میراث زِروانی
مُلا اختر منصور کی ہلاکت، بھارتی و افغان سربراہوں کا دورہ ایران اور بلوچستان سرخ دائرے میں
دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے تصادم خیز حالات اور خطے میں جاری کشمکش سے پیدا ہونے والے آثار امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ آنے والے دن پاکستانی مقتدرہ کیلئے نت نئے چیلنجوں سے بھر پور ہوں گے، جن میں بلوچستان کا جغرافیہ و سیاست انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے، بلوچستان کی علاقائی کشمکش میں نمایاں اہمیت و حیثیت کو حال ہی میں ہونے والی سیاسی و معاشی اور سیکورٹی پیش رفت کے حامل بعض واقعات نے مزید اجاگر کیا ہے۔ان میں 22مئی2016ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ ایران ،بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے احمدوال میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں مبینہ ہلاکت ، افغان حکومت اور حزب اسلامی کے سر براہ حکمت یار کے مابین مفاہمت اور امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایف 16جنگی طیاروں کیلئے فنڈز کی فراہمی سے انکار کے بعد فوجی امداد کیلئے نئی کڑی شرائط قابل ذکر ہیں۔
بظاہر یہ تمام پیش رفتوں کا باہم کوئی واضح تعلق نظر نہیں آتا ، لیکن بعض تجزیہ کار انہیں پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے باہم مربوط خیال کرتے ہیں ،اور اسی تناظر میں بلوچستان بھی زیر اثر آئے گا ۔اس حوالے سے قیاس کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ کو خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ و حصول کیلئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ مذکورہ بالا واقعات پاکستان پر دباؤ اور منفی اثرات کے حوالے سے بری خبریں ہیں۔
اس تناظر میں اگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ ایران کا جائزہ لیا جائے تو یہ جس قدر بھارت اور ایران کیلئے سود مند ہے۔ اسی قدر پاکستانی مفادات کیلئے نقصان دہ ہے ،ممکنہ نقصانات کا سب سے اہم محرک ایرانی زیر کنٹرول بلوچستان اور اس کے ساحلی علاقے چاہ بہار میں بھارت کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و سیاسی دلچسپی ہے ۔ اس دورے کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نے چاہ بہار کی بندر گاہ کی تعمیر سمیت اہم اقتصادی معاہدوں پر دستخط کئے ، لیکن سب سے زیادہ توجہ اور اہمیت چاہ بہار پورٹ کی تعمیر سمیت ان اقتصادی منصوبوں کو حاصل رہی جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ماہرین کے مطابق یہ منصوبے چین پاکستان اقتصادی کوریڈور کا توڑ کرنے والی متبادل راہداری سے تعلق رکھتے ہیں ،جس کی تعمیر سے چین پاکستان راہداری اور گوادر پورٹ دونوں کی وہ اہمیت اور بالادستی قائم نہیں ہو سکے گی جس کا دعویٰ پاکستانی مقتدرہ کی طرف سے کیا جا رہا ہے ۔
پاکستانی مقتدرہ نے گوادر تا کاشغرراہداری منصوبے کو صرف چین پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان اور وسطی ایشیاء سمیت خطے کی سیاست و معیشت میں گیم چینجر یا کھیل بدل دینے والے میگا منصوبے کے طور پر پیش کیا۔ گیم چینجر کی اصطلاح غالباً امریکہ و اتحادیوں کی خطے میں جاری نیو گریٹ گیم کے جواب کے طور پر متعارف کرائی گئی ہے ، اور چاہ بہار تا افغانستان تک بھارت ایران راہداری جواب در جواب تصور کی جارہی ہے ،کیونکہ اس راہداری کو بھی گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے ، آخر یہ کونسی گیم ہے جس کو بدلنا مقصود ہے؟کوئی لاکھ انکار کرے لیکن اس حقیقت کو نہیں چھپایا جا سکتا کہ یہ اس گیم کا جواب ہے جوچین وپاکستان اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ و حصول کیلئے کھیلنا چاہتے ہیں ۔
فریقین کے دعوؤں کے مطابق یہ کھیل کسی کیخلاف نہیں بلکہ ان کی بقاء کے حامل بعض مفادات کیلئے نا گزیر ہے مگر ان مفادات کا دائرہ دوسروں کے مفادات کو متاثر کرنے کے نتائج کے باعث یہ کھیل وار گیم میں بدلتا نظر آتا ہے ، اسی لئے مبصرین ان منصوبوں کیلئے کھیل بدل دینے کی اصطلاح کی بجائے کھیل بگاڑنے کی اصطلاح کو موزوں قرار دے رہے ہیں ۔ ان مبصرین کے مطابق خطے پر بالادستی کیلئے امریکہ و اس کے مغربی سامراجی اتحادیوں نے جس نئی گریٹ گیم کو شروع کیا اس میں چین ،روس اور پاکستان کو اتحادی کی بجائے حریف کھلاڑی کے طور پر دیکھا گیا ، اور اس سے خطے میں متحارب صف بندی عمل میں آئی ،تینوں کو اپنی ٹیم سے باہر رکھنے کی وجہ مفادات میں ایسا ٹکراؤتھا جس پر مصالحت اور ہم آہنگی لاکھ کوششوں کے باوجود ممکن نہیں تھی، مفادات میں پایا جانے والا یہی وہ ناقابل مصالحت تضاد تھا جس نے اس گیم کو بدل دینے کا تصور پیدا کیا۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تصور آج نہیں بہت پہلے جنم لے چکا تھا مگر کھیل بدلنے کیلئے جس سیاسی ومعاشی اور عسکری طاقت اور اس کے استعمال کے مواقع درکار تھے وہ پیدا نہیں ہوئے تھے، تاہم اس کی تیاری کا عمل جاری رہا اور جب فریقین کو درکار مواقع دستیاب ہوئے تو کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر وہ اس کھیل میں کود پڑے،جس کا بنیادی مقصد کھیل کا نتیجہ اپنے حق میں بدلنا ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق گوادر تا کاشغر راہداری صرف اس خطے میں جاری کھیل کو بدلنے کے مقاصد کی حامل نہیں ہے بلکہ اس کی تعمیر سے بحیرہ جنوبی چین میں جاری امریکہ و اس کے علاقائی اتحادیوں اور چین کے درمیان کولڈوار گیم کے نتائج بھی اپنے حق میں حاصل کرنا مقصود ہے، جس کا متاثرہ حریفوں کی طرف سے سد باب کرنا اور متبادل راہیں تلاش کرنا لازمی تھا، جوچاہ بہار کی صورت میں انہیں حاصل ہو گیا ہے ۔
انڈیا کا چاہ بہار میں 200ملین ڈالر جس کے حجم میں بتدریج 500ملین ڈالریا اس سے زائد تک اضافہ ہو گا خرچ کرنا انتہائی سستے کا سودا ہے جس کے ذریعے وہ اربوں کھربوں ڈالر کے صرف اقتصادی ہی نہیں بلکہ سیاسی و اسٹرٹیجک مفادات بھی حاصل کرے گا، اس تمام کھیل میں ایرانی ریاست جس طرح بھارت کیلئے باہیں پھیلا رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کو پاکستانی مفادات و تحفظات کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، ایرانی مقتدرہ کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خطے میں جاری کشمکش میں پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو گی ، تاہم بلوچ قومی سوال سمیت بعض معاملات پر ایران پاکستانی مقتدرہ کے ساتھ اشتراک عمل کو ترجیح دے سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود ایران کے بھارت کے ساتھ پائے جانے والے تاریخی اقتصادی ،سیاسی و سماجی تعلقات کے باعث ایرانی جھکاؤ بھارت کی طرف رہے گا۔
لہٰذا ایسی صورت میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ ایران اور طے پانے والے معاہدات کے نتائج خطے میں پاکستانی مقتدرہ کیلئے نئی پیچیدگیاں اور مشکلات سامنے لائیں گے، جن میں بھارت کے علاوہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں مزید بد اعتمادی اور سرد مہری کے پیدا ہونے کا غالب امکان بھی قابل ذکر ہے ۔لازمی بات ہے کہ ایران پاکستان ممکنہ سرد جنگ میں بلوچستان ہی وہ خطہ ہو گا جو براہ راست اس جنگ کا میدان اور فریقین کے ایک دوسرے کیخلاف کئے جانے والے حملوں و منصوبوں کا نشانہ بنے گا۔
حالیہ ڈرامائی تبدیلیوں میں ایک اہم ترین واقعہ افغان طالبان کے سر براہ ملا اختر منصور کی بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے احمد وال میں امریکی ڈرون حملے میں مبینہ ہلاکت کا ہے، اس واقعہ کے زمان و مکان کے چناؤ کو معنی خیز تصور کیا جا رہا ہے ، زمان یا وقت کے حوالے سے اس کا تعلق بھارتی وزیراعظم مودی اور افغان صدر اشرف غنی کی تہران آمد اور افغانستان کی طرف سے پاکستانی مقتدرہ پر دہشتگردی و طالبان کیخلاف اختیار کردہ دوہرے کردار کے الزامات میں شدت اور امریکہ میں حقانی نیٹ ورک کیخلاف پاکستانی کارروائیوں پر عدم اطمینان اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی فوجی امداد کی فراہمی میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں سے ہے۔
جبکہ مکانی طور پر اس تمام کشمکش میں مرکزی و کلیدی حیثیت اختیار کرنے والا خطہ بلوچستان ہے جس نے افغانستان ،بھارت اور ایران کے درمیان اتحادی تکون کو باہم ملانے اور اس ملاپ کے پس پردہ مقاصد کی تکمیل کے حوالے سے فیصلہ کن اہمیت حاصل کرلی ہے۔قیاس کیا جا رہا ہے کہ امریکی ہمدردیاں ، حکمت اور رضامندی بھی اس تکون کے قیام میں شامل ہو سکتی ہے ، کیونکہ چاہ بہار تا افغان ایران بارڈر تک راہداری کا بھارتی،افغانی و ایرانی منصوبہ امریکہ کیلئے پاکستان کا متبادل ثابت ہوسکتا ہے ،جو اسے افغانستان اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی کے سلسلے میں پاکستان پر انحصار کرنے سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اس واقعہ سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ افغان طالبان کی چوٹی کی قیادت نہ صرف پاکستان میں موجود ہے بلکہ اس کی پناہ گاہ بلوچستان کو بنا دیا گیا ہے ، لہٰذا امریکہ ونیٹو سمیت اتحادیوں کی دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ اب کھل کر بلوچستان میں بھی لڑی جائے گی ، جس کا آغاز 21مئی2016ء کے اس براہ راست امریکی ڈرون حملے سے ہو گیا ہے ،اس ضمن میں ایسی رپورٹس بھی سامنے آرہی ہیں، کہ بلوچستان میں امریکی کارروائیاں محض ڈرون حملوں تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ اس کا دائرہ بمبار طیاروں کے استعمال اور بعض صورتوں میں مخصوص زمینی کارروائیوں تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے، ان خدشات کو یقینی بنانے میں امریکی میڈیا میں زیر بحث آنے والی وہ اطلاعات و آراء ناقابل نظر انداز ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اب پاکستان کو سزا دینے کا وقت آگیا ہے۔
اس جارحانہ رویے میں القاعدہ کے سر براہ اسامہ بن لادن کے بعد افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی پاکستان میں موجودگی و ہلاکت کے بعد زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے ، جبکہ اس سے قبل ملا عمر کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود ہیں ، اس حوالے سے کوئٹہ کے گرد سرخ دائرہ لگایا گیا تھا ، اس کے علاوہ نائب طالبان امیر ملا برادر سمیت افغان طالبان کی مرکزی قیادت بلوچستان اور کراچی سمیت مختلف علاقوں سے گرفتار کی جا چکی ہے، امریکہ و افغانستان کا اس بات پر اصرار رہا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ محض ان طالبان سمیت مذہبی شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو پاکستانی ریاست کیخلاف کارروائیاں عمل میں لاتے ہیں جبکہ ان مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں پاکستانی مقتدرہ کا رویہ ہمدردانہ ہے جو افغانستان میں امریکہ و افغان حکومت کیخلاف لڑ رہے ہیں ،یہی شکوہ بھارت کو بھی ہے جس کے بقول انڈیا میں عسکری کارروائیاں کرنے والے پاکستانی مذہبی انتہا پسند گروہ جن میں جماعت الداعوۃ اور جیش محمد کا زیادہ ذکر ہوتا ہے کیخلاف پاکستانی حکومت سخت ترین کارروائی سے گریزاں ہے، ایسی ہی شکایات ایران کو بھی پاکستانی مقتدرہ سے پائی جاتی ہیں ۔
یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ دہشت گردی کیخلاف خطے میں جاری جنگ میں پاکستانی کردار امریکہ و بھارت کے علاوہ افغانستان و ایران جیسے اہم ترین مسلمان ہمسایوں کی نظر میں نا قابل اعتبار اور متنازعہ بن گیا ہے، ایران جو بظاہر پاکستان کے بارے میں مخالفانہ رائے کے اظہار میں محتاط رہا ہے اب ملا اختر منصور کے ایران سے تعلقات جوڑنے کی پاکستانی میڈیا ومختلف حلقوں کی آراء پر شدید رد عمل ظاہر کر چکا ہے ، پاکستانی میڈیا و مختلف حلقوں میں امریکی میزائل کا نشانہ بننے والی گاڑی سے مبینہ طور پر بر آمد ہونے والے ولی محمد کے نام سے جاری اس پاسپورٹ پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے ، جس پر متعلقہ شحص کی ایران سے آمد ظاہر کی گئی ہے ، پاسپورٹ و دیگر دستاویز ات کی چھان بین سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملا اختر منصور جسے ولی محمد کا فرضی نام دیا گیا ہے کئی بار ایران جا چکا ہے ، اگرچہ پاسپورٹ پر دبئی سمیت مختلف ممالک کو روانگی کے بھی اندراج پائے گئے ہیں لیکن ایران سے تازہ ترین آمد کے دعوؤں نے ایران کی پوزیشن کو بھی منفی طور پر متاثر کیا ہے ۔
ملا اختر منصور سے اظہار لا تعلقی اور اس کی ایران آمدورفت کی تمام تردیدوں کے باوجود بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ سے افغان طالبان کے تعلقات میں پیدا ہونے والی بعض بد اعتمادی کے باعث طالبان قیادت خطے میں نئے اتحادیوں کی متلاشی رہی ہے ، جس کے تحت صرف روس ہی نہیں بلکہ ایران سے تعلقات استوار کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ایران طالبان رابطوں کا ایک اہم سبب داعش جیسے مشترکہ دشمن کیخلاف مشترکہ حکمت عملی کو بھی تصور کیا جاتا ہے ، کیونکہ افغانستان میں داعش کا ظہور اور پھیلاؤ طالبان کی بقاء اور اتھارٹی کے قیام کیلئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوا ہے ، اور دونوں حریفوں کے درمیان خون ریز جھڑپیں معمول بن گئی ہیں ، افغان طالبان کو نیٹو افواج و افغان حکومت کے علاوہ داعش کے جنگجوؤں کیخلاف یعنی دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔
جبکہ ایران بھی شام و عراق سمیت خطے میں داعش کیخلاف براہ راست و پراکسی جنگ میں مصروف ہے اور مشرق وسطیٰ کے بعد وہ کسی طور پریہ برداشت نہیں کر سکتا کہ افغانستان جیسے اہم ترین ہمسائے میں داعش جڑیں پکڑے اور مضبوط ہو، لہٰذا یہ بعیداز قیاس نہیں ہے کہ افغان طالبان اور ایران کے درمیان بعض نکات پر ہم آہنگی نہ پیدا ہوئی ہو ، اس کے علاوہ مستقبل میں افغان امن عمل کی کامیابی کی صورت میں طالبان کی اقتدار میں ممکنہ شراکت داری کی وجہ سے بھی ایران کے طالبان سے تعلقات حالات کی ضرورت ہیں ، لیکن پاکستانی حکمرانوں کی طرح ایرانی حکام نے کبھی کھل کر یادبے لفظوں میں اس امر کا اعتراف نہیں کیا کہ وہ افغان طالبان سے کوئی تعلق یا ان پر اثر رکھتا ہے ، جبکہ ایران سے پاکستان کے برعکس اب تک کوئی طالبان رہنما گرفتار نہیں ہوا ، حالانکہ ایران میں بھی پاکستان کی طرح لاکھوں افغان مہاجرین پناہ گزین ہیں ۔
البتہ حزب اسلامی کے سر براہ حکمت یار کے بارے میں اکثر و بیشتر ایسی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ وہ ایران سے روابط میں ہے ، اسی تناظر میں یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکمت یار اور افغان حکومت کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے یا مفاہمت میں ایرانی کردار بھی شامل ہو سکتا ہے ، جو علاقائی تعاون کی اس تکون کے درمیان مفاہمت و ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کیلئے ممکن ہے جو افغانستان ،ایران اور بھارت کے علاقائی اتحاد کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے، جس کا بھر پور مظاہرہ ایران میں تینوں اتحادیوں کے سر براہوں کے درمیان چابہار تا افغانستان نئے ٹریڈ کوریڈور کے مشترکہ معاہدے کی تقریب میں دیکھنے میں آیا ۔ اس تناظر میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ایران بھی افغانستان کے سیاسی و سماجی اور اسٹریٹجک و اقتصادی معاملات سے خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا ، اس ضمن میں طالبان ذرائع کے حوالے سے آنے والی ان میڈیا رپورٹس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملا منصور اختر پر حملہ ایرانی خفیہ اداروں کی فراہم کردہ اطلاع پر کیا گیا ۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی تلخیوں میں ملا منصور کی بلوچستان میں ہلاکت کا واقعہ مزید اضافہ کرے گا ، جس سے دونوں فریقین میں جاری کشمکش شدت اختیار کرے گی، جو دونوں کی مشکلات بڑھائے گی، اور اس سے سرد جنگ کے زمانے کی وہ تلخ یادیں تازہ ہو سکتی ہیں ، جو افغانستان کے ایشو پر ایران اور پاکستان کے ما بین تضادات کی شکل میں تھیں لہٰذا آج ایک بار پھر افغانستان دونوں ہمسایوں کے درمیان تلخیوں کو بڑھانے کا باعث بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔
لیکن منصور اختر کی بلوچستان میں ہلاکت کے واقعہ پر پاکستانی مقتدرہ کیلئے صرف افغانستان و ایران ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ مشکلات و پریشانیوں کا سامنا امریکہ سمیت مغرب کے ساتھ تعلقات میں کرنا پڑے گا ، جن سے پاکستان کے گہرے اقتصادی و سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات وابستہ ہیں ،خاص طور پر پاکستانی معیشت مغربی سامراجی بیساکھیوں کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی طاقت نہیں رکھتی ، اگرچہ دفاعی و عسکری سازو سامان کی بھی محتاجی پائی جاتی ہے، تاہم ان ضروریات کو پاکستانی مقتدرہ روس اور چین سے پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور اس ضمن میں روس پر کافی انحصار کیا جا رہا ہے، لیکن بعض معاملات میں روس امریکہ کا متبادل ثابت نہیں ہو سکا ہے ، خاص طور پو امریکہ سے ملنے والی فوجی امداد میں جو پاکستانی دفاعی معاملات کیلئے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
مبصرین کے مطابق ملا منصور کی بلوچستان میں ہلاکت کا واقعہ امریکی کانگریس کے اس اقدام کو درست قرار دے گا جو اس اہم فیصلہ و پالیسی ساز امریکی ادارے کی طرف سے پاکستان کیلئے فوجی امداد کی فراہمی پر کڑی شرائط عائد کرنے کی شکل میں ہے ، ان شرائط میں ایک حقانی نیٹ ورک سمیت افغان طالبان کیخلاف پاکستانی کارروائیوں کا امریکہ کیلئے اطمینان بخش ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ یہ شرط اس امر کا ثبوت ہے کہ افغان طالبان کیخلاف پاکستانی کردار پر امریکیوں کو قطعی اعتماد و یقین نہیں ہے ، جس میں ملا اختر کی ہلاکت کا واقعہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا ، اور اس کے بعد پاکستان پر امریکی و عالمی دباؤ مزید بڑھ جائے گا ، جس سے نکلنے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے پاکستانی مقتدرہ کو بعض ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، جو اس کے اہم ترین مفادات کے منافی ہوں ،اسی لئے احمد وال واقعہ پر پاکستانی رد عمل کو مبصرین کنفیوژ اور بد حواسی کا شکار قرار دے رہے ہیں ۔
ان حلقوں کے مطابق دباؤ سے نکلنے اور اپنی صفائی کیلئے ولی محمد نامی شخص کے پاسپورٹ کو اچھال کرملا اختر منصور کی ہلاکت کو مشکوک بنایا جا رہا ہے ،اس بحث و مباحثہ کا امکانی مقصد ان دعوؤں کو متنازعہ بنانا ہے کہ ہلاک ہونے والا ملا اختر ہے ، اس طرز عمل سے یہ آس لگائی جا رہی ہے کہ یوں یہ کہا جا سکے گا کہ ملا اختر منصور نہ تو پاکستان میں تھے اور نہ ہی بلوچستان میں ٹارگٹ ہونے والا شخص افغان طالبان کا سر براہ تھا۔ یہ مبصرین کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال سے ڈرامائی طور پر مرنے والے ولی محمد یا ملا اختر کی لاش کو اس کے مبینہ ورثاء کے حوالے کرنے کے واقعہ کو بھی معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ایک انتہائی ہائی پر وفائل کیس کو جس طرح ڈیل کرتے ہوئے غلط ٹیلی فون نمبر اور ایڈریس کے حامل خود کو ولی محمد کا بھانجا قرار دینے والے انجان شخص کو بغیر کسی تصدیق و تحقیق کے لاش حوالے کی گئی ہے اس نے کئی سوالات پیدا کر دیے ہیں، اور یہ کیس مزید پرسرار شکل اختیار کر گیا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کے نتائج سے قبل ہی متعلقہ لاش کو ہسپتال سے غائب کرانا پاکستانی حکومت کی پوزیشن مزید خراب اور بد اعتماد ی میں اضافہ ہو گا ، جبکہ یہ حلقے ملا اختر منصور کی ہلاکت کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کرنے کی بجائے پاکستانی مقتدرہ کی طرف سے اس پر اظہار تشویش اور اس حملے کو پاکستان کی خود مختاری کیخلاف اقدام قرار دیتے ہوئے امریکہ سے کئے گئے شدید احتجاج کو بھی پاکستان کیلئے نئی ممکنہ مشکلات پیدا کرنے کا باعث خیال کر رہے ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق یہ احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کے مستقبل اور خطے میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے سلسلے میں پاکستان اور امریکہ ایک پیج پر نہیں ہیں ، اور دونوں میں ٹکراؤ پایا جاتا ہے ، جو اس واقعہ کے بعد وسعت اختیار کرے گا ، جس کا عکس ان امریکی بیانات میں بڑا واضح نظر آتا ہے ، جو پاکستانی احتجاجی رد عمل کے جواب میں دئے گئے ہیں ، ان بیانات میں پاکستانی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بننے نہیں دے گا اور جب و جہاں بھی ضرورت پڑی دہشت گردوں پر حملے جاری رکھے جائیں گے ۔ تجزیہ کار اس امریکی دو ٹوک اعلان کو خطے اور خاص طور پر بلوچستان میں گہرے اثرات کا حامل قیاس کر رہے ہیں ۔
اس ضمن میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر بلوچستان میں امریکی فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو بلوچستان کے حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں ، اس بین الاقوامی مداخلت بڑھنے سے بلوچستان کا سیاسی مسئلہ بھی کئی نئی صورتیں اور پیچیدگیاں اختیار کر سکتا ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کیفیت میں یہاں بلوچ قومی سوال کے گرد جاری تحریک کو جہاں علاقائی وعالمی سطح پر روابط و پذیرائی حاصل ہو سکتی ہے، وہاں کئی اقسام کے چیلنجوں اور دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا،جس میں ریاستی و خارجی کے علاوہ داخلی چیلنج بھی شامل ہیں ۔
مبصرین کے مطابق سب سے اہم چیلنج تحریک کے داخلی اتحاد اور یک جہتی کا ہو سکتا ہے ، کیونکہ نہ صرف پاکستانی مقتدرہ بلکہ بعض علاقائی و عالمی طاقتیں اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ و حصول کیلئے بلوچ سیاسی و مزاحمتی عمل میں بھر پور مداخلت کی کوششیں کر سکتی ہیں، جس میں طاقت اور لالچ دونوں ذرائع کو برؤے کار لایا جا سکتا ہے، جبکہ پاکستانی حکمران جو موجودہ حالات میں علاقائی و عالمی سطح پر تنہائی و مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں بلوچستان میں جاری تحریک کو کچلنے کے لئے دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر پہلے سے زیادہ وسیع و شدید تر ریاستی طاقت کے ذرائع برؤے کار لا سکتے ہیں ، جس میں مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کا تذکرہ بھی شامل ہو گا ۔
تاہم مبصرین بلوچستان تک وسعت اختیار کرنے والی موجودہ علاقائی و عالمی جنگ جو اب تک پراکسی شکل میں ہے کے جلد خاتمے یا کسی نتیجے پر پہنچنے کے امکانات کو معدوم قرار دے رہے ہیں ،ان حلقوں کے مطابق علاقائی و عالمی طاقتوں کے درمیان جاری اس سامراجی مقاصد کی حامل جنگ میں کسی ایک فریق کے ساتھ بلوچ سماج اور سیاسی قوتوں کا حصہ بننا موجودہ حالات میں درست نہیں ہو گا ، بلکہ اس کے بر عکس اس سامراجی جنگ سے پیدا ہونے والے بحران میں بلوچ حق آجوئی کیلئے جنم لینے والے مواقعوں پر نظر رکھنا ہو گی۔