مشتاق احمد
تصوف ایک فلسفہ ہے۔ ایک انداز فکر ونظر ہے اور ایک رویے کانام ہے ۔تصوف مذہب نہیں ہے بلکہ مذہب سے مختلف اور بعض اوقات تو متضاد ہے تصوف اور مذہب کا تضاد یا اختلاف تصور خدا سے شروع ہوجاتا ہے۔ اہل مذاہب کا خدا کائنات ومافیہا سے ماوراء ہے۔ وہ کائنات کا خالق ہے مالک بھی ہے مگر کائنات سے الگ تھلگ ہے۔ اس کی اپنی ایک ذات ہے شخصیت ہے حیثیت ہے وہ کائنات میں تصرف ضرورکرتا ہے لیکن کائنات کا اس کے وجود سے کوئی سمبندھ نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی کا آپ مالک ہے۔ اپنے ارادے کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
لیکن اہل تصوف کا خدا کائنات سے الگ نہیں ہے۔ بلکہ وہ کائنات کے اندر موجود ہے۔ ذرے ذرے میں سمایا ہوا ہے گویا کائنات جسم ہے اور اہل تصوف کا خدا روح کی ماننداس میں سرائیت کئے ہوئے ہے اہل تصوف کا خدا شخصی خدا نہیں ہے سریانی ہے۔ بلکہ کائنات کے تمام مظاہر یا اس میں پائی جانے والی تمام اشیاء کے اندر وہی ہے۔ وہ خود ہی مختلف پیکروں کی صورت میں موجود ہے۔ وہ ہرشے میں ہے وہ ہی سب کچھ ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے اور اگر کوئی اس کائنات کے اندر کسی اور کو موجود مانتا ہے یا کسی اور کے وجود کا قائل ہے تو وہ مشرک ہے توحید پرست نہیں ۔
درحقیقت تصوف مذہب نہیں ہے اسے ایک فلسفہ تو کہا جاسکتا ہے مذہب ہرگز نہیں۔ بلکہ مذہب سے متضاد اور مخالف افکارو خیالات اور عقائدو نظریات کو پیش کرتا ہے۔یہ کسی مذہب کا حصہ بھی نہیں تاہم یہ عجیب بات ہے کہ تصوف سے شغف رکھنے والے لوگ ہر مذہب کے ماننے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور اسی مذہب کے ماننے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔مثلاً مسلمان اہل تصوف مسلمان ہی سمجھے جاتے ہیں اور مسلمان ہی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح ہندو متصوفین جن کے تصوف کو ویدانیت کہا جاتا ہے ان کو ہندوہی سمجھا جاتا ہے ان کا شمار ہندوؤں میں ہوتا ہے۔
دیگر مذاہب میں جو لوگ تصوفانہ مسلک رکھتے ہیں ان کا تعلق جس مذہب سے ہوتا ہے اُنکو اسی مذہب کے ماننے والے سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب سے باہر مذہبی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں نے تصوف کو قبول کیا اور اسے اپنا مسلک قرار دیا انہوں نے اپنے تصوف کو یا اپنے اس صوفیانہ نظر یے کو اس زبان میں اور ان ہی اصطلاحوں میں پیش کیا جو ان کے مذہبی مسلک میں پہلے سے موجود تھیں۔ وہی زبان استعمال کی جوان کی مذہبی کتابوں اور مذہبی ادب میں استعمال ہوتی تھی نہ صرف اصطلاحیں اسی مذہب سے لیں بلکہ روایات اور حکایات بھی وہیں سے لیں۔
یعنی پورے کا پورا وہی پس منظر اور علمی اوادبی انداز اختیار کیا جو ان کے مذہب والوں نے اپنا رکھا تھا۔ اس طرح تصوف گویا دام ہم رنگ زمیں کی حیثیت اختیار کرگیا۔ مسلمانوں میں رہنے والوں نے اپنے صوفیانہ افکار ونظریات کو اسلامی بلکہ قرآنی اصطلاحوں میں بیان کیا۔ اور اسلامی روایات وافکار میں اس طرح مروج کیا کہ انہیں عام لوگوں نے دین اسلام ہی سمجھا۔ انہوں نے قرآنی آیات احادیث نبویؐ اور اقوال بزرگان سلف کو اپنے افکار نظریات اور تصورات کی تفہیم کے لئے استعمال کیا اور ان کے ایسے معانی نکالے جو ان کے افکار و نظریات کو خالصتاً اسلامی بلکہ قرآنی بنادیتے تھے۔
اسی طرح ہندو متصوفین نے بھی اپنے صوفیانہ افکار کو وید اور ہندودھرم کی دوسری مذہبی کتابوں میں استعمال ہونے والی اصطلاحوں اور زبان میں پیش کیا۔ اس طرح اصطلاحوں اور الفاظ کی حدتک ہر مذہب اور ہر مذہبی معاشرے میں پائے جانے والے متصوفین کا تصوف دوسرے مذاہب یا مذہبی معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے متصوفین کا تصوف مختلف محسوس ہونے لگا لیکن یہ اختلاف اصطلاحات اور زبان کا تھا۔ ان کے ذریعے جو مفاہیم جو افکار وخیالات اور نظریات پیش کئے گئے وہ سب کے سب ایک جیسے ہی تھے اور وہی تھے جنہیں تصوف کی اصل اور بنیاد سمجھا جاتا تھا۔
گویا تصوف ایک ایسی شراب تھی جسے ہر علاقے اور ہر معاشرے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے متصوفین نے اپنے ہاں دستیاب ہونے والے پیمانوں میں انڈیل کر لوگوں کو پلائی اوراہل تصوف جو شراب لوگوں میں تقسیم کرتے تھے، انہیں پلاتے تھے اسے شراب معرفت کا نام دیا جاتا تھا یا اسے محبت کی شراب کہا جاسکتا ہے یہ شراب پینے والا شخص انسان اور انسان کے درمیان ہر فرق کو غلط سمجھتا ہے اور اسے مٹانے کی کوشش کرتا۔
انسان کے درمیان ہر قسم کے امتیازات اسکی نظر میں ہیچ ہوجاتے تھے وہ ان تمام دیواروں کو گرا دیتا تھا جنھوں نے انسانوں کو ایک دوسرے سے جداکر رکھا تھا۔ یہ دیواریں مذہب کی ہوں یا مسلک کی، نسل کی ہوں یا نسب کی ذات برادری، زبان یا علاقہ کی ۔وہ ان دیواروں کو ڈھادیتے تھے اور ڈھا دینے کی تعلیم دیتے تھے وہ ہر قسم کی نفرتوں عداوتوں اور تعصبات کو عالم انسانیت سے دور کردینے کے خواہاں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہرانسان سے بلکہ ہر حیوان سے محبت کرواس کی خدمت کرو اسے سکھ دو راحت پہنچاؤ کسی کو دکھ یا تکلیف نہ دو کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق تمام مخلوقات خدا ہی کا پرتوتھی۔ سب وجود اسی ایک وجود کے مظاہر تھے۔ لہٰذا سب ایک تھے اور جب سب ایک تھے تو پھر دوسرا کون تھا غیر کون تھا سبھی تو اپنے تھے۔ تو فرق کیسا دشمنی کیسی بیرکیسا امتیاز کیسا۔
وہ ایک سمندر کی طرح تھے جو قطروں کا اجتماع ہوتا ہے لیکن ہوتا ایک ہی ہے ہر قطرہ پانی کا قطرہ ہوتا ہے اور پورا سمندر پانی ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ انسان اور انسان کے درمیان نہ تو کسی قسم کی حد بندی مانتے تھے اور نہ ہی درجہ بندی کو وہ چھوٹے بڑے اور ادنیٰ واعلیٰ کی تفریق کو مانتے تھے۔ ان کے نزدیک تو عورت اور مرد کا امتیاز بھی کوئی حقیقت یا حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ انہیں تو ہرراہگذر میں نقش کف پائے یار دکھائی دیتا تھا۔ وہ ہر ایک کے ساتھ نیکی ہی نہیں محبت کرنے کی تلقین کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہر ایک کی خدمت کرنا اسے سکھ پہنچانا اور اگر وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کی تکلیف کو رفع کرنا۔ ان کا تو آدرش ہی یہ تھا کہ دوسروں کو سکھ پہنچانے کے لئے اپنے دکھوں کو بھول جاؤ۔ اپنے دکھوں کو نظر انداز کرجاؤ۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنے نقصان کی قطعاً پرواہ نہ کرو وہ خود بھی مجسمہ ایثار ہوتے تھے۔ وہ ان افراد کو بھی جوان کے حلقہ اثرمیں زیرتربیت ہوتے تھے ایساہی بنادینا چاہتے تھے۔
تصور خدا کی طرف متصوفین کا طرز زیست بھی اہل مذاہب سے مختلف ہوتا ہے انہیں عیش وعشرت سے اور جاہ وجلال سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ مال ومنال اور شان وشکوہ سے وہ متنفر ہوتے ہیں۔ وہ سادہ خوراک کھاتے ہیں سادہ لباس پہنتے ہیں محلوں اور ایوانوں کی بجائے سادہ مکانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں بلکہ جھونپڑے اُنہیں اچھے لگتے ہیں۔ اہل مذاہب کی طرح تاجرانہ رسومات عبادت کے قائل نہیں ہوتے ان کی عبادت کے پیچھے دوزخ کا خوف اور جنت کی خواہش نہیں ہوتی۔ وہ عبادت نہیں کرتے محبوب سے باتیں کرتے عشق اور محبت ان کا دین ہوتا ہے۔
وہ عبادت میں از خودرفتگی کے قائل ہوتے ہیں۔ انہیں ریا کاری سے نفرت ہوتی ہے اور وہ اپنی پارسائی کا ڈھنڈور انہیں پیٹتے ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسی باتیں اور ایسے کام کرتے ہیں جو ظاہر بین ملاؤں کی نظر میں صریحاً کفر کے زمرے میں آتے ہیں۔ موت کے بعد کی زندگی کا تصور بھی اہل مذہب سے مختلف ہوتا ہے وہ موت کو اس زندگی کا خاتمہ نہیں سمجھتے وہ تو اسے وصال کہتے ہیں قطرے کا سمندر میں مل جانا۔ محبوب حقیقی سے وصال ہوجانا۔ ان کا خدا ان کا محبوب ہوتا ہے ۔ وہ محبو ب حقیقی سے واصل ہونے کے لئے بے قر ار ہوتے ہیں۔
زندگی کا پورا لائحہ عمل عشق ہوتا ہے اسی عشق کو ہی وہ مقصد حیات قرار دیتے ہیں۔ وہ مرنے کے بعد حساب کتاب عالم برزخ حشر اورجنت دوزخ جیسی کسی چیز کو نہیں مانتے۔ سب کچھ ان کی نظروں میں محض باتیں ہوتی ہیں۔ ان کو نہ جنت کے عالیشان محلوں کی خواہش ہوتی ہے اور نہ حوروں کی۔ وہ کوثروتسنیم کے خواہاں نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں شیریں پھلوں کی کوئی تمناہوتی ہے وہ اس کے قائل ہی نہیں۔ وہ جس انداز فکر کے مطابق زندہ رہتے ہیں،وہ ارباب شریعت اور ملاؤں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔
متصوفین کئی صدیوں سے محبت کی یہ شراب بنی نوع انسان کو پلارہے ہیں۔ تعصبات اور نفرتوں کو ختم کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ انسان اور انسان کے مابین قائم کی ہوئی سرحدوں اور اٹھائی گئی دیواروں کو ڈھادینے کی تلقین کررہے ہیں۔ پیار کے نغمے سنارہے ہیں ایثار اور قربانی کی نصیحتیں کررہے ہیں۔
لیکن ایک طویل تاریخ رکھنے کے باوجود تصوف اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا۔ تصوف کی تحریک اور اس کا نظریہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اس کے باوجود کہ ان رباب تصوف سے لاکھوں انسان عقیدت رکھتے ہیں ان کے حلقہ ہائے ارادت میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کو خدا سے کہیں زیادہ بڑھ کر مانتے اور پوجتے ہیں۔ ان کی خاطر بے دریغ اپنی دولت خرچ کرتے ہیں ان کیلئے عالیشان مزاربنواتے ہیں عرس کرواتے ہیں۔ ان کے سامنے سرجھکاتے ہیں سجدے تک کرتے ہیں۔ ان کے قدم چومتے ہیں۔ اور ان کے اقوال کو نہ صرف حرزجان بناتے ہیں بلکہ ان کو دنیا میں پھیلاتے بھی ہیں۔
اتنے کثیر تعداد میں انسانوں کے ان کا اردات مند عقیدت مند ہو جانے کے باوجود دنیا سے فساد ختم نہیں ہوتا شرختم نہیں ہوتا ظلم ختم نہیں ہوتا بھوک بیماری اور غربت ختم نہیں ہوتی لوگ ان کے اشارے پر بڑے جتن کرتے ہیں۔ کئی کئی میل دور سے پیدل چل چل کر آتے ہیں اس قدر اطاعت اور فرمابرداری کے باوجود اور اتنے کثیر لوگوں کی تعداد ان کی مرید بن جانے کے باوجود دنیا میں آج بھی برائی کابول بالا ہے نیکی کا فقدان ہے انسان اور انسان کے درمیان نفرت اور تعصبات اسی طرح ہیں۔دشمنیاں اور عداوتیں بدستور قائم ہیں۔ انسان انسانوں پر ستم ڈھاتے ہیں۔ ظلم توڑتے ہیں۔ تشدد روارکھتے ہیں۔ سفاکیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اس عالمگیر نظریے سے اور صدیوں سے قائم چلی آنے والی تصوف کی اس تحریک نے اپنی خوبصورت اور انسان دوست تعلیمات کے باوجود انسانیت کا کیا سنواراہے ؟کس انسانی معاشرے کو برائیوں سے پاک کیا ہے؟ کس ملک میں بدعنوان انسانوں کی کثرت نہیں ہے؟ کس معاشرے میں انسانیت سوز حرکات نہیں ہوتیں؟ ان برائیوں سے جو معاشرے ہمیں بچے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں اہل تصوف کا وجود برائے نام ہی ہے۔ اور جن معاشروں (ہمارے مشرقی معاشروں) میں جن میں اہل تصوف کے کئی طویل سلسلے موجود ہیں قائم وبرقرار ہیں۔ ان میں ہر کہیں فساد ہے۔ اہل تصوف جس خوبصورت معاشرے کی بناء ڈالنا چاہتے تھے اور انسانوں کو جتنا ارفع اور اعلیٰ انسان بنانا چاہتے تھے ایساانسان اب تک نہیں بنا سکے عالم انسانیت آج بھی انسانیت کے معراج تک نہیں پہنچ سکی۔
آخرایسا کیوں ہے ؟
اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تویہ ہے کہ تصوف کی تحریک کے اولین مبلغ اور پیش کار جو کچھ کہتے تھے وہ کرتے بھی تھے۔ ان کے قول اور فعل میں اختلاف نہیں تھا وہ اپنی تعلیمات پر خود بھی عمل کرتے تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے وہ جس رنگ میں دنیا کو رنگنا چاہتے تھے خود اس رنگ میں رنگے ہوتے تھے ان کی عبادت اور ریاضت ریا سے پاک ہوتی تھی ۔ وہ قناعت اور تو کل کی زندگی بسر کرتے تھے اور سادگی ان کا شعار تھا شان و شکوہ سے اعتراض کرتے تھے اور ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر دیانت داری پر ہیز گاری برائیوں سے اجتناب ان کا شیوہ تھا۔ اور وہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز ، برتر اور منفرد نہیں سمجھتے تھے۔
وہ سب سے مل جل کررہتے سب لوگوں کے ساتھ دیتے تھے انکی زندگیاں دوسروں کی خدمت کرتے اور ان سے محبت کرتے گزرتی تھیں وہ کسی سے نفرت نہیں کرتے تھے ہر ایک کے لئے فیض رساں ہوتے تھے لیکن ان کے بعد آنے والی نسلیں ان کے سجادہ نشین اور گدی نشین ان جیسے نہ تھے۔ انہوں نے ان بزرگوں کی قبروں کو اپنے لئے ذریعہ معاش بنالیا۔ وہ اپنی رومانیت کو تصویروں اور دم درددوں کی شکل میں بیچنے لگے۔ آہستہ آہستہ بڑے بڑے خاندان پیدا ہوگئے جو ان شریف اور بزرگ انسانوں کی قبروں اور خانقاہوں کے متولی بن کر بیٹھ گئے گویا زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آگئے۔
یہ سجادہ نشین اور گدی نشین بالکل شہزادوں جیسی زندگی بسر کرنے لگے ۔ بہترین لباس پہنتے، بہترین خوراک کھاتے وہ سب کچھ کرتے جو شہزادگان کیا کرتے تھے ان کے تعلقات دوستیاں بلکہ شادیاں بھی شاہی خاندانوں میں شہزادوں اور شہزادیوں سے ہونے لگیں بلکہ بعض اوقات تو وہ شہزادوں اور شہزادیوں سے زیادہ کر وفر اور شان وشوکت کا مظاہر کرتے تھے مسند ارشاد انہیں میراث میں ملتی تھی اور وہ مریدوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ ان کی حکمرانی دنیاوی اور سیاسی حکمرانوں سے بھی کہیں زیادہ مضبوط تھی اور اب بھی ہے۔ اب ان کے پاس ریاکاری کے سوا کچھ نہیں رہا ہے۔ ان کے ماننے والے آج بھی ہیں لیکن ان کی تعلیمات کا یاجو کچھ بھی وہ ارشاد فرماتے ہیں اس کا اثر مریدوں کے کرداروں میں نظر نہیں آتا خود ان کے اپنے کردا رویے نہیں ہیں جو ان بزرگوں کے تھے جن کی قبروں کو بیچ بیچ کر کھا رہے ہیں۔ لہٰذا ان کی تعلیمات انکی باتیں انکے ارشادات ان کے مراقبے ان کے سجود ان کے اذکارنیم شبی اور ان کی تسبیح سب دکھاوے کی ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اہل تصوف نے اپنی تلقین اور تعلیم کا سارا زور امن پر رکھا کہ لوگوں کو ایک ہمہ گیر محبت میں رنگ دیا جائے امتیاز ات اور اختلافات جو انسانوں کے مابین نہیں انہیں ختم کردیا جائے اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دنیا کی بے ثباتی پر بہت زور دیا۔ اور اسے ایک حقیر اور گھٹیا شے قرار دے کر اس سے دور رہنے کی تلقین کی۔نفی خودی پر بہت زور دیا۔ خودی کو مٹانے اور بیخودی اختیار کرنے کی راہ سمجھائی اور یہ سکھایا کہ
فرید ایویں ہوجا جیویں ککھ مسیت۔
مسیح نے کہا تھا کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے دے تو بجائے جواب میں اس کے منہ پر تھپڑ مارنے کے اپنا دوسرا گال اس کے سامنے پیش کردو۔ ہمارے صوفیاء اس سے بھی آگے چلے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی بن آئی وہ جو چاہتے کرتے رہے لیکن انہیں روکنے ٹوکنے والے کوئی سامنے نہ آیا۔ اس طرح ظلم پنپتا رہا بڑھتا رہا اور طاقتور ہوتا گیا۔ صوفیاء نے نہ خود کبھی اس برائی کے خلاف لڑے اور نہ اپنے ارادت مندوں کو اس تعلیم دی۔ انہوں نے کسی طاغوت کسی فرعون اور کسی ظالم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی نہ خود کبھی سعی کی اورنہ ہی اپنے ارادت مندوں، مریدوں کو اس طرف متوجہ کیا انہوں نے تو مزاحمت کا سبق بھی نہ دیا۔ جہاں کوئی ظالم مخلوق خدا پردست تعدی درازکرتا یہ اس کے خلاف بدعائیں کرتے یا اس علاقے کو چھوڑ دیتے۔ چھوٹے چھوٹے راجے مہاراجے جو ظالم حکمرانوں کی مصنوی اولاد تھے مخلوق خدا کے خلاف ظلم وستم روا رکھتے۔ لیکن صوفیاء کرام اپنے مریدوں کی بڑی بڑی جمعیتیں رکھنے کے باوجود اس ظالم کو ظلم سے روکنے کی قطعاً کوئی کوشش نہ کرتے۔
اس طرح مطلق العنان بادشاہ اور وجاگیردار جس طرح چاہتے اپنی آمرانہ کاروائیاں جاری رکھتے ظلم اور تشدد کرتے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا۔ آگے چل کر جب پیران طریقت گدی نشین اور سجادہ نشین بن گئے تو ان ظالم حکمرانوں متکبر جاگیرداروں اور ان کے مابین دوستیاں ہوگئیں رشتہ داریاں ہوگئیں بلکہ بعض گدی نشین سجادہ نشین خود بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے اور بدیسی حکمرانوں کے کاسہ لیس بن کر ان سے مراعات حاصل کرنے لگے اور یوں یہ لوگ بادشاہت اور جاگیرداری نظام کے مضبوط اور مستحکم بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوئے۔
چنانچہ یہ جاگیرداری اور ظلم اور تشدد کا نظام آج بھی قائم ہے اور دنیا دار بدکردار ظالم اورمتکبر جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ یہ گدی نشین اور سجادہ نشین جواب خود بھی بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے تھے اسی طرح ظلم اور تشدد کرنے لگے۔ لوگوں کی محنتوں کا استحصال کرنے لگے اور پھر یہ لوگ تصوف میں ایسی روایات شامل کرنے لگے کہ جاگیرداری اور ظلم کے نظام کو سہارا ملتا گیا اور یہ ظالمانہ سماج پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوگیا اس طرح تصوف اپنے حقیقی مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہوا۔ تصوف کی کئی صدیوں پر محیط تاریخ کسی ایسے جلیل القدر انسان کو پیدا نہ کرسکی جو دنیا سے ظلم اور استحصال کو مٹانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام کرسکے۔
جس طرح ایک انقلابی فلسفی نے یہ کہہ کرکہ فلسفے کاکام صرف دنیا کی تشریح کرنا ہی نہیں اسے بدلنا بھی ہے، انسانی اذہان کو اور انسانی معاشرے کو ایک انقلابی سوچ اور انقلابی عمل کی راہ سمجھائی۔ اس طرح ضروری تھا کہ کوئی انقلابی صوفی عالم انسانیت کو یہ بتاتا کہ تصوف کا مقصد محض ترک دنیا اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی نہیں دنیا کو بدلنا بھی ہے۔
ہمیں صوفیائے کرام کے اس جم غفیر میں سے صرف سندھ کے ایک صوفی شاہ عنایت نظر آتے ہیں جنہوں نے سرزمین سندھ میں ایک انقلابی تحریک پیدا کی ایک کمیون بنایا۔ اور ٹھٹہ کے قریب انھوں نے اپنے بہت سے پیرو کاروں کو ایک ایسا انقلاب برپاکرنے پر آمادہ کیا جو انسانی معاشرے کو ظلم جبر اور استحصال سے پاک کرنے کا داعی تھا۔ ان کے تمام پیروکاروں نے املاک پرسے ذاتی ملکیت ختم کر دی وہ مل جل کررہتے تھے املاک بھی مشترک تھیں اور محنت بھی مشترک محنت کا حاصل بھی مشترک اور جب ان پر ظلم جبراور ذاتی ملکیت کے حامیوں نے ظلم اور تشدد شروع کیا اوربزور شمشیر جس میں حیلہ سازی اور مکاری بھی شامل تھی اس کمیون کو اور اسے چلانے والوں کو مٹانے کے لئے حملہ آور ہوئے تو خود صوفی شاہ عنایت اور اس کے تمام ساتھیوں نے بڑی بے جگری اور بہادری کے ساتھ لڑکر اس کمیون اور اپنے منشور کی حفاظت کی۔ یہاں تک کہ ان کے ایک ایک فرد نے جام شہادت نوش کیا۔
اب ضرورت ہے کہ شاہ عنایت کے اس صوفیانہ نظریے اور طریقۂ تصوف کو بروے کا رلا یا جائے تاکہ دنیا سے ظلم ختم ہوجائے۔
♠
6 Comments