پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھارت ’مقبوضہ کشمیر ‘ کہتا ہے جب کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان ’مقبوضہ کشمیر کہتا ہے ۔ان دونوں میں سے ’آزاد ‘ کون سا ہے اور ،’مقبوضہ ‘ کون سا اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے ۔ اگر آپ بھارت کے شہری ہیں تو پاکستانی کشمیر ’مقبوضہ ‘قرار پائے گا اور اگر آپ پاکستانی ہیں تو بھارتی کشمیر’ مقبوضہ ‘جہاں بھارت کی چھ لاکھ مسلح افواج بھیانک اور انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہیں ۔ کچھ ایسی ہی کہانیاں بھارتی اخبارات میں پاکستانی کشمیر کے بارے میں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر بارے ہماری اطلاعات میڈیا کے ذریعے ہیں لیکن پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سیاسی اور سماجی حالات کا مطالعہ ہم براہ راست کر سکتے ہیں ۔ 21جولائی کو پاکستانی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن ہونے جارہے ہیں ۔ اس اسمبلی کے ارکان کی تعداد 49اور 1974کے عبوری آئین کے تحت وجود میں آئی تھی ۔
سنہ1974کے عبوری آئین کے نفاذ سے قبل آزاد کشمیر میں آئین نا م کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ اور اس خطے کو 1949میں قائم ہونے والی وزارت امور کشمیر کا ڈپٹی سیکرٹری چلایا کرتا تھا ۔1974کے آئین کے تحت آزاد کشمیر کا ایک وزیر اعظم بھی ہے اور ایک منتخب صدر بھی لیکن اس کے انتظامی ، سیاسی ،سیکورٹی اور ریونیو امور کو چار افراد دیکھتے ہیں ۔ آزاد کشمیر کا چیف سیکرٹری ،انسپکٹر جنرل آف پولیس ، سیکرٹری ریونیو اور جنرل آفیسر کمانڈنگ مری ۔اول الذکر تین سول سرونٹ اسلام آباد حکومت آزاد کشمیر بھیجتی ہے ۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کی تعداد 49ہے جن کی تقسیم کچھ یوں ہے : 29ارکان کو آزاد کشمیر کے شہری منتخب کرتے ہیں ۔ 12نشستیں پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے والے ’کشمیر ی مہاجرین‘ کے لئے مختص ہیں ۔ یہ نشستیں عام طور اسی سیاسی جماعت کے حصے میں آتی ہیں جس کی حکومت اسلام آباد میں ہوتی ہے ۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان نشستوں کے لئے نام نہاد کشمیر ی مہاجرین کے نام پر کارپوریشنوں کے ملازمین جیسا کہ خاکروب وغیر ہ ووٹ کاسٹ کرتے اور امیدواروں کو ’کامیاب ‘بناتے ہیں ۔دو نشستیں عورتوں کے لئے ، ایک علما اور مشائخ کے لئے اور ایک نشست ٹیکنو کریٹ کے لئے مخصوص ہے ۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے اوپر بھی ایک قانون ساز ادارہ ہے اسے کشمیر کونسل کہا جاتا ہے اس کے ارکان کی تعداد چودہ اور اس میں پانچ ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کو ہے اور وزیر اعظم بلحاظ عہدہ کشمیر کونسل کے چیئرمین ہیں ۔کشمیر کونسل وہ تمام آئینی اور قانونی اختیارات استعمال کرتی ہے جو وفاق پاکستان کو حاصل ہیں ۔
پاکستان کا وفاق وہ تمام اختیارات آزاد کشمیر کے بارے میں استعمال کرتا ہے جو اسے وفاق کو شامل صوبوں کی حد تک حاصل ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو وفاق صوبوں کی حد تک حاصل اختیارات سے بڑھ کر اپنا رول ادا کرتا ہے ۔
پاکستان کا دعوی ہے کہ وہ کشمیر کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے اور اس بارے میں وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ۔ وہ ہر حال میں ایک’ آزاداور خود مختار ‘ کشمیر چاہتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ 21کو جو انتخابات ہونے جارہے ہیں ان میں حصہ لینے والے وہ امیدوار جو کشمیر کی آزادی کے داعی ہیں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے ہیں کیونکہ 1974کے عبوری آئین کے تحت ہر وہ فرد جو کشمیر کی آزادی پر یقین رکھتا ہے آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا ۔
الیکشن میں امیدوار بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ایک حلف نامہ اور انڈر ٹیکنگ کاغذات نامزدگی کے ہمراہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں کے آپ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں اور اگر آپ یہ کہیں کہ آپ کشمیر کو آزاد کروانا چاہتے ہیں تو آپ آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں ۔ پاکستان کا آزاد کشمیر کتنا آزاد ہے اس کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی تحریک آزادی کا تعلق ہے تو اس کا مظاہرہ ہم روز دیکھتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا پر کم و بیش ہرروز یہ خوش خبری دیتا ہے کہ سری نگر میں کشمیری مجاہدین نے پاکستانی پرچم لہرا دیا ۔
♦
One Comment