ہمارے مالک کون ہیں
کیا یہ جاگیردار یا پھر سرمایہ دار ہیں؟ یہ حقیقت ہماری تعلیمی پالیسی کا محور و مرکز ہوتی ہے
حکومت ہمیشہ بالادست طبقات کی ترجمان اور نمائندہ ہوتی ہے جب ہم مطلق العنان بادشاہ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ بھی جاگیردار طبقات کا نمائندہ ہوتا تھا سچ تو یہ ہے کہ یہ تسلسل آج بھی بدستور جاری و ساری ہے آج کے اس مہذب اور سائنسی دور میں بھی حکومت اور پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد کا تعلق جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات سے ہی ہوتا ہے یہ حکمران اور وزراء اپنے طبقاتی مفادات کو پیش نظر رکھ کر پالیسیاں وضع کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرواتے ہیں اگر ملک کی معیشت پر جاگیردارحاوی ہیں تو حکومت ان کی نمائندگی کرتی ہے اور اگر سرمایہ دار بااثر اور طاقتور ہیں تو پھر ان کے مفادات کا خیال رکھاجاتا ہے
جس طرح ملک میں معاشی لحاظ سے بہتر طبقات حکومت کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں اسی طرح جو قومیں دوسروں سے بہتر ،طاقتور اور سمجھ بوجھ کے لحاظ سے آگے ہوتی ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بااختیار اور منفعت بخش ادارے اورعہدے ان کے پاس ہی ہوں تاکہ ان کے ذریعے وہ زیادہ سے زیادہ مراعات اورسہولتیں حاصل کرسکیں اور دیگرقوموں کے وسائل اپنے تصرف میں لانے میں کوئی چیز مانع اور رکاؤٹ نہ ہوان کی یہ بھی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ریاستی پالیسیو ں کی تشکیل میں ان کا بنیادی کردار ہوتاکہ اپنے قومی استحصال کو آئین اور قانون کا تحفظ اور ڈھال بھی فراہم کرسکیں زبردست اور زیردست کا یہ تصورجب مزید پروان چڑھتا ہے تو محکوم قوم اور محنت کش طبقے کے آگے بڑھنے کے مواقع گھٹ جاتے ہیں اورقومی اور طبقاتی تضادات کے لئے راہ ہموار ہوجاتی ہے مفاہمانہ اور مصالحانہ کوششیں دم توڑ دیتی ہیں اور معاشرتی بگاڑ کا عمل شروع ہوجاتا ہے
جاگیردار اور سرمایہ دار دونوں طبقات اپنی فطرت میں استحصالی ہوتے ہیں مگر الگ الگ کاروبار کے باعث ان کا کردار بھی اسی طرح الگ الگ ہوتا ہے جاگیردار طبقہ کی ضروریات ان پڑھ کسان پوری کرتے ہیں اس تناظر میں چونکہ ان پڑھ کسان جاگیردار کی ایک بڑی مجبوری ہوتے ہیں اس لئے جاگیردارانہ ادوار میں تعلیم کی شدید مخالفت لازمی قرار پاتی ہے جاگیردار کو یہ بخوبی احساس ہوتا ہے کہ اگر سکول قائم کئے گئے اورکسانوں نے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کردیا تو پھر کھیت مزدور یا مزارع کیونکر میسر ہوں گے اپنے مفادات کی خاطر جاگیرداروں نے تعلیم کی روشنی سے مزارعین اور کھیت مزدوروں کو ہمیشہ دور رکھا ہے دنیاوی تعلیم سے محرومی کی وجہ سے دیہاتی عوام کا رحجان زیادہ تر مذہبی تعلیم کی طرف ہوتا ہے
اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان پڑ ھ اور جاہل کھیت مزدور وغیرہ کو علمیت کے فقدان کا احساس تو ہوتا ہے تاہم اس کی غربت ، مجبوری اور جاگیردار کا خوف اسے تعلیم خصوصاً دنیاوی تعلیم سے دور رکھتا ہے البتہ دیہاتوں کے مقابلے میں شہروں کا ماحول اس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے یہاں حصول تعلیم کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں اور تعلیم یافتہ افراد صنعت کار کی بڑی مجبوری ہوتے ہیں اس لئے شہروں میں تعلیم کے فروغ کی تگ و دو بھی ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صنعتوں کے لئے تعلیم یافتہ ہنرمندوں اور مزدوروں کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کے باعث صنعت کاروں نے شہروں کی طرح دیہات میں بھی سکول قائم کرنے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں ابتدائی مراحل میں ان سکولوں کی وہاں شدید مخالفت کی گئی تاہم تعلیم کی روشنی کے سامنے جہالت کے اندھیارے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکے اور آج صورت حال کچھ یوں ہے کہ ملک میں دیہاتی سطح پر بھی تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا نظر آرہا ہے
قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ مملکت کو چلانے کے لئے تعلیم یافتہ افراد کی اشد ضرورت تھی چنانچہ اس دور میں تعلیم کے فروغ کے تذکرے بھی عام تھے مگر تقسیم ہند کے بعد جس طرح بھارت کی حکمران جماعت نے جاگیردارانہ نظام کی بساط لپیٹ دی اور عوام کو عام انتخابات کے ذریعہ شراکت اقتدار کا احساس دلایا فلموں اور فنون لطیفہ سے بھی ان کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رکھا پاکستان میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ یہاں پر فرسودہ استحصالی اور ظالمانہ جاگیردارانہ نظام کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ان کی بنیادوں کو مزید مضبوط کیا گیا تعلیم کی کمی اور شعور و ادراک کا فقدان ہماری ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاؤٹ بن گیا اس کے باعث بے روزگاری بڑھتی گئی اور ان پڑھ بے روزگاروں میں تعلیم یافتہ بے روزگار بھی شامل ہوتے گئے
اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے تعلیم کا سہارا لینا چاہئے تھا لیکن یہاں اس سے بھی استفادہ نہیں کیا گیااور معاشرہ شکست و ریخت کے عمل سے گزرتا رہا ایسے میں سرمایہ دار اور جاگیردار کے مفادات بھی ٹکرانے لگے جس نے ان دونوں کے ذاتی مفادات کے ساتھ عظیم تر ملکی و قومی مفادات کو خاصا متاثر کیا گو اس دوران تعلیم کا احساس تو ابھرتا رہا اور اس احساس کے تحت تعلیمی پالیسیاں بھی مرتب ہوتی رہیں تاہم ان میں بھی منافقت کے جملہ عوامل پوری طرح کارفرما رہے اور جو درسی نصاب اس عرصے میں ترتیب دیا جاتا رہا ان میں طبقہ اشرافیہ یعنی جاگیردار اور سرمایہ دار کے ذاتی مفادات کے تحفظ کو اولیت دی جاتی رہی جاگیردار طبقہ سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ اس نصاب کے ذریعہ جاگیردارانہ نظام کو فروغ اور استحکام دیتے رہے جبکہ دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے حامی افراد کی یہ کوشش رہی کہ موجودہ نظام میں اپنے پاؤں جمانے کے لئے اپنی مرضی کے اسباق نصاب میں شامل کریں چنانچہ ملک کی حقیقی ترقی کے نقطہ نظر سے تعلیم کے فروغ کے لئے کچھ نہیں کیا جاسکا یوں تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی متنازعہ بنانے کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا جو آج بھی بدستور جاری و ساری ہے
ناقص تعلیمی پالیسیوں اور مفاداتی نصاب تعلیم کی وجہ سے تعلیمی اہلیت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بانجھ ہوگیا اگر یہاں بڑے بڑے دانشوروں اور قابل افراد کا قحط ہے تو اس کی بنیادی وجہ تعلیم کافرسودہ نصاب اورنظام ہے ماضی کے مقابلہ میں آج درسی کتابیں اتنی ضخیم ہوتی ہیں کہ پڑھنا تو کجا ان کا اٹھانا بھی ایک بچے کے لئے بوجھ ہوتا ہے جبکہ محکمہ تعلیم کی طرف سے اساتذہ پرنصاب تعلیم ختم کرانے کیلئے دباؤ ہوتا ہے اس لئے وہ کتابیں پڑھنے پر زور دیتے ہیں اور ان کی کوشش رہتی ہے کہ بچے بھی اسی رفتار سے پڑھیں مگر پھر بھی سال گزر جاتا ہے اور یہ ضخیم کتابیں ختم نہیں ہوتی ہیں کتابوں کی ضخامت کے باعث بچوں کے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے نصاب کے خاتمے کے بعد بھی ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے
ان میں اساتذہ اور طلبہ کا کوئی قصور نہیں بلکہ سراسر قصور اس نصاب کے مرتب کرنے والوں کا ہوتا ہے جن کو خود بھی اپنے مرتب شدہ نصاب کے سیاق و سباق کا علم نہیں ہوتا لازمی بات ہے کہ ایک نصاب جب اساتذہ کی سمجھ سے بالاتر ہو تو اس کا سمجھنا طلبہ کے لئے کیونکر ممکن ہوسکتا ہے یہیں سے رٹا لگانے کا رحجان بھی پیدا ہوگیا گو کہ اس سے بیشتر طلبہ امتحان میں پاس تو ہوجاتے ہیں تاہم وہ کورے کے کورے ہی رہتے ہیں جو لوگ پچھلے وقتوں کے نصاب تعلیم اور اساتذہ کی تعریف کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت نصاب تعلیم مرتب کرنے والے بچوں کی ذہنی استعداد سے نہ صرف واقف ہوتے تھے بلکہ نصاب مرتب کرتے وقت تعلیم کی اہم جزئیات اور ان کی اہمیت کا اندازا بھی ان کو بخوبی ہوتا تھا کتابیں مختصر ہوتی تھیں نتیجہ یہ تھا کہ 45 منٹ کے پیریڈ میں ایک استاد 25 یا 30منٹ پڑھائی میں گزارتا جبکہ بقایا وقت میں وہ طلبہ کی ذہن سازی کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس وقت اساتذہ کی اہلیت بھی مسلمہ تھی اور ان کے شاگرد بھی حق شاگرد ی ادا کرنے میں کامیاب ہوتے تھے چونکہ اس وقت تعلیم تجارت نہیں بنی تھی اس لئے استاد اور شاگرد کے مابین احترام اور عقیدت کا جذبہ بھی موجود تھا
درسی نصاب کی موجودہ کتابوں میں غیر ضروری مواد زیادہ ہوتا ہے ایسا مواد جس کا عام زندگی سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہر نئی جماعت میں کتابوں کا سائز بڑھتا چلا جاتا ہے اس کی مشقیں پہلے سے بڑی ہوجاتی ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ابھی بچے نے پچھلی کتابوں کو پوری طرح ہضم نہیں کیا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے اس سے بھی زیادہ ضخیم کتابیں رکھ دی جاتی ہیں جن سے ان کا معصوم ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ نصاب میں اکثر ابواب اتنے خشک اور بور ہوتے ہیں کہ ان میں ایک بچے کے دلچسپی کی کوئی چیز نہیں ہوتی پھر کتابوں کے اسباق بھی بے ترتیب ہوتے ہیں جن سے بچوں کو اپنا ذہنی تسلسل برقرار رکھنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے
اجنبی زبانوں کے سیکھنے کا عمل ازمنہ قدیم سے چلا آرہا ہے نئی زبانوں کا سیکھنا یا ان کی خواہش کوئی آج کل کی بات نہیں کیونکہ اپنے اردگرد کے ممالک سے ہمہ جہت تعلقات کے قیام کے لئے ان ممالک کی زبانیں سیکھنا لازمی امر ہوتا ہے ماضی کی طرح آج بھی اجنبی زبان خصوصاً ایسی زبان سیکھنا ضروری ہوتا ہے جو ہمارے عالمی برادری سے تعلقات بنانے میں معاون ہو نیز ماضی کے مقابلے میں آج دنیا ایک عالمی گاؤں کا روپ دھار چکی ہے زمین کی طنابیں کچ گئیں فاصلے سمٹ گئے اس لئے ایک دوسرے سے روابط ،تعلقات اورایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ اور ایک دوسرے کے معاملات سے آگہی سہل اور آسان ہوگئی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسے اہم وقت میں بھی ہم نے تعلیم کے عصری تقاضوں کا عملی احساس نہیں کیا اور آج ہمارے سکولوں میں ننھے بچوں کو بیک وقت اتنی زبانیں سکھائی جاتی ہیں کہ طالب علم کا بیشتر وقت ان اجنبی زبانوں کے سیکھنے میں صرف ہوجاتا ہے زبان سیکھنے کے لئے ماحول بنانا بھی ضروری ہے اساتذہ کوچاہئے کہ وہ بچوں کی موجودگی میں اس زبان میں بات چیت کریں لیکن ہمارے ہاں یہ معاملہ الٹ ہے مثلاً ایک بچہ گھر میں پشتو سن رہا ہے سکول میں اساتذہ کو اردو بولتے دیکھتا ہے اور کتابوں میں انگریزی ہے اور پھر ایک بچے کا گھرانہ نسبتاً مذہبی ہے تو اس پر عربی زبان سیکھنے پر بھی زور دیا جاتا ہے اس طرح ایک طالب علم کا زیادہ تر وقت زبانیں سیکھنے میں صرف ہوجاتا ہے
کتابوں کی ضخامت اور نامناسب طریقہ تعلیم کے باعث اساتذہ بچوں کو سبق یاد نہ کرنے پر مارتے پیٹے ہیں یہ نہ صرف ایک غیر مہذب رویہ ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک کے طریقہ تعلیم سے یکسر متضاد بھی ہے کیونکہ مارپیٹ سے بچوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ استاد سے ڈرتے ہیں اس ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ کسی بھی معاملہ میں اساتذہ سے کچھ پوچھنے کی جرائت نہیں کرتے اس سے ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ دب کر رہ جاتی ہیں بعض اساتذہ طالب علموں کو محض اس لئے مارتے ہیں کہ وہ ان سے سوالات نہ پوچھیں کیونکہ بسا اوقات بعض سوالات کا جواب اساتذہ کو بھی معلوم نہیں ہوتا طالب علموں کو جب جسمانی اذیت دی جاتی ہے تو اس سے ان کی صلاحیتیں خفتہ ہوجاتی ہیں ڈر اور خوف ان کو حصار میں لے لیتا ہے اور بسااوقات طالب علم سکول چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے
نظریاتی تعلیم کی وباء نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس سے لسانیت،فرقہ واریت اور تعصبات کو فروغ ملتا ہے جو ملک گیر ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاؤٹ بن جاتی ہے ہمارے ملک میں بعض گروہوں کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وہ ان کو تقسیم کرنے کیلئے کسی طور تیار نہیں لہٰذاہر چیزکے ساتھ نظریاتی کی پخ لگانا ضروری سمجھتے ہیں لازمی بات ہے جب ایک بات نظریاتی ہوجاتی ہے تو اسے تقدس کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے یہی وہ فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے جب عوام سے تنقید کا حق بھی خود بخود چھن جاتا ہے اس کے نتیجہ میں یکطرفیت کا ماحول عام ہوجاتا ہے یہ اسی سلوک کا نتیجہ ہے کہ سکولوں سے ایک ہی طرح کے طالب علم نکل رہے ہیں چونکہ وہ نظریاتی ہوتے ہیں لہٰذا ہر نئے خیال یا تنقید پر جذباتی اور کبھی کبھار سیخ پا ہوجاتے ہیں معاشرے کوانتہاپسندی کا شکار بنانے کا یہ بھی ایک بڑا سبب ہے
ہماری درسی نصاب کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ یہ بچوں میں منطقی انداز میں سوچنے کی صلاحیتیں پیدا نہیں کرتا ہے بھلا ایسی صورت میں طالب علموں میں سوچ و فکرکی اہلیت کیسے پیدا ہوگی جبکہ چیزوں اور واقعات کے محل وقوع کے بارے میں فطری، قدرتی اور معجزاتی کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہوں جو ممالک ترقی کی امنگ رکھتے ہیں ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والے طلباء اور طا لبات اپنے مضا مین میں ماہر ہوں اگر کوئی طالب علم معاشیات سیکھ رہا ہے تو پھر اسے ایک اچھا ماہر اقتصادیات بن کر نکلناہوگا مگرہمارے ادھر درسی کتابوں میں سب سے زیادہ اخلاقیات اور تابعداری پر زور دیا جاتا ہے جس سے تعلیم کا حقیقی مقصد سرے سے ہی فوت ہوجاتا ہے
پاکستان میں نظریاتی مملکت کے پرچار نے غیرجمہوری اور غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضے کرنے کے لئے آسانی پیدا کردی اوراس نظریہ کو تقویت دینے والی ہر چیز کو نصاب میں شامل کیا گیا نتیجتاً حملہ آوروں اور فاتحین نے ہیرو کا مقام حاصل کرلیا ان کو انسانیت اور ملک کے نجات دھندہ کے طور پر مشہور کیا گیا یہیں سے معاشرے میں ہیروازم کی اصطلاح عام ہوئی اورجمہوریت دشمنی کے رجحانات کو تقویت ملی تعلیم کا مقصد صرف اور صرف تشکیل ذہن ہونا چاہئے اور ایک طالب علم کو اس قابل بنانا چاہئے کہ وہ اپنے گردو پیش موجود تما م مسائل کو حل کرنے کی اہلیت اورصلاحیت رکھتا ہو لیکن جب کتابیں اتنی ضخیم اور وزنی ہوں کہ ایک طالب علم کے لئے انہیں اٹھانا بھی مشکل ہواسباق بے ترتیب ہوں اساتدہ پر جلد از جلد نصاب ختم کرنے کا دباؤ ہو ہر جماعت میں سو یا اس سے زیادہ بچے ہوں ہر سال کتابوں کی ضخامت میں اضافہ ہوتا ہو اجنبی زبانیں سیکھنے کی مشکلات ہوں اور مالی طور پر پریشان حال اساتذہ اپنی غربت کا تمام غبار بچوں پر نکالتے ہوں بچوں کو رٹا لگانے پر مجبورکیا جاتا ہو اور جب رٹا بازی کی حد ختم ہوجاتی ہو تو پھر طالب علم مجبوراً نقل کی طرف مائل ہوجاتا ہو تو ایسی تعلیم وتربیت سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں
ہماری درسی کتب میں عقل دشمنی کا پورا پورا مواد اور سامان موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی زیارتوں اور پیروں کے پاس جاتا ہے اور وہاں پرموجود پتھر اور جھاڑو اپنے اوپر پھیرتا ہے تاکہ اس کے دن پھر سکیں اور اس کوکسی سرکاری دفتر میں ملازمت مل سکے اس سے اندازا کیا جاسکتا ہے کہ نظریاتی مملکت میں درسی نصاب ترقی کے نقطہ نظر سے ترتیب نہیں دیا جاتا ہے بلکہ مخصوص طبقات کے مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے
اگر چہ بالادست طبقات نے عوام کی اپنے مفاداتی نقطہ نظر سے تعلیم و تربیت شروع کی ہوئی ہے مگر پاکستان کے ہمسایہ ممالک کی ترقی اور خود ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات میں اتار چڑھاؤ ڈکٹیٹروں اور منتخب نمائندوں کے بلند بانگ دعوے اور جھوٹے وعدے ان کے شعور وادراک میں اضافہ کررہے ہیں
♠