بھارت نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں چین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھارتی خارجہ سیکرٹری نے چین کا خفیہ دورہ کیا ہے۔
بھارتی خارجہ سیکرٹری ایس جے شنکر کا حالیہ ہفتوں میں یہ چین کا دوسرا دورہ تھا۔ وہ پچھلے دنوں بھی اسی حوالے سے ایک غیر اعلانیہ دورہ پر بیجنگ گئے تھے۔ آج اتوار 19 جون کو وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ سے جب اس خبر کی تصدیق کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا، ’’ہاں میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ خارجہ سیکرٹری 16 جون کو اپنے چینی ہم منصب سے باہمی تبادلہ خیال کے لیے بیجنگ گئے تھے اور انہوں نے این ایس جی میں ہندوستان کی رکنیت سمیت تمام اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔‘‘۔
چین این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کی مخالفت کرتا رہا ہے تاہم بھارت اسے منانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہاہے۔ مئی کے آخری ہفتے میں بھارتی صدر پرنب مکھرجی کے دورہ چین کے دوران بھی دونوں ملکوں نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا تھا اور 23 جون کو تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ کے دوران بھی چینی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی ملاقات میں بھی یہ معاملہ زیر غور آنے کی امید ہے۔
نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت سے بھارت کو کیا فائدہ ہو گا؟
این ایس جی کے رکن ملکوں کو نیوکلیائی ٹیکنالوجی کی تجارت اور ایکسپورٹ کی اجازت ہوتی ہے۔ رکنیت حاصل ہوجانے پر بھارت کے گھریلو جوہری توانائی پروگرام کے لیے بین الاقوامی بازار کے دروازے کھل جائیں گے۔ بھارت گزشتہ کئی برسوں سے اس گروپ کی رکنیت کے لیے کوششیں کررہا ہے۔ اس نے 12 مئی کو باضابطہ درخواست پیش کی تھی۔ جس پر 24 جون کو سیؤل میں ہونے والی 48 رکنی این ایس جی کی عام میٹنگ میں غور کیا جاسکتا ہے۔
چین کی حمایت کیوں ضروری؟
این ایس جی دراصل اتفاق رائے کے اصول کے تحت کام کرتا ہے اور بھارت کے خلاف کسی ایک بھی ملک کا ووٹ اس کی دعویداری پر پانی پھیر سکتا ہے۔ بھارت اسی لیے این ایس جی کے ہر رکن ملک کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے میکسیکو اور سوئٹزر لینڈ کے حالیہ دورے کے دوران ان ملکو ں نے این ایس جی میں بھارت کی حمایت کا وعدہ کیا تھا۔ روس اور برطانیہ نے بھی بھارت کی حمایت کا اعلان کیا ہے جب کہ امریکی صدر باراک اوباما نے این ایس جی کے رکن ملکوں سے درخواست کی ہے کہ وہ نئی دہلی کی دعویداری کی حمایت کریں۔ ترکی، جنوبی افریقہ، آئر لینڈ اور نیوزی لینڈ بھی این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کے حق میں نہیں ہیں۔
گو این ایس جی نے 2008ء میں بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی تک رسائی کے لیے خصوصی رعایت دی تھی اور چین کو بھارت، امریکا سول نیوکلیائی معاہدہ کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت کی حمایت کرنا پڑی تھی۔ تاہم بیجنگ کی دلیل ہے کہ چونکہ بھارت نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے معاہدہ (این پی ٹی) پر اب تک دستخط نہیں کیے، اس لیے اسے این ایس جی کی رکنیت نہیں دی جانی چاہیے۔ جب کہ بھارت کی دلیل ہے کہ کسی ملک کو صرف اس بنیاد پر این ایس جی کی رکنیت سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
چین پاکستان کی لڑائی لڑ رہا ہے
یہاں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کی طرف سے مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دیرینہ دوست پاکستان کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔کیوں کہ اگر بھارت این ایس جی کا رکن بن جاتا ہے تو پھر پاکستان کے لیے اس کا رکن بننا مشکل ہوسکتا ہے اور بھارت، پاکستان کی رکنیت کی راہ روک سکتا ہے۔ حالانکہ بیجنگ نے حالیہ دنوں میں ایسے اشارے دیے ہیں کہ اگر پاکستان جیسے دیگر این پی ٹی ملکوں کے لیے اس گروپ میں شمولیت کا دروازہ کھلا رکھا جائے توبھارت کواین ایس جی کی رکنیت دی جاسکتی ہے۔
نیوکلیائی امور کے ماہر اور معروف تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسس میں فیلو ڈاکٹر جی بالا چندرن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ این ایس جی کا رکن بننے سے ہندوستان کے سول نیوکلیائی پروگرام پر کسی طرح کا مثبت یا منفی اثر نہیں پڑے گا البتہ رکنیت مل جانے سے نیوکلیئر پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کو مستحکم کرنے میں مدد ضرور ملے گی۔
ڈاکٹر بالا چندرن کا مزید کہنا ہے کہ بھارت درا صل اس لیے این ایس جی کا رکن بننا چاہتا ہے کیونکہ یہ ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے یہ ایک مفید فورم ہے اوربھارت اس حوالے سے تعمیری رول ادا کرسکتا ہے۔چین کی طرف سے بھارت کی مخالفت کے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹر بالا چندرن کا کہنا تھا، ’’چین غالباً پاکستان کی لڑائی لڑرہا ہے اور بھارت سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ اگر وہ رکن بن جاتا ہے تو مستقبل میں پاکستان کی رکنیت میں رخنہ نہیں ڈالے گا‘‘۔
DW
♠