ڈی جی آئی ایس پی آر، جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کے ساتھ پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسی اور دوسرے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ عالمی برادری کو پاکستان کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیازکاروائی کررہی ہے چاہے وہ حقانی گروپ ہو یا تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ یا کوئی اور گروپ۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان بھی ایک متاثرہ ملک ہے۔
جنرل باجوہ نے حالیہ امریکی ڈورون حملے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں طالبان کے امیر مُلا اختر منصور ہلا ک ہو گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے اور اگر مُلا منصور پاکستان میں تھا تو امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کو بتاتا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مُلا منصور کی ہلاکت سے افغانستان سے جاری مذاکراتی عمل کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
جنرل باجوہ نے پاک بھارت تعلقات پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ پاک فوج کا دفاعی نظام انڈیا سنٹرک ہے کیونکہ بھارت پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔پاک بھارت تعلقات میں کشمیر کا مسئلہ اہم ہے اور پاکستان کی کوشش ہے کہ اسے بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔
شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہو گا جس کا فوجی ترجمان ایک وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دوسرے معاملات پر غیر ملکی میڈیا میں گفتگو کررہا ہے، اس گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بنیاد ی طور پر پاک فوج ہی تمام پالیسیاں ڈکٹیٹ کروارہی ہے اور سویلین حکومت اتنی بے بس ہے کہ وہ جنرل باجوہ کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے پر سرزنش تک نہیں کر سکتی۔
آج پاکستان کو جس عالمی تنہائی کا سامنا ہے وہ پاک فوج کی مہم جو ئی پر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ ہی ہے۔ جنرل عاصم باجوہ کا یہ کہنا کہ عالمی برادری نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے درست نہیں۔ عالمی برادری کے بارہا اصرار کے باوجود پاکستانی ریاست نے جہادی تنظیموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور وہ بدستور پاکستان سے اپنی کاروائیوں میں مصروف ہیں کیونکہ ریاست انہیں ابھی تک اپنا سٹرٹیجک اثاثہ سمجھتی ہے۔
پاکستان نے عالمی برداری سے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر بے تحاشہ امداد لی ہے مگر یہ امداد دہشت گردوں کو ختم کرنے کی بجائے الٹا انہیں مضبوط کرنے پر ہی خرچ ہوئی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف دو سال سے جاری پا ک فوج کاآپریشن ضرب عضب بھی طالبان کی قیادت کوختم نہیں کر سکا۔
جب بھی کسی سویلین حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کرنی شروع کی تو پاکستان کی جہادی تنظیموں نے بھارت میں دہشت گردی کی کاروائیاں کیں۔ جماعت الدعوہ( لشکر طیبہ) اور جیش محمد جیسی تنظیموں کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت ہے ۔ جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کھلے عام بھارت کو للکارتے ہیں اور اسے تباہ کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کئی سال گذرنے کے بعد بھی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
جنرل باجوہ کا یہ کہنا کہ پاکستان کو بھارت سے شدید خطرہ ہے در ست نہیں۔ تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکا ہے جس میں پہل ہمیشہ پاکستان نے کی۔جنگوں کے علاوہ پاکستان کی جہادی تنظیمیں بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں بدستور ملوث ہیں یہ کہہ کر کہ ، پاکستان کو بھارت سے شدید خطرہ ہے ،دنیا کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔
بھارت کئی سال تک کوشش کرتا رہا ہے کہ اسے واہگہ بارڈر کے ذریعے افغانستا ن سے تجارت کرنے دی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے ساتھ دوستانہ تجارت کے کئی مذاکرات ہوئے لیکن ہر دفعہ ان مذاکرات کو جہادی تنظیموں کے ذریعے سبو تارژ کروایا گیا۔ مجبوراً بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر متبادل راستے پر کام شروع کر دیا ہے اور پاکستان اس خطے میں تنہائی کا شکار ہورہا ہے ۔اور ہمارے عسکری پالیسی سازاپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسروں پر الزام تراشی کر نے میں مصروف ہیں۔
News Desk
♠