خان زمان کاکڑ
صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اپنے حاليہ بجٹ ميں درالعلومِ حقانيہ کيلئے صرف ۳۰ کروڑ روپے کی گرانٹ مختص کی ہے۔ سيکولر ناقدين کے خيال ميں يہ ‘جہاد کی يونيورسٹی‘ اور ‘طالبان کے باپ ‘ کے ساتھ ‘طالبان خان‘ کی نظرياتی دوستی کا ايک عملی ثبوت ہے اور چند پارليمانی جماعتوں کی نظر ميں يہ نيشنل ايکشن پلان کی سنگين خلاف ورزی ہے جس میں مدارس کو ريگوليٹ کرنے اور ان ميں اصلاحات لانے کا نکتہ شامل ہے۔
اس پلان ميں يہ بهی ہے کہ دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظيموں کے معاشی سرچشموں کو کاٹ ديا جائيگا ، ان کے ابلاغ کے ذرائع کو تباه کيا جائيگا، پرنٹ، اليکٹرانک اور سوشل ميڈيا ميں دہشت گردوں کو پروپيگنڈا کرنے اور اشتعال انگيز تقارير پهيلانے کی اجازت نہيں دی جائيگی۔ اس کے علاوه اور بهی بہت سارے وعدے لکهے گئے ہيں ليکن عمل تو ايک نکتے پر ہونا تها سو ہوا۔ دو سال کيلئے سپيشل خاکی کورٹس۔
ليکن ميں ايک اور زاويے سے بهی اس مسئلے کو ديکھتا ہوں کہ عمران خان کی حکومت نے درالعلومِ حقانيہ کو ۳۰ کروڑ روپے کی گرانٹ دے کر کيا آئينِ پاکستان کی بنيادی روح کے خلاف کوئی کام کيا ہے؟ ميرے خيال ميں نہيں۔ پاکستان ايک اسلامی رياست، اس کی حاکميت اعلی الله تعالی کے پاس، اس ميں مسلمان کی تعريف، اس کے قوانين اسلام کے عین مطابق، اسلامی نظريات کو ترويج دينا اور اسلامی نظرياتی کونسل کی نگرانی ميں قانونی سازی کرنےوالا پارليمان، اس کے باوجود بهی اگر کسی کو رياست اور مدرسے کے درميان کوئی نامياتی تعلق نظر نہيں آتا تو اس کی سياسی بصیرت بہت ہی محدود اور سطحی ہوگی۔جب تک ریاست طالبان کو دفاعی اثاثے قراردینے کی پوزيشن سے دستبردار نہیں ہوتی، يہ سلسلہ تو اسی طرح جاری رہے گا۔
اگرمدارس کو فارمل اکانومی سے کچھ ‘امداد‘ نہ بهی دی جائے تو کیا انفارمل اور وار اکانومی کچھ کم ہے؟ کيا مدرسہ نظام خود انفارمل اکانومی کو کنٹري بيوٹ نہيں کررہا؟ پيٹرو ڈالر اسلام کے دور ميں مدارس کيا کم سرمايہ دار ہوئے اور ويسے ہی ان کی تعداد چند سو سے ہزاروں تک پہنچ گئی؟ اے اين پی کے سربراه اسفنديار ولی خان جب کہتے ہیں کہ اگر احتساب کرنا ہے تو افغان جہاد ميں جو کرپشن ہوا ہے اس سے شروع کريں، ان کا اشاره پيٹرو ڈالر، اسلام ميں فوج کی بڑهتی ہوئی اقتصادی سلطنت اور اس ميں مدارس اور مذہبی جماعتو ں بالخصوص جماعتِ اسلامی کی حصہ داری کی طرف ہے۔
اسلام کے نام پر وجود ميں آئی ہوئی رياست اور بانی پاکستان کے امنگوں کے مطابق ‘اسلامی نظريات کی تجربہ گاه‘ ميں بهی اگر ايک صوبائی حکومت خدا کی راه ميں ۳۰ کروڑ روپے کا چهوٹا سا نذرانہ پيش نہ کرے تو پهر اس رياست کے بنانے کيلئے اتنی ‘بيش بہاء قربانياں‘ دينے کی ضرورت کيا تهی؟ (وه بیش بہا قربانیاں جوکہ کبهی نہیں دی گئیں۔ مجهے کبهی کبهی يہ گمان بهی ہوتا ہے کہ تقسيم ہند کے دوران جو بدترين فسادات ہوئے تهے شايد ان کو قربانيوں کا نام ديا جاتا ہے)۔
نيشنل ايکشن پلان ميں مدرسہ ریگوليشن کے نکتے سے ہميں سرے سے ہی اتفاق نہيں اس لئے کہ ہميں کوئی مدرسہ رياست کے ڈومين سے باہر کم کرتے ہوئے نظر نہيں آتا، کم از کم نظرياتی اور سٹريٹجک ڈومين سے تو بالکل باہر نہیں جب بھی پاکستانی ریاست جب بهی پاکستانی رياست کی جديد نوعيت اور اس کی مضبوطی پہ سوچتا ہوں تو مجهے کوئی چيز بهی اس کے دائره اختيار سے آزاد نظر نہيں آتی۔حتیٰ کہ ‘برے طالبان‘ بهی اس کے دائره اختيار سے آزاد نظر نہيں آتے۔ مدرسہ نظام تو بہت ہی کام کی چيز ثابت ہوا ہے۔مدرسہ نظام آخر رياست کے دائره اختيار سے نکل کر کہاں جائيگا؟ کيا رياست اور اس کے درميان کوئی بڑا نظرياتی تضاد ہے کہ ايک دوسرے کے ساتھ تصادم پہ اتر آئينگے؟
ڈاکٹر پرويز ہود بهائی جيسے لبرل بہادر (مسجد بمقابلہ رياست) کے عنوان کے تحت مضمون لکھ سکتے ہيں۔ميں تو اس طرحسوچ بهی نہيں سکتا۔ مجهے ايسا کوئی مقابلہ دور دور تک کہيں نظر نہيں آتا۔سول سوسائٹی کے ہيرو جبران ناصر اور سب پہ بھاری فرزانہ باری اپنی مسجد کو ري کليم کرتے رہیں گے ليکن مسجد جس کے ہاتهوں چلی گئی ہے وه بڑے مضبوط ہاتھ ہيں يہ سول ملٹری سوسائٹی اپنے سر پہ ماں جيسی رياست کا ہاتھ ديکهنا تو پسند کرتی ہے ليکن کسی ملا کے سر پہ نہيں۔اس ميں حسد کا عنصر شامل ہے، جس طرح ايک بچہ چاہتا ہو کہ ماں اس کے ديگر بچوں کی نسبت اس سے کچھ زياده محبت کريں۔ميں ايک سکے کے دو رخ والی بات کبهی نہيں کرونگا۔ اس سکے کے کئی رخ ہيں۔
پاکستان ميں ہميشہ‘ سچ‘ لکهنے والے تجزيہ نگار حامد مير نے (۳۰ کروڑ کا مخمصہ) کے عنوان کے تحت اپنے مضمون ميں اے اين پی اور پيپلزپارٹی کے سامنے‘ تاريخی شواہد‘ رکھ کر انہيں اس مسئلے ميں عمران خان کی حکومت پر تنقيد کرنے سے باز رہنے کی تلقين کی ہے۔پاکستان ميں ‘سچ‘ لکهنے اور بانٹنے والے صحافيوں کے کچھ بڑے مقبول اقوالِ زریں ہوتے ہيں۔ جيسا حامدِ مير کا يہ قولِ زرين کہ “دیانتداری سے تجزيہ کيا جائے تو مولانا سمیع الحق کی سياست سے اختلاف کيا جاسکتا ہےلیکن دارالعلوم حقانيہ کی علمی حیثيت کو آسانی سے نظرانداز کرنا کافی مشکل ہے“۔
مجهے ميرصاحب کی زبان ميں بات کرنا دیجیے گا۔ ديانتداری سے تجزيہ کيا جائے تو حامد میر کی صحافت سے اختلاف کيا جاسکتا ہے ليکن آغا وقار کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر پانی سے کار چلانے کے دوران مير صاحب کی پاکستان کے ساتھ اور پاکستان ميں چهپی ہوئی صلاحيتوں کے ساتھ جو محبت ٹی وی سکرين پہ نظرآتی تهی اس کو آسانی سے نظرانداز کرنا کافی مشکل ہے۔
حامد مير نے درالعلوم حقانيہ کی‘ علمی حیثيت‘ اور ۳۰ کروڑ روپے کی گرانٹ کو جواز فراہم کرنے کیلئے سميع الحق کی ڈائری سے‘تاريخی حوالے‘ پيش کيے ہيں. وه لکهتے ہیں،“اس ادارے کی تاريخ يہ بتاتی ہے کہ ۱۹۴۷ ميں مولانا عبدالحق مرحوم نے ايک مسجد ميں يہ مدرسہ قائم کيا تو اے اين پی کے سابق صدراجمل خٹک مرحوم ان کے ساتھ تهے اور کچھ عرصہ اس مدرسے ميں استاد بهی رہے“۔
آگے لکهتے ہيں، “خان عبدالغفار نے بهی دارالعلوم حقانيہ کا دوره کيا۔” اور پهر يہ تاريخی حوالہ ارشاد فرماتے ہیں، “مولانا عبدالحق نے ۱۹۷۰ کے انتخابات میں اجمل خٹک کو شکست دی اور قومی اسمبلی ميں پہنچ کر آئين سازی میں اہم کردار ادا کيا۔ پيپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے صوبائی گورنر حیات محمد خان شیرپاو اور دوسرے گورنر ارباب سکندر خان خليل اس دارالعلوم کے دورے کرتے رہے اور اپنی جيب سے اسے چنده ديتے رہے۔
ڈائری کے مطابق ايک دفعہ خان عبدالولی خان اور افضل خان لالہ بهی دارالعلوم حقانيہ آئے اور ولی خان نے اپنی جيب سے سو روپے چنده ديا۔ ولی خان نے دارالعلوم کی تاثراتی کتاب ميں لکها کہ يہ ان کا تيسرا دوره تها۔ وه پہلی مرتبہ اپنے والد اور دوسری مرتبہ مولانا بهاشانی کے ہمراه وہاں آئے۔” مضمون کے آخر ميں حامد مير نے ايک بہت مشکل سوال چهوڑ رکها ہے، “اس ادارے کو طالبان کی نرسری اور بينظير صاحبہ کے قاتلوں کی آماجگاه قرار دينے والے يہ بهی بتائيں کہ ان کے بزرگ اس ادارے ميں کيوں جايا کرتے تهے اور اپنی جيب سے چنده کيوں ديا کرتے تهے“۔
پس حامد مير نے يہ ثابت کرديا کہ دارالعلوم حقانيہ کو ۳۰ کروڑ روپے کی گرانٹ اس مدرسے کی علمی حیثيت کی وجہ سے ملی ہے ۔ اے اين پی کے بزرگوں نے جب اس مدرسے کے دورے کيے ہيں تو اس کے موجوده ليڈرز کو ۳۰ کروڑ روپے کی گرانٹ پہ تنقيد کرنے کا کوئی حق نہيں۔ ولی خان، اجمل خٹک، افضل خان لالا اور ارباب سکندر خان خليل اگر افغان جہاد سے پہلے کسی سياسی مقصد کے تحت اس مدرسے ميں گئے ہيں تو اس کی وجہ سے اے اين پی پہ يہ لازم ہوجاتا ہے کہ وه اس مدرسے پہ کبهی بهی کوئی تنقيد نہيں کريگی۔
اگر اس مدرسے کے سربراه طالبان کو اپنے بچے قرار ديتے ہيں يا طالبان کے ليڈرز اس مدرسے سے فارغ ہوکرکے ڈیورينڈ لائن کی دونوں طرف پشتونوں کا قتلِ عام کرتے ہيں، اے اين پی کو کچھ کہنے کا حق نہیں۔ اے این پی کو اس وجہ سے بهی خاموشی اختيار کرنی چائيے کہ اس کے ليڈر ولی خان نے اپنی جيب سے درالعلوم حقانيہ کو سو روپے کا چنده ديا تهاجبکہ تحريک انصاف کی حکومت نے اپنی جيب سے نہيں بلکہ پبلک فنڈز سے ۳۰ کروڑ روپے کی گرانٹ دی ہے۔ جيب اور بجٹ ميں بہت فرق ہے۔
پاکستان ميں بجٹ ہمیشہ خدا کی راه ميں لگایا جاتا ہے۔ دفاعی بجٹ، اسلامی نظرياتی کونسل کا بجٹ، مدرسے کا بجٹ وغيره وغيزه. یہ تو اب ۳۰ کروڑ روپے کی ‘قلیل‘ رقم ہے، اگر کبهی اس کی دس گناه رقم بهی اس مدرسے کو دی جائے تو حامدمير اے اين پی کو ياد دلائے گا کہ آپ کے رہبرِ تحريک ولی خان نے بهی تو سو روپے اس مدرسے کو ديے تهے۔
حامد مير يہ بتانا بهول گئے ہيں کہ افغان جہاد سے پہلے دارالعلوم حقانيہ کی علمی حیثیت کيا تهی؟ انہوں نے یہ بتانا بهی پسند نہيں کيا ہے کہ ۱۹۴۷ء ميں اجمل خٹک کی عمر کتنی تهی؟ اے اين پی کو ٹارگٹ کرنے، اس کے اوپر کرپشن کے الزامات لگانے اور اس کو اقتدار سے باہر پهينکنے کی وجہ شايد اب لوگوں کی سمجھ ميں آئی ہوگی۔ تحريک انصاف اور جماعت اسلامی کيلئے گراونڈ بنانے کے پیچھے وجہ صوبہ پختونخوا ميں طالبان کيلئے گنجائش پيدا کرنی تهی۔
اے اين پی کی حکومت نے بڑی حد تک طالبان کيلئے معاشرے ميں گنجائش ختم کردی تهی اور اس کے نيٹ ورکس کو ڈسٹرب کيا تها۔ جب سے اے اين پی کے پاپولر سپورٹ ميں کرپشن جيسے الزامات کے ذريعے کمی لائی گئی ہے، تب سے دہشت گردوں کيلئے فضاء سازگار بنتی جاری ہے۔پشتون معاشره جو نظرياتی طور پر دہشت گردوں مقابلہ بڑے شاندار طريقے سے کررہا تها اس کو اب کسی اجنبی حکومت کے ذريعے ايک انتہائی خطرناک طريقے سے پیچھے دکهيلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس دليل ميں وزن ضرور ہے کہ اصل مسئلہ تو طالبان، طالبان کا باپ اور طالبان خان نہيں بلکہ اصل مسئلہ رياست بذات خود يا کچھ نرم الفاظ ميں رياست کی غلط پاليسی ہے۔ ليکن اس دليل کو جواز بنا کر اگر ہم مڈل کلاس کے مسیحا عمران خان کو ايکسپوز کرنے ميں کوئی سستی کرينگے تو طالبان خانی ہمارے لئے سیاست کی گنجائش کم کرتی رہے گی اور ہم‘ اصلی ذمہ دار ‘کی نشاندہی کرنے کے مخمصے ميں پڑے رہينگے۔ طالبان اور طالبان خان کی مخالفت براه راست تزويراتی گہرائی کی پاليسی کی مخالفت ہے جس کی سزا اے اين پی نے سب سے زياده بھگتی ہے۔
اگر ہم عمران خان کا کرپشن کا بیانیہ خود اسی پر واپس کريں تو حقانیہ مدرسے کو ۳۰ کروڑ روپے کی گرانٹ پبلک آفس کا غلط استعمال اور کرپشن ہےجو کہ دفاعی بجٹ کے بعد سب سے بڑی کرپشن ہے۔
Twitter: @ khanzamankakar
6 Comments