یونیورسٹی آف جہاد اکوڑہ کے لیے تیس کروڑ روپے امداد

24528718

صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے دارالعلوم حقانیہ کے لیے صوبائی بجٹ میں تین سو ملین روپے مختص کیے جانے پر لبرل سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کے نمائندے سیخ پا ہیں۔

سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کے حامیوں اور دوسری جماعتوں کے سرگرم کارکنوں کے مابین اس موضوع پر تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے ایک نجی چینل کو بتایا کہ حکومت نے مدرسے کو یہ رقم اس لیے دی ہے کہ وہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے ناقدین اس دلیل سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی معروف سیاستدان بشریٰ گوہر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں پشاور حکومت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’طالبان خان (مراد عمران خان) نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر تو ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن طالبان کی مالی مدد کے لیے تیس کروڑ روپے مختص کر دیے گئے۔‘‘۔

معروف دفاعی تجزیہ نگار اسد منیر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث چار ملزمان کا تعلق جامعہ حقانیہ سے تھا۔‘‘ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیریں رحمان نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں جامعہ حقانیہ کے لیے اس گرانٹ پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

شیریں رحمان نے لکھا، ’’عبداللہ، نادر، فیض اور رشید وہ چار دہشت گرد تھے، جو بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تھے۔ ان دہشت گردوں کا تعلق جامعہ حقانیہ سے تھا، جن کے لیے صوبے کے پی کی حکومت نے تین سو ملین روپے مختص کیے ہیں‘‘۔

ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بشریٰ گوہر نے کہا، ’’آپ جنرل ضیاء کے دور سے ہی دیکھ لیں، جامعہ حقانیہ کو ریاستی سطح پر سپورٹ کیا گیا۔ مولانا سمیع الحق تو خود کہتے ہیں کہ وہ افغان طالبان کے روحانی باپ ہیں۔ جلال الدین حقانی سے لے کر ملا اختر منصور تک سب یہیں پڑھتے رہے تھے۔ جب پاکستانی طالبان نے حکومت سے مذاکرات کی بات کی تو انہوں نے عمران خان اور مولانا سمیع الحق کو ہی اپنا نمائندہ بنایا۔ تو ایک ایسا مدرسہ جسے دہشت گردوں کی فیکٹری کہا جاتا ہو، اس کو پیسے دینے کا جواز کیا ہے؟ حالانکہ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے اسکولوں میں پانی نہیں ہے، دیواریں نہیں ہیں، ٹائلٹ نہیں ہیں۔ میٹرک کا ابھی نتیجہ آیا ہے، جس میں 70فیصد طالب علم پاس ہی نہیں ہو سکے۔ کے پی کی نااہل حکومت نے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں کمی کی ہے اور انتہا پسندوں کی مالی مدد کے لیے تیس کروڑ روپے رکھ دیے ہیں، جو اس صوبے کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ عمران خان تخت پنجاب کی غلامی کر رہے ہیں۔ ان کو اس صوبے کے مفاد سے کچھ لینا دینا نہیں ہے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’نیشنل ایکشن پلان کو میں نو ایکشن پلان کہتی ہوں۔ صرف چند ہفتے پہلے ہی ساری کالعدم تنظیموں نے اسلام آباد میں بڑے بڑے جلوس نکالے اور جلسے کیے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا کہ جس کو دیکھ کر ہم کہہ سکیں کہ اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم کر دی گئی ہے۔ انتہا پسند آج بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کل بھی ہمارے ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کو قتل کر دیا گیا۔ تو انتہا پسندی سے جان چھڑانے کے لیے ہر طرح کے دہشت گردوں کو ختم کرنا پڑے گا‘‘۔

اسی دوران انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جامعہ حقانیہ کو دی جانے والی یہ امداد نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں بکھیر دینے کے مترادف ہے۔ یہ مدرسے والے کہتے ہیں کہ وہ اپنی فنڈنگ خود کرتے ہیں، تو پھر عوام کے ٹیکس سے ایسے انتہا پسند اداروں کو پیسے کیوں دیے جا رہے ہیں؟ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ تمام مدارس کو قومی ملکیت میں لیا جائے اور ان کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کیا جائے۔ وہاں جدید نصاب پڑھایا جائے تاکہ وہاں پڑھنے والے طلبا عصرِ حاضر کے تقاضوں سے بھی واقف ہو سکیں‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں فرزانہ باری نے کہا، ’’جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ویسے تو مذہبی انتہا پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں لیکن وہ اس کو کئی بار چھپانے کی بھی کوشش کر چکی ہیں۔ تاہم اس امداد نے ان کے اس جھوٹ کو بھی فاش کر دیا ہے اور دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ انتہاپسندوں کے کتنے بڑے حمایتی ہیں۔ عمران خان اپنی ذاتی زندگی میں لبرل ہیں لیکن سیاسی طور پر وہ انتہائی قدامت پرست خیالات کے مالک ہیں۔ یہ خیالات طالبان کے نظریے کے بہت قریب ہیں‘‘۔

DW

Comments are closed.