سال میں ایک بار جاسکتی ہے۔ لڑکی کے والدین کو بھی اپنی بیٹی کے پاس ہفتے میں ایک بار جانے کی اجازت دی گئی ہے، وہ اجازت بھی شوہر کی مرضی کے ساتھ مشروط ہے۔

قیام پاکستان کے بعد بیشتر سماجی معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ خصوصاً خواتین کے ساتھ رویے میں سماجی طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ اب بھی خواتین ہمیں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرتے نظر آتی ہیں۔ بیشتر شعبوں کی وہ سربراہی بھی کرتی ہیں۔ ان کی انتظامی حیثیت اپنی جگہ، لیکن سماجی حیثیت وہی ہے جو اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز میں تھی۔

شہید بے نظیر بھٹو اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ وہ جب پاکستان کی وزیر اعظم بنیں تو ان کی حکمرانی کو عورت ہونے کے ناطے ناجائز قراردیا گیا۔ ان کے سیاسی مخالفین ان کو عورت کےطور پر نشانہ بناتے تھے۔ انہیں اس طرح کے مسائل کا سامنا ذاتی زندگی میں بھی تھا۔

حال ہی میں خواتین پر جو غیر انسانی تشدد کے مختلف واقعات سامنے آئے ہیں اس کے بعد ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ خواتین کے تحفظ کیلئے قانون سازی کیوں نہیں ہوتی؟ خصوصا اینٹی آنر کلنگ کا بل منظور نہ ہونے پر شور بھی سنا جارہا ہے، سینیٹ میں بھی اس بارے میں اظہار خیال کیاگیا ہے ۔ سابق سینیٹر صغرا امام کا یہ بل ایک طے شدہ معاہدے کے مطابق گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہونا تھا لیکن مذہبی جماعتوں کی مخالفت اور ن لیگ کی منافقت کے نتیجے میں یہ بل پاس نہ ہوسکا۔

ان ہی دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا محمد خان شیرانی کے عورتوں کے حوالے سے خیالات بھی سامنے آچکے ہیں، وہ تیرہ سالہ بچی کی شادی اور عورت کو ہڈی نہ ٹوٹنے کی شرط پر تشدد کرنے کے حامی ہیں۔ ان کی سفارشات نے پاکستان اور اسلامی افکار کو بھی دنیا میں مذاق بنادیا ہے۔

گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں خواجہ آصف نے شیریں مزاری کیلئے جو الفاظ کہے ان پر فوری طور پر تو قومی اسمبلی میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ،البتہ شام کو جب ٹی وی اسکرین پر ان کا ذکر ہوا تو دوسرے دن خواجہ آصف نے شیریں مزاری کے بجائے ایوان سے تحریری معذرت کی لیکن شیریں مزاری سے ان کا نام لیکر معذرت کرنے سے انکار کردیا۔

عورت تنقید اور تذلیل کیلئے آسان ہدف ہے، آپ اس کیلئے جو منہ میں آئے کہہ دیں ۔ جس وقت خواجہ آصف شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ رہے تھے تو ن لیگ کی خواتین ارکان بھی ڈیسک بجارہی تھیں۔

جب یہی معاملہ الیکٹرانک میڈیا میں زیر بحث آیا تو ایک ٹی وی پروگرام میں جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمداللہ اور خواتین حقوق کیلئے جانی مانی جانے والی خاتون ماروی سرمد کے درمیان ہونے والی جھڑپ دیکھی جاسکتی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=FFaTQaejfKM

اس واقعے کے بعد ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بہشتی زیور کی تعلیمات ابھی تک جوں کی توں موجود ہیں۔

جے یو آئی کی ناراضگی کے خوف سے ن لیگ کی حکومت خواتین پر تشدد کے خلاف پنجاب اسمبلی سے منظورکیے گئے قانون سے دستبردار ہوگئی، لیکن غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی حمایت کے باجود منظور نہیں کرایا گیا۔

پاکستان میں آج بھی ایک بڑی اکثریت مولوی سے خوفزدہ ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے ریاستی ادارے تھے۔ اور اب تو مُلا خود بھی ایک ایسی قوت بن گیا ہے جو موجودہ نظام کو سہارا دیئے ہوئے ہے۔ مُلاگردی کے خلاف آواز اٹھانا جان جوکھوں میں ڈالنے کے برابر ہے۔ پاکستان کی موجودہ قومی اسمبلی میں مذہبی جماعتوں کی موجودگی پانچ فیصد بھی نہیں۔ لیکن 345 ارکان میں سے صرف 17 ارکان کی ناراضگی مول نہیں لی جاسکتی۔

ہمارا معاشرہ ابھی تک عورت کے معاملے میں بہشتی زیور سے باہر نہیں نکل سکا۔ عورت کے معاملے پر مُلا اور جاگیردار ایک پیج پر ہیں۔

رزاق کھٹی، اسلام آباد میں” اب تک”ٹی وی میں سیاسی اور پارلیمانی امور کے سینئر رپورٹر ہیں، اس کے علاوہ سندھی روزنامہ سندھ ایکسپریس اور پندرہ روزہ نیوز میگزین افیئر کیلئے بھی مضامین لکھتے ہیں۔

Comments are closed.