سلمان شہبازی
ہمارے ہاں سعودی عرب کو ایک مقدس مقام حاصل ہے اور یہ تاثر ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ایک اسلامی مملکت ہے اور وہاں قوانین کی ایک مکمل عملداری ہے اور شریعت صحیح اور مکمل شکل میں نافذ ہے۔ اس اسلامی مملکت میں بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کو کیا مشکلات درپیش ہیں اور وہ کن کٹھن حالات میں یہاں روزی روٹی کماتے ہیں اور اُن سے کیسا امتیازی سلوک روا رکھاجاتا ہے اس کے بارے میں میڈیا میں تو کچھ نہیں لکھا جاتا تاہم لوگ زبانی طور پر بتاتے رہتے ہیں۔ سعودی عرب میں 1962ء میں قانونی طور پر غلامی کو ختم کیا جاچکا ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا کہی بھی نظر نہیں آتا۔
سعودی عرب میں اس وقت گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کا حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے جہاں 18 سے 20 گھنٹے کام لیا جاتا ہے ان پرُ تشدد مارپیٹ معمول ہے۔ شاہی خاندان اور امراء کا اپنے گھریلوملازمین کے ساتھ برتاؤ اب بھی غلاموں جیساہی ہے۔ گھریلو ملازم کے’’کام کی نوعیت‘‘ میں زبانی طور پر اس بات کا تذکرہ بھی کیاجاتا ہے کہ اس کی ذمہ داریوں میں اپنے مالک کی جنسی خواہش کو پورا کرنا بھی شامل ہے۔ اور سعودی مالک کے ساتھ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو فلپائن‘ انڈونیشیا‘ بھارت اور ورکر بھیجنے والے تمام ایشیائی ممالک سے جانے والی نوجوان لڑکیوں کو نبھانا پڑتا ہے اور اُن ممالک کی ریکروٹمنٹ ایجنسیاں جب انہیں گھروں میں ملازمت پر لگواتی ہیں تو انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ ذمہ داری نبھانا پڑتی ہے۔
سعودی عرب میں ریپ کے واقعات صرف گھروں میں ہی نہیں ہوتے بلکہ ہر جگہ عام ہیں کیونکہ سعودی مرد خواتین کو اکھٹے رہنے یا ملنے کی قانوناً ممانعت ہے جبکہ فلپائن کی گھریلوخواتین ملازمائیں جوکہ عام طور پر بغیر پردے کے پھرتی ہیں سعودی مردوں کے جنسی تشدد کا آسان شکار بن جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی خاتون اکیلے باہر نکلنے کی غلطی کر بیٹھے تو اسکا سعودی نوجوان وحشیوں سے بچ پانا انتہائی مشکل ہے۔ تاہم ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں سرعام لڑکیوں کے گروپ میں سے کسی ایک کو اٹھالیا جاتا ہے۔
اور یہ واقعات صرف سعودیوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ باہر سے آنے والے نوجوان جن پر سعودی مذہبی پولیس کی طرف سے سخت پابندیاں عائد ہیں کہ وہ ایک عام سماجی طور طریقوں کے مطابق خواتین سے گھل مل نہیں سکتے‘ بھی یہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی معاشرہ‘ دنیا کے تمام معاشروں سے زیادہ‘ جنسی تشدد کے واقعات سے لتھڑا پڑاہے اور وجہ اسکی یہ ہے کہ وہاں ملکی اور سماجی طور پر مردوں کے مقابلے میں عورتیں پابندیوں اورگھٹن کا شکار ہیں۔
ان واقعات کی تفصیلات ’’فارن پالیسی ان فوکس‘‘ میگزین میں چھپی ہیں جس کے مصنف ’’والڈن بیلو‘‘ فلپائن کے سینٹ کے ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فلپائن کی پارلیمنٹ کی اوور سیز ورکرز آفئیرز کمیٹی کے چےئرمین بھی ہیں انہوں نے سعودیہ میں کام کرنے والی گھریلو خواتین کی حالت زار کا ذکر کیا ہے اور انکے ساتھ جو جنسی تشدد روارکھا جاتا ہے اسکی تفصیلات درج کی ہیں۔
والڈن بیلو نے ایک فلپائنی خاتون کی کہانی بیان کی ہے۔جس کا نام لورینا ہے اور اس کا تعلق فلپائن کے شہر منڈناؤ سے ہے عمرتقریباً25سال انتہائی معصوم‘ خوبصورت دھان پان سی‘ ایک بچے کی ماں اور بے سہارا بیوہ۔ انہیں ایک سعودی رائل نیوی کے ایک اعلیٰ افسر جو کہ جبیل کے مقام پر ایک ڈیوٹی پر تعینات تھے‘ گھریلو ملازمہ کے طور پر رکھا۔ لورینا بتاتی ہے کہ جب اس نے فلپائن سے سفر شروع کیا تو وہ ان خوابوں میں مگن تھی کہ اب اسکی غربت کا سفر ختم ہوجائیگا کیونکہ اب وہ ایک دولت مند ملک کے ایک امیر خاندان میں ملازمت کرنے جارہی ہے۔
دمام انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر جب وہ اتری تو اسکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک روشن مستقبل شروع کرنے نہیں جارہی بلکہ ظلم وتشدد کی ایسی کال کوٹھڑی میں قدم رکھ رہی ہے جہاں سے شاید چھ ماہ کی تکلیف وہ حالات کے بعد ہی چھوٹ سکے۔ اور لورنیا کا یہ تنہا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ تو جنسی تشدد اور ریپ کے ان بیسیوں واقعات میں سے ایک ہے جو عام طور پر گھریلو کام کرنے والی خواتین سعودیہ سے واپسی پر فلپائن کی اوور سیز ورکرز آفئیرز کمیٹی کو سناتی رہتی ہیں۔
فلپائنی حکومت کے طرف سے قائم کردہ شیلٹر ہومز میں‘ جدہ‘ ریاض اور الخوبر سے بھاگ کر پناہ حاصل کرنے والی ورکر خواتین نے جنسی تشدد اور ریپ کے واقعات بیان کہے ہیں اُس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ روز کا معمول ہے۔ ایک خاتون فاطمہ جس نے فلپائن شیلٹرہوم میں پناہ لی ہوئی ہے اور جو2009میں چھ سعودی نوجوانوں کے ہاتھوں اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں کا کہنا ہے کہ سعودی معاشرے میں زنابالجبر کے واقعات بالکل عام ہیں۔ اس نے بتایا کہ بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہم بھاگ کرا نکے چنگل سے نکل آئی ہیں اور اپنی داستان سنادی ہے اور بے شمار خواتین ابھی تک گھروں میں محبوس ظلم وزیادتی کا شکار ہیں۔
اسی طرح لورینا نے اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اسکے دکھ وہاں سے شروع ہوگئے جب وہ ائیر پورٹ سے اپنے مالک کے گھر پہنچی۔’’پہلے ہی دن جب اُس نے زبردستی مجھے بوسہ دیا توخوف سے میر اجسم ٹھنڈا ہوگیا اور میں بھاگ کر دور ہٹ گئی۔ لیکن وہ باز نہ آیا اور مجھے سعودیہ میں آئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ اُس نے ایک دن جب اس کی بیوی گھر پر موجود نہیں تھی مجھے اپنی ہوس کا نشانہ بناڈالا۔ پہلے اُسے نے مجھے مساج کرنے کا حکم دیا لیکن میں نے ماننے سے انکار کردیا‘ میں نے کہا میرے فرائض میں یہ کام شامل نہیں ہے۔ پھر جولائی کے مہینہ میں اُس نے میرے ساتھ دو دفعہ زیادتی کی۔ مجھے برداشت کرنا پڑا کیونکہ میں بھاگ نہیں سکتی تھی کیونکہ میری وہاں کوئی جان پہچان بھی نہیں تھی‘‘۔
ایک دن جب لورینا اپنے عربی مالک اور اس کی بیوی کے ساتھ بازار گئی تو اسے کچھ فلپائنی نرسیں نظر آئیں۔ اُس نے انہیں اپنی کتھاسنائی‘ انہوں نے لورینا کو ایک سم اور فون لے کر دے دیا۔ لیکن گھر میں اُس پر تشدد جاری رہا۔ عربی بولنے پر اُسے مارا پیٹا جاتا کیونکہ مالکن کہتی کہ تم انگریزی بولا کرو کیونکہ تمہیں انگریزی بولنے کیلئے ہم نے ملازمت پر رکھا ہے۔ کھانے کے اوقات پر اُسے صرف ایک روٹی دی جاتی‘ جبکہ وہ گھر کی بچی ہوئی پلیٹوں سے سالن لیکرگزارہ کرتی۔ کئی دفعہ لورینا کو مالکن کی ماں کے گھر بھیجا گیا جہاں اُسے گھر کی صفائی کاکام لیاگیا اور بدلے میں اُسے ایک دفعہ پھر مالکن کے بھائی کی ہوس کا نشانہ بننا پڑا۔ کیونکہ رشتہ داروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عزیزوں کے نوکروں کیساتھ بھی زیادتی کر سکتے ہیں۔ اکتوبر کے مہینے میں سعودی مالک نے اس کے ساتھ چوتھی بار جنسی زیادتی کی۔ لورینا کو مالکوں کی صرف جنسی ہوس کا نشانہ نہیں بننا پڑتا تھا بلکہ اس دوران انکے وحشی پن کو بھی سہنا پڑتا تھا۔
ایک دن صفائی کرتے ہوئے لورینا زخمی ہوگئی۔ خون تیزی سے اسکے جسم سے بہہ رہا تھا۔ اُس نے مالک سے درخواست کی اُس کو ہسپتال پہنچایا جائے‘ مالکن نے انکار کردیا۔ لورینا نے کہا کہ میری ماں کو فلپائن سے بلوادیں تاکہ وہ میری تیمار داری کرسکے اُس پر جواب ملا کہ اس پر کافی خرچ ہوگا۔ اتفاق سے مالک پہنچ گیا تو اُس نے کوئی مدد کرنے کی بجائے کہا کہ تم مرجاؤ تو بہتر ہے۔ چنانچہ اُس نے اپنے کپڑے پھاڑ کر اپنا زخم کے اردگرد باندھا اور ان گو لیوں سے گزاراکیا جو وہ اپنے ملک سے اپنے ہمراہ لائی تھی۔
مایوسی کا ایک لمبا عرصہ گزار کر آخر ایک دن لورینا الخوبر میں واقعہ’’فلپائن اوورسیز لیبرآفس‘‘ سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ لیبر آفس نے اُسے بچانے کے انتظامات شروع کردیے اور آخر30دسمبر2010ء کو لیبر آفس کی ایک ریسکیو ٹیم مقامی پولیس کے ہمراہ انکے گھر پہنچی۔ پولیس گھر کے باہر کھڑی تھی اور سعودی عیاش مالک نے اس چیز کی پرواہ کیے بغیر پانچ دس بار اُ س سے جنسی زیادتی کرڈالی۔ وہ جیسے تیسے روتے پیٹتے مالکن تک جاپہنچی اور اُسے دہائی دی کہ اُسے مالک کی ہوس سے بچاؤ۔
مالکن نے تسلی دینے کے بجائے اُس مارپیٹ شروع کردی کہ تم میرے خاوند پر جھوٹا الزام لگارہی ہو۔ لورینا کہتی ہے کہ میں روتی چیختی رہی اور پولیس یہ سب تماشہ دیکھتی رہی لیکن اُس نے کچھ نہ کیا۔ جب مالک کو گرفتاری کا ڈرلاحق ہوا تو اس نے لورینا سے التجائیں شروع کردی‘ موقع کی مناسبت کو جانتے ہوئے لورینا نے سمجھداری سے کام لیا اور مالک سے کہا تم مجھے جانے دو تم ایک آدمی ہو میں تمہاری شکایت نہیں کرونگی۔ اس طرح آخر کار اُسکی جان چھوٹی اور وہ پولیس کی تحویل میں آگئی۔ یہاں آکر اُس نے پولیس کو ساری کہانی سنائی تو اس طرح مالک گرفتار ہوسکا۔ ایک لمبے دفتری عمل کے بعد اُسکا میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔
لیبر افسر نے بتایا کہ جنسی تشدد کے شواہد لورینا کے جسم کے اندر اور باہر دونوں جگہ پائے گئے تھے۔ ایگزامینیشن رپورٹ کے مطابق لورینا کے جسم پر جگہ جگہ سوجن کے نشانات پائے گئے جبکہ اسکے ہونٹ بری طرح کٹے ہوئے تھے۔
تحقیقات جاری ہیں اور ملزم جس کا نام لفٹیننٹ کمانڈر ماجد الجمائن ہے‘ ابھی تک دمام پولیس سٹیشن کی تحویل میں ہے، لورینا کا خیال ہے کہ شواہد مٹائے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ لوگ بہت اثر ورسوخ کے مالک ہیں‘ انکے پاس بہت پیسہ ہے جبکہ وہ صرف ایک نوکرانی ہے۔ لورینا کا کہنا تھا کہ اُسے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے کہ اُسے جیل بھیج دیا جائیگا۔ یقیناًاُسکا یہ خوف حقیقت پر مبنی ہے۔ لورینا کی شدید خواہش تویہی ہے کہ وہ فوراً وطن واپس پہنچ جائے لیکن اُسے یہاں رہنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے مجرم کو سزا دلواسکے۔
اس قسم کے واقعات کے بعد بہت سے ممالک نے سعودی عرب میں اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے سخت اقدامات شروع کردیے ہیں۔ہندوستان نے حال ہی میں اپنے شہریوں کے خلاف جنسی تشدد کے متعدد واقعات سامنے آنے کے بعد‘40سال سے نیچے کی خواتین پر سعودی عرب کام پر جانے کی پابندی لگادی ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا کی حکومت نے ایک کیس جس میں ایک گھریلوملازمہ خاتون کی تشدد کی وجہ سے ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور جس پر ملک کے اندر بہت شور برپاہوا‘ سعودی عرب کیلئے گھریلوملازماؤں کی ریکروٹمنٹ بندکردی ہے۔
انڈونیشیا کی دوسب سے زیادہ لیبر برآمد کرنی والی ریاستیں’’ویسٹ نوساٹنگارا‘‘ اور ویسٹ جاوا‘‘ نے دسمبر 2010میں سعودیہ میں گھریلوکام پر بھرتی پر مکمل پابندی لگادی ہے۔ اس سے پہلے نومبر2010میں سری لنکا کی لیبر منسٹری اس معاہدے سے منحرف ہو گئی جو اس نے سعودی نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی سے کیا تھا اور وجہ یہ بتائی کہ معاہدے کی شرائط سری لنکن گھریلوورکروں کیلئے نامناسب ہیں۔ اس کے نتیجہ میں سعودی حکومت نے سری لنکا یسے فی الحال ریکروٹمنٹ مکمل بند کردی ہے۔ماہرین کے مطابق فلپائن جلد ہی سعودی عرب میں گھریلوملازمت کی ریکروٹمنٹ پر پابندی لگا دیگا کیونکہ سعودی حکومت گھریلو ملازماؤں کو قانونی تحفظ دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔