لیاقت علی ایڈوکیٹ
ستمبر 1974میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا تو اس آئینی ترمیم کی مخالفت بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں ، لبرل اور روشن خیال دانشوروں نے اپنی بساط کے مطابق کی تھی اور ہر میسر فور م پر اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اس واقعہ کو چاردہائیوں سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ لبرل اور روشن خیال آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ ریاست کو کسی شہری کے عقائد کا تعین کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اوریہ فرد کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کون سا مذہبی عقیدہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔
بعد ازاں جب جنرل ضیا ء الحق نے اسلامائزیشن کی آڑ میں احمدی کمیونٹی پر مزید ایسی قانونی پابندیا ں عائد کیں جن کی بدولت ان کے رہے سہے انسانی اور شہری حقوق بھی چھین لئے گئے تو یہ بائیں بازو کی فکر سے متعلق گروپس اور افراد ہی تھے جنھوں نے ان کے حقوق کے حق میں آواز اٹھائی اور آج بھی پاکستان کے سیکولر اور روشن خیال سیاسی گروپس اور دانشور ہی ہیں جو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ احمدیوں کو پاکستان کے شہریوں کے طور پر ان کے حقوق دیئے جائیں اور کسی بھی پاکستانی کو مذہب کی بنیاد پر اس کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنا کسی طور پر جائز اور درست نہیں ہےاور ریاست کو دوسری آئینی ترمیم کو ختم کرنا چاہیے۔ریاست کو مذہب سے علیحدہ کرنا اور بلا لحاظ مذہب ریاست کے تمام شہریوں کے بنیاد ی انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ سیکولر فکر سے وابستگی کے بنیادی عناصر ہیں ۔
لیکن کیا احمدی جو گذشتہ چار دہائیوں سے مذہب کے نام پر ریاستی جبر و ستم کا شکارہیں بطور جماعت اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مذہب اور ریاست کی دوئی ضروری ہے اور یہ کہ شہری حقوق کے لئے مذہب کو بنیاد قرار دینا درست نہیں ہے ۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ جماعت احمدیہ آج بھی اپنے مخالف مذہبی عناصر کی طرح مذہب اور ریاست کے اتحاد کی قائل ہے ۔ یاابھی تک میری نظر سے جماعت احمدیہ کے کسی عہدیدارکی کوئی ایسی تحریر یابیان ایسا نہیں گذرا جس میں سیکولر سیاسی فکر کی تائید کی گئی ہو ۔ گو کہ ذاتی حیثیت میں بہت سے احمدی سیکولرازم کی تائید و حمایت کرتے رہتے ہیں۔، لندن میں مقیم جماعت احمدیہ کے امیر نے اپنے کسی جمعہ کے خطبے میں کبھی یہ نہیں کہا کہ ایک سیکولر ریاست ہی اس دنیا میں امن کی علامت ہے ۔ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے(اگر کوئی ایسی تقریر ہے تو ضرور مطلع کریں )۔
مذہبی اختلا ف کے علاوہ جماعت احمدیہ اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے سماجی خیالات میں سرمو کوئی فرق نہیں ہے ۔تقریباًپانچ سال قبل مجھے جماعت احمدیہ کے مرکز ربو ہ جانے کا اتفاق ہو ا جو بلا شبہ گائڈڈ ٹور تھا ۔ربوہ کی فضا مجھے پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ گھٹن زدہ ، رجعتی اور پسماندہ لگی ۔ ہمارے عام شہروں میں عورتیں برقعے کم پہنتی ہیں لیکن ربوہ میں عورتوں کو برقعوں میں ملبوس دیکھا ۔ مخلوط محفلوں کے سخت خلاف ہیں ۔جن زعما سے گفتگو ہوئی وہ اسی طرح کی جامد مذہبی سوچ کے حامل تھے جیسے کہ ہمارے دوسری مذہبی جماعتوں کے عہدیدار ہیں ۔ وہ بھی دنیا میں احمدیت کے غلبے کے لیے کام رہے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا میں ایک ہی سائنس دان ہے اور وہ ہے ڈاکٹر عبدالسلام جو بلاشبہ بہت بڑے سائنس دان تھے لیکن ڈارون بھی سائنس دان تھے ۔سیاست ان کے نزدیک سر ظفر اللہ پر پہنچ کر ختم ہوگئی تھی۔سر ظفراللہ کی سیاسی غلطیوں اور موقع پرستیوں کےذکرکو احمدی مخالف پراپیگنڈا قرار دیا جاتا ہے۔
جماعت احمدیہ کی قیادت ایک ہی خاندان کے پاس ہے۔ اس خاندا ن کے افراد اور اس کے قابل اعتماد احباب مختلف امور کے انچارج ہیں۔جماعت کا اندورنی نظم وراثت کے تحت چلایا جاتا ہے ۔امیر بننے کے لیے بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد کے خاندان سے تعلق ہونا ضروری ہے ۔ گذشتہ سو سال میں صرف ایک ایسے شخص امیر جماعت احمدیہبنے تھے جس کا تعلق مرزا غلام احمد کی فیملی سے نہیں تھا اور وہ تھے حکیم نوردین۔اور وہ بھی اس عہد میں جب جماعت کے پاس اثاثے نہیں تھے ۔ کہتے ہیں جب کوئی نظریہ اپنے تشکیلی دور میں ہوتا ہے تو اس کے قائدین کا انتخاب کمٹمنٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن جو نہی اثاتے، پراپرٹی اور اقتدار ملتا ہے تو وراثت در آتی ہے ۔
جماعت احمد یہ اور دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں کا ورلڈویو کس قدر مشترک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب یہ تحریک چلی کہ جاگیرداری ختم ہونی چاہیے اور زرعی اصلاحات کی جائیں تو دو مذہبی زعما جاگیرداری کی حمایت میں پورے زور شور سے سامنے آئے ۔ایک تھے امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی جنھوں نے مسئلہ ملکیت زمین لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زرعی اصلاحات ’خلاف اسلام ‘ ہیں اور اسلام جاگیرداری کے خلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود نے بھی ایک کتابچہ لکھا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ حکومت زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداروں سے زمینیں چھیننے کی مجاز نہیں ہے ۔
بنیاد پرستی اکثریتی کمیونٹی کی ہو یا اقلیتی کمیونٹی کی دونوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اگر اکثریتی کمیونٹی کے بنیاد پرست عوام کو عقائد کے نام پر بے وقوف بناتے اور اقتدار حاصل کرتے ہیں تو اقلیتی کمیونٹی کے بنیاد پرست بھی یہی کچھ کرتے ہیں لیکن بعض صورتوں میں اکثریتی کمیونٹی کے بنیاد پرستوں سے کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں ۔کیونکہ ان کے’ زیر قبضہ ‘افراد خوف اور دہشت کی بنا پر بر سر اقتدار گروہ کے خلاف بولنے سے گریز کرتے ہیں ۔
احمدی کمیونٹی کے حقوق کی بازیابی کی جد وجہد اپنی جگہ بر حق لیکن اس کے ساتھ ساتھ بنیاد پرستی کے خلاف بھی ہماری لڑائی جاری ہے۔
♦
One Comment